Saturday, February 21, 2009

کہانی اور یوسا سے معاملہ

Mario Vargas Llosa, Mohammad Umar Memon, Mohammad Hameed Shahid

فکشن: تیکنیکی بھید‘فنی لوازم اورنئے مباحث
محمد حمید شاہد:محمد عمر میمن
ماریو برگس یوسا
( Mario Vargus Llosa)
کی کتاب
Letters to a Young Novelist
اور اردو فکشن کے حوالے سے مکتوباتی مکالمہ

ابتدائیہ1:کہانی اور یوسا سے معاملہ


ابتدائیہ1:کہانی اور یوسا سے معاملہ
ماریو برگس یوسا
( Mario Vargus Llosa)
کی کتاب
Letters to a Young Novelist
اور اردو فکشن کے حوالے سے محمد حمید شاہد اور محمد عمرمیمن کے درمیان ہونے والا ایک مکتوباتی مکالمہ

محمد عمر میمن

یوسانے اپنی کتاب ”نوجوان ناول نگار کے نام خطوط“میںفکشن کی فنّی عملیات سے بحث کی ہے جس کے ذریعے وہ تخیلی دنیا تخلیق ہوتی ہے جواپنے حسنِ ترغیب (یا قوتِ تاثیر)کے باعث کاملاً غیر حقیقی یا تخیلی ہونے کے باوجود حقیقی دنیا کا التباس پیدا کرتی ہے؟کتاب میں کل بارہ خط شامل ہیں۔ پہلے دو خطوں میں یوسا اپنے نوجوان مخاطب کو ان فنّی لوازمات سے آگاہ کرتا ہے جو اس کی دانست میں کسی اچھے ناول کی اساس ہوتے ہیں۔ تیسرے خط میں وہ ”قوّتِ ترغیب“ سے بحث کرتا ہے،جس پر فکشن کی کام یابی کا دارومدار ہوتا ہے۔ لیکن فکشن کی وہ صلاحیت جو نیرنگِ خیال پر حقیقت کا دھوکا دلاتی ہے، اس کے اجزاے ترکیبی کیا ہیں؟ اگلے آٹھ خطوں میںان اجزا پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ یہ اجزاے ترکیبی یا رموز، علی الترتیب،یہ ہیں: ”اسلوب“، ”راوی اور بیانیہ مکان“، ”زمان یا وقت“، ”حقیقت کی سطحیں“، ”انتقالات اور کیفی زقندیں“، ”چینی ڈبّے یا روسی گڑیاں“، ”پوشیدہ حقیقت“، اور”کم یونی کیٹنگ وَے سِلز“۔ آخری خط ، ”بہ طورِ پس نوشت“، میںیوسا مشورہ دیتا ہے کہ پچھلے سوا سو صفحوں میں جو کچھ کہہ چکا ہے ا سے دریا برد کردیا جائے اور ناول لکھنا شروع کردیا جائے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ تنقید، چاہے کتنی ہی سخت گیر اور وجدانی کیوں نہ ہو، امرِ تخلیق کی مکمل توجیہہ کرنے کی اہل نہیں ہوتی۔ ایک کام یاب فکشن یا نظم میں ہمیشہ ہی ایک عنصریا بُعد ایسا ہوتا ہے جو عقلی تنقیدی تجزیے کی گرفت میں نہیں آسکتا۔ اس کتاب میںمکتبی تنقیدکا جبرنہیں، رسمی زبان کا قبض بھی نہیں، اگر کچھ ہے تو یہ ایک اول درجے کے تخلیقی فن کار کی متانت، اعتماد، اور انساینت ساز انکساری ہے، جو تنقید کا منکر نہیں لیکن جو پاسبانِ عقل کو کبھی کبھی تنہا چھوڑدینے کی دل نواز ضرورت سے بھی آگاہ ہے۔یہ کتاب میں نے دو تین سال پہلے پڑھی تھی اور اسی وقت سے اس کے ترجمے کاخیال رہا تھا، جو اب میں نے کرلیا ہے۔ پوری کتاب جانے کب چھپے، فرشی صاحب نے عنایتاً اسے اپنے ”سمبل“ میں قسط وار چھاپنے کی ابتدا کردی ہے۔ پہلے دو خط وہاں چھپ چکے ہیں۔انھیں پڑھ کر محمد حمید شاہدصاحب کو ان پر کچھ کہنے کی تحریک ہوئی اور انھوں نے فکشن کے بارے میں اپنے خیالات کا نچوڑاپنے خطوط میں پیش کردیا ہے۔ ان خطوں کو پڑھ کر مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ یہ کہیں چھپ جائیں تاکہ یوسا نے جن نکات کا اظہار کیا ہے اور جس طرح شاہد صاحب نے ان پر مزید بحث کی ہے، خاص طورپر اردو کے ہمارے مقامی اور معاصرمنظر نامے کی رعایت سے، اس سے ہمارے اردو داں طبقے کو بھی کچھ فائدہ پہنچے۔ سوان کی اور میری مراسلت حاضر ہے۔ اس مراسلت کو ”مکالمے“ سے زیادہ ایک ”خود کلامیہ“ کہنا چاہیے، کیوں کہ اس میں میرا کردار بس واجبی سا ہے۔ایک تابعِ مہمل کا۔ اس برات کے اصلی دلھا میاں تو شاہد صاحب ہیں، مجھے زیادہ سے زیادہ وہ جسے مغرب میں دلھا کا ”بیسٹ مین“کہا جاتا ہے، بس وہی سمجھا جائے، یا نوشے کا برادرِ خورد جسے بھی، کبھی کبھی، دل رکھنے کی خاطر، گھوڑے پر بٹھا لیا جاتا ہے۔انھیں پڑھ کر میری طرح آپ بھی شاہد صاحب کے ادب سے سنجیدہ لگاو اور تفاعل، غیر معمولی لگن اور اس کے مباحث کی بابت ان کی تیز فہمی کے قائل ہوجائیں گے۔

—محمد عمر میمن میڈیسن‘ امریکا

2: ادیب اور معاشرتی قدرومنزلت


ادیب اور معاشرتی قدرومنزلت

محمد حمید شاہد

پیارے عمر میمن

:آداب‘

بھئی اتنی ساری پُرلطف باتیںتمہاری طرف سے اوپر تلے ہو گئیں کہ مزا آگیا۔ روزسوچتا ہوں‘ تمہارا شکریہ ادا کروں گا؛ روز سوچتا رہ جاتا ہوں اور ڈھنگ سے فراغت نہیں پاتا کہ تفصیل سے لکھ پاﺅں ۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ جو میں اب روا روی میں چند سطریں گھسیٹنے بیٹھ گیا ہوں ،اس سے حق ادا نہ ہوگا ۔ ”سمبل“راول پنڈی ،میں ماریو برگس یوسا نے درست کہا ہے:”” جو لوگ ادبی لگن سے سرفراز ہیں وہ اس کے تخلیقی تجربے کو ہی اپنا انعام گردانتے ہیں ۔“ یہ اور اس طرح کی پرلطف باتیں تم ترجمہ نہ کرتے تو میرادِھیان اِن کی طرف کیسے جاتا؟ اور اگر جاتا بھی تو شاید بہت دیر ہو جاتی ۔ رات ایک کہانی لکھنے بیٹھا تو جانتے ہو میں ماریو برگس یوسا کی اس عام سی بات کے اتنا زیر اثر تھا کہ لکھنے کے دوران عجب طرح کا لطف لیتا رہا۔ تو یوں ہے کہ جو تراجم تم نے کیے اور جس تواتر سے کیے ان کی بابت سوچتا ہوں تو تمہارا احسان ماننا پڑتا ہے۔ تم نے نہ صرف اُردو اَدب کا دامن مالا مال کیا ہمیں بھی اپنے تجربے میں شامل کیا ہے۔ ماریو برگس یوسا کے نوجوان ناول نگار کے نام خطوط پڑھتے ہوئے بار بار میں نے اپنے بارے میں سوچا ہے کہ آخر میں نے کب ڈھنگ سے کوئی خط لکھا تھا ؟ کبھی نہیں ۔ ہاں کبھی نہیں ۔ مجھے خط لکھنا آیا ہی نہ تھا کہ ادھر ٹیلی فون پر بات کرنے کا زمانہ آگیا ۔ پھر ای میل کی سہولت نے تو میرے مزاج بگاڑ کر رکھ دیے ہیں ۔ اب ایک مدت کے بعد خط لکھنے کا خیال آیا تو ڈھنگ سے اس کا مضمون سوچنے کی مہلت اور اسے ایک ترتیب سے لکھ لینے کی للک بہم نہ ہو رہی تھی۔ بھئی اب اگر اس خط کی عبارت جگہ جگہ سے اُچٹی ہوئی معلوم ہو تو مجھے معاف کر دینا۔ ماریو برگس یوسا کی یہ بات کہ:” ادیب کی معاشرتی قدرومنزلت الل ٹپ ہوتی ہے“ مجھے بجا لگتی ہے اور یہ بھی کہ ادیب اپنے بھیتر میں اور بہت گہرائی میں چیزوں کو محسوس کرنے لگے،اسی کو طرزحیات بنالے تو بات بنتی ہے۔ فکشن کے حوالے سے اس کی یہ بات کہ:” یہ بغاوت کا نام ہے“کتنی حیرت انگیز مگر کتنی مناسب اور برحق ہے ۔ اگر لکھنے والا بالکل ویسی ہی زندگی پر قناعت کرلے جیسی کہ وہ دیکھتا اور برتتا ہے اور اس سے بغاوت نہ کرے تو کہانی کا اختراع ممکن نہیں رہتا۔ کم از کم میرے ہاں تو یہی ہوتا رہتا ہے ۔ ایک مسلسل اضطراب نے مجھے کہانی کی طرف راغب کیا اور یہی اضطراب مجھے لکھنے کے لیے اُکساتا ہے۔ ایک اور چیز جو اِس مقام پر مجھے کہہ دِینا ہوگی،یوں ہے کہ محض دِل بہلانا اور یوں ہی کسی منظر ، واقعے یا حادثے کو لکھ لینا ،لکھنے کے باب میں ریاض کا درجہ رکھتا ہوگا،ضرور رکھتا ہوگا مگر ایک فکشن نگار جس ڈھنگ اور اسلوب حیات کو اپنا لیتا ہے اس میں زندگی کو عمومیت اور بوسیدگی سے بچالینے کا چلن بنیادی وتیرہ ہوجانا چاہیے۔ شاید اِسی لیے لکھنے والے کا اپنے وجود کے اضطرابی آہنگ سے جڑنا لازم ہوجاتا ہے ۔ اوہ بھئی ایک بار پھر— اور اس بار میلان کنڈیرا کی تحریر— تو یوں ہے پیارے کہ بہت پہلے ”وجود کی ناقابل برداشت لطافت“ کو پڑھا تھا اور اپنے ایک مضمون میں اس کی بابت کچھ لکھا بھی تھا۔ اس پر بنی ہوئی فلم دیکھی تھی اور حال ہی میں اس پر ڈاکٹرضیاءالحسن کا مضمون ”سمبل “ہی میں پڑھا ۔ اب تمہارا ترجمہ پڑھتا ہوں تو مجھے اچھا لگتا ہے۔ جی چاہتا ہے تم اسے مکمل چھپوا دو۔ کئی لوگوں سے میں نے تمہارے اِس ترجمے کی بہت تعریف سنی ہے ۔ لوگ پڑھ رہے ہیں، تمہاری طرف متوجہ ہیں اورمجھے اس میں مزا آرہا ہے۔ تم نے شاندور مارئی سے ”دنیا زاد“ میں ملاقات کروائی تھی۔ اب آصف فرخی کراچی سے آیا تو کتاب ”انگارے“دے گیا ہے۔ بھئی تم تو کمال ہمت اور مزاج رکھتے ہو۔ میں تمہارے اِنتخاب کی داد دیتا ہوں ۔ شاندور مارئی کو جہاں پڑھنا اچھا لگا ،وہیں میں اس بات کو بھی ماننے لگا ہوںجو نیر مسعود نے کہی ہے کہ پورے ناول کے لیے تم نے الگ زبان وضع کر لی ہے۔ تم نے اپنے ایک گزشتہ ترجمہ کے ذریعہ مجھ سے افسانہ (”چٹاکا شاخ اِشتہا کا“، مطبوعہ” سمبل“)لکھوا لیا تھا اور اب میرا جی چاہتا ہے کہ ایک اِعتراف تمہیں پیش کروں اور وہ یہ ہے کہ تم یہ جو ترجمہ کرتے ہوئے اپنی زبان کا محاورہ نہیں بھولتے ‘سچ پوچھو تو ہم جیسوں کا دِل اَپنی مٹھی میں کرلیتے ہو۔ نئی نئی تراکیب کا سوجھنا اور اِن ترکیب کو متن میں یوں رکھ دینا کہ اپنی نشست پر ٹھیک ٹھیک بیٹھ جائیں،تحریر کو نیا بنا دیتا ہے۔ خوب بھئی خوب۔ایک رسید اور:یہ رسید ہے ”سالنامہ دراسات اُردو“ کی ۔ تف ہے مجھ پر کہ یہ تحفہ ملا تھا تو اِس پر ندیدوں کی طرح جھپٹ پڑا تھا اور ایک آدھ روز میں اسے یوں چاٹ کر اُٹھا جیسے سیونک لکڑی چاٹ جاتی ہے مگر تمہیں رسید تک نہ دی۔ ایک دفعہ پھر : خوب بھئی خوب۔لو، خط لمبا ہوگیا ۔ اس باب میں بہت سی بات ہونی ہیں لیکن پھر سہی کہ جس سلیقے سے بات کرنے کا ”سالنامہ دراسات اردو“ کی طرف سے تقاضا ہے وہ اب دست رس میں نہیں رہا ۔ادھر کے تمام احباب کو میری طرف سے آداب ہو۔ اسلام آباد کے لیے کارلائق ہو تو بے دھڑک کہو۔

تمہارا

محمدحمیدشاہد

اسلام آباد : ۱۱ اپریل، ۸۰۰۲

محمد عمر میمن

حمید شاہد صاحب
السلام و علیکم
میں تو مایوس ہو چکا تھالیکن،بہ ہر حال، آپ نے اپنی خوش گوار دل نوازی سے چونکا دیا۔ حضرت،اگر آپ نے خط رواروی میں لکھا تھا،تو خدا آپ کو سلامت رکھے اور اس کا زور فزوں تر کرے ۔ آپ نے خط کیا لکھا ہے،داد و تحسین کا ایک سیل رواں جاری کر دیا ہے۔ میں تو اس روانی بے دریغ میں گردن گردن نہا گیا(جی تو چاہتا ہے لکھوں: دودھوں نہا گیا )۔ بھئی مجھے نہیں معلوم تھا کہ آپ کو یہ تراجم اتنے بھا جائیں گے، ورنہ سارے کام چھوڑ کر صرف ترجمے ہی کرتا۔ مجھے کوئی خبر وبر ملتی نہیں کہ ان سے کسی کا بھلا ہو رہا ہے،ہاں ”ڈان “دیکھنے پر اندازہ ہوتا ہے کہ ایک سے ایک عبقری جتا ہوا ہے اور آئے دن شا ہ کار تولد کیے جار ہے ہیں۔ اور اب آپ رائے دینے پر آئے ہیں تو اس کے وفور کو دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ آپ محسوس صادقہ لکھ رہے ہیںیا،جیسے یہاںکہا جاتا ہے،مجھ بے چارے کی ٹانگ گھسیٹ رہے ہیں۔آپ کو یوسا کے خطوط پسند آئے ۔ مجھے اندازہ نہیں تھاکہ آپ ان سے اس درجہ متاثر ہوں گے ۔ لیکن اچھی بات ہے کہ انھیں کم از کم ایک سنجیدہ قاری تو ملا۔ بھائی، انہیں ”سمبل“ میں چھپوانے کا یہ ہے کہ پوری کتاب، جو بارہ خطوں پر مشتمل ہے، میں نے سال بھر پہلے ترجمہ کرلی تھی۔ میں نے فرشی صاحب کوپیش کش کی تھی کہ ہر شمارے میں چند خطوط شائع کردیا کریں ۔ وہ کنڈیرا کے ناول کا ایک حصہ ہرشمارے میں چھاپنے کے لیے تیار ہو گئے لیکن لکھا کہ یوسا کو تسلسل سے ہر شمارے میں طبع کرنے کی بہ جائے کبھی کبھار چھاپنا پسند کریں گے ۔ میں امریکا میں ۴۴ سال سے ہوں۔ یہاں سانس بھی انگریزی میں لینی پڑتی ہے،ورنہ حقہ پانی بند ہو جائے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اردو بھولتا جارہاتھا۔ سوچا ترجمے ہی کرو۔ اردو کی بھی بازیافت ہوجائے گی اور وقت بھی اچھا گزر جائے گا۔ سو یہ پچھلے دوسال کتابوں اور ادیبوں کے ساتھ بڑی طویل صحبت میں گزرے ہیں ۔ میں نے کوئی آٹھ دس ناول ترجمہ کرلیے ہیں،چند مضامین وغیرہ بھی۔ مصیبت یہ ہے کہ انہیں کہاں چھپواﺅں ۔ آصف کا بھلا ہو کہ انھوں نے چار کتابیں چھاپ دیں ۔ وہ سبھی چھاپنے کوتیار ہیں ۔ لیکن کیا کروں،اپنی جمالیاتی حس کا مارا ہوا ہوں۔ مجھے ان کی چھاپی ہوئی کتابیں صوری اعتبار سے پسند نہیں آئیں ۔ کچھ ”بھاگتے کی لنگوٹ والا“ مضمون نظر آیا ۔ وہ اتنے مصروف آدمی ہیں کہ اس سلسلے میں شاید کچھ کرنا چاہیں تو بھی کچھ نہیں کرسکتے۔ سو یہ تراجم کیبنیٹ میں پڑے خاک پھانک رہے ہیں۔ اب میں ایسا سورما بھی نہیں کہ چھپوانے کے لیے کوہ قاف جا پہنچوں،بس بساط بھر اپنے مقامی کے ۔ٹو کی ترائیوں میں چہل قدمی کر آتا ہوں ۔ سوچتا ہوں،ترجمہ کرنے سے میرا مقصد تو پورا ہوگیا (خوش وقتی اور زبان کی کسی قدر بازیافت )، اب یہ چھپیں نہ چھپیں کیا فرق پڑتا ہے۔ خیر،میں جو کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اگر یہ آسانی سے اور سلیقے سے چھپ جائیں تو تھوڑی بہت دوڑ دھوپ کر سکتا ہوں،ہفت اقلیم سر کرنے کا یارا اور ہمت نہیں اور نہ اپنے جسم ناتواں کو دیکھتے ہوئے اس کا بیڑا ہی اٹھایا ہے۔ اگر آپ کو کسی پبلشر کا علم ہو تو بتائیں، اس سے بھی رجوع کرکے دیکھ لیا جائے۔ لیکن میری کچھ شرطیں ہوں گی،جن میں مال وال شامل نہیں ہوگا۔ کچھ مل گیا تو ٹھیک، نہ ملا تو وہ بھی ٹھیک۔ میں نے الحمرا کی چند مطبوعات دیکھی تھیں اور وہ کم از کم صوری اعتبار سے پسند آئیں ۔ میں نے شفیق ناز صاحب کو الحمرا کی ویب سائیٹ پردےے ہوے پتے پر ای۔میل بھیجی تو اس کا جواب نہیں آیا ۔ ان کے ذاتی ای ۔میل کا پتا میرے پاس ہے نہیں۔ ایک زمانے میں، جب ابھی الحمرا کاکام شروع نہیں ہوا تھا، انھوں نے مجھے کئی بار فون کیا تھااور ای۔میل بھی بھیجے تھے ۔ میں نے جواب بھی دیے تھے۔ لیکن ڈھونڈا تو پتا ملا نہیں ۔ سو میں نے اپنی کر دیکھی، اس سے زیادہ کی استطاعت کی توفیق میرے خالق نے مجھے دی نہیں۔بھائی ،چوں کہ اشاعت وغیرہ کا ذکر چل نکلا ہے، آپ کو اگر چند معتبر اور معیاری جرائد کا علم ہو تو بتائیں، میں تراجم کے چند ٹکڑے انھیں بھیج دوں گا۔ اس طرح کچھ چیزیں لوگوں کے مطالعے میں آجائیں گی۔ اس فہرست میں آپ”بازیافت“ کو شامل نہ کیجئے گا۔ اس کے مدیر صاحب مجھ معصوم کے ساتھ بڑی اخلاق سوز ایکٹیوٹی کرچکے ہیں۔ آپ نے اپنے خط میں ” سمبل“ میں ضیا الحسن صاحب کے میلان کنڈیرا اور ”وجود “ پر کسی مضمون کا ذکر کیا ہے ۔ یہ ”سمبل“ کی کس اشاعت میں شامل ہے ؟ (نئے شمارے میں تو نہیں)۔ میں بھی تو دیکھوں کہ کیا کہا گیا ہے۔ اس پر یاد آیا ‘ میں نے ”وجود“ کا جو عنوان پہلے رکھا تھا(”وجود کی ناقابل برداشت لطافت“) اب بدل دیا ہے۔ نیا عنوان ”وجود کی لطافت ‘جو اٹھائے نہ بنے“ ہے۔ یہی عنوان ناول کی دوسری قسط پر ہے جو ابھی حال ہی میں نے فرشی صاحب کو بھیجی ہے۔[فرشی صاحب کی رائے پر پرانا عنوان ہی رہنے دیا ہے۔] میں نے کنڈیرا کے ایک اور ناول کا ترجمہ بھی کر ڈالا ہے ۔ اس کا عنوان رکھا ہے ”ہنسنے ہنسانے اور بھول جانے کی کتاب “۔ ”ادھر کے تمام احباب کو میری طرف سے آداب ہو“ آپ نے لکھا ہے ۔ بھئی یہ ادھر کون سے احباب ہیں جنھیں آداب بھجوا رہے ہیں؟ میڈیسن میں تو میرے سوا آپ کا کوئی”احباب“ نہیں ۔ اور اگر آپ کی مراد شمالی امریکا میں مقیم (عارضی یا تاابد) پاکستانیوں کی آبادی سے ہے ،تو میں اس ریوڑ سے نا آشنا ہوں ۔ کل سے آج تک ۴ پاکستانی احباب کے ای ۔میل ملے کہ ذی شان ساحل اٹھ گئے۔ کیا قافلہ جاتا ہے کیسا معصوم اور تروتازہ شاعر تھا! غالب یاد آتا ہے:
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے میرا خیال ہے یہ میرا خط بھی کچھ ضرورت سے زیادہ طویل ہو گیا ہے۔ اس کی ایک وجہ ہے۔ میں نے اسے لکھنے سے ذرا پہلے ہی دو دن لگا کر جاپانی محقق تشی ہیکوازتسو کی کتاب Creation and the Timeless Order of Things کے چوتھے باب کا ترجمہ ختم کیا ہے ، جس کا عنوان،ترجمے میں ”عین القضات ہمدانی کی فکر میں تصوف اور لسانی تشابہ کامسئلہ“ ہے۔ یہ بڑی معرکة الآرا چیز ہے ۔ روح ابھی تک اس سرشاری کے عالم میں ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ زبان بھی رواں ہوگئی ہے۔ میں نے سوچا کہ اپنی عادی چپ کے گھونگے میں لوٹنے سے پہلے ہی آپ کا قرض ادا ہو جائے، ورنہ آپ دو سطری خط پاکر مجھ پربے مروت ہونے کا الزام دھریں گے۔ سو اپنی آبرو بچانے کی خاطر یہ لن ترانی ہو رہی ہے۔ سمع خراشی کے لیے معافی چاہتا ہوں ۔


مخلص


محمد عمر میمن


میڈیسن : ۳ ۱اپریل‘۸۰۰۲

3: اعصاب کی تانت اور تنقیدی مباحث


اعصاب کی تانت اور تنقیدی مباحث

محمد حمید شاہد

پیارے عمر میمن
:آداب
بہت شکریہ بھئی کہ تحریر کی تصویر بنا لی اور یوں خط تک رسائی ہوگئی۔ نئے عہد کی ایک یہ بھی” عطا “ہے کہ ہم تحریر کو تصویر کی صورت دیکھنے کے عادی ہوتے جارہے ہیں ۔ یہاں تواِن پیج سافٹ ویئر کی خرابی نے آپ کو تردد میں مبتلا کیا؛ میں بات اُس روّیے کی کر رہا ہوںجو ہمارے ہاں انٹرنیٹ کے زِیر اَثر متشکل ہورہا ہے۔ خیر بات کہیں اور چل نکلے گی ۔ پہلے توآپ کا شکریہ ادا کرنا ہے فوری اور مفصل جواب کا ۔ اور ہاں مجھے اپنے اعصاب کی تانت کے ساتھ کی بورڈ پر یوں بیٹھنا پڑا ہے کہ اس ” آپ“ کے لفظ نے چوکنا کیا ہوا ہے۔ سچ لکھوں گا :” آپ“ کا لفظ لکھتے ہوئے میں اپنے بھیتر تک سے مودب ہوجاتا ہوں اور گھبرا کر کچھ کا کچھ لکھ جاتا ہوں ۔ خیر مجھے اس کا التزام کرنا ہوگا کہ آپ کی طرف سے اس کا بطور خاص التزام ہوا ہے ۔ (جی حساب تو برابر کرنا ہی پڑے گا۔)رہ گئی وہ تعریف جو مجھ سے رواں ہوگئی ہے تو بھئی یقین جانو یہاں ایسے لوگوں کی کمی نہ پاﺅ گے جو مجھ سے نالاں ہیں کہ میں ان کی تعریف کرنے میں بخل سے کام لیتا ہوں ۔ اس تعریف کو اس لیے سچا جان سکتے ہیں کہ مجھے آپ سے کوئی مطلب نہیں ہے۔ نہ ہی آپ نے مجھ پر اس سے قبل کوئی کرم کیا کہ بدلہ چکا رہا ہوں ۔ مجھے جو چیز اچھی لگے، بے درنگ اچھی کہہ سکتا ہوں،چاہے وہ میرے دشمن کی جانب سے ہی کیوں نہ ہو۔
محبت کے ساتھ


محمدحمیدشاہد


اسلام آباد : ۶۱ اپریل ۸۰۰۲

محمد عمر میمن

برادرم حمید شاہد،
تسلیمات۔
”آپ“ لکھ کر میں آپ کی فراوانیِ اظہار پر پابندی لگانے کا خواہش مند نہیں تھا۔ بس بچپن سے ایک عادت پڑی ہوئی ہے جسے اس عمر میں ترک کرنے کے لیے ایک نئی عادت ڈالنی پڑے گی۔ اس ”آپ“ کے پیچھے وہی محبت اور وفور تھا جو آپ کے ”تم“ سے جھانک رہا تھا۔ موجودہ خط میں آپ کچھ اس طرح سمٹ گئے ہیں کہ مجھے اپنے پر افسوس ہونے لگا۔ بھئی آپ مجھ پر یہ ظلم نہ کریں۔ میں نے کب لکھا تھا کہ مجھے ”تم“ سے مخاطب نہ کیا کریں۔ سو آپ وہی کریں جس کے عادی ہیں اور جس میں اپنا اظہار خلوص و محبت سے کر سکتے ہیں، اور میں وہی پیرایہ اختیار کروں گا جس کا عادی ہوں۔ لیکن اس کے پیچھے اپنے بارے میں نہ کوئی زعم ہے نہ زبردستی اپنی عزت کرانے کا شوقِ فضول۔ دراصل اپنی عزت آدمی خود کرتا ہے، دوسروں سے کروانے پر اصرار میرے حساب سے شوقِ خود نمائی کا ہی ایک مذموم شاخ سانہ ہے۔ سو میرے بھائی، آپ بہرِ خدا مجھے شرم سار نہ کریں۔ سچ پوچھیے تو مجھے آپ کا خط بہت اچھا لگا تھا۔ آپ اپنے سے قریب نظر آئے۔ اب آپ خواہ مخواہ فاصلہ پیدا کرنے کے درپے ہو رہے ہیں۔ مجھے آپ کا میری کاوشوں کا مطالعہ اتنے انہماک سے کرنا اور ان سے عملی طور پرکچھ اخذ کرنا اتنا چھا لگا تھا کہ میں نے سوچا کہ کیوں نہ آپ کو یوسا کے چند اور خط بھجوادوں۔ کتاب جانے کب چھپے گی، اور یہ بھی طے نہیں کہ کبھی چھپے گی بھی۔ اور نہ یہ معلوم ہے کہ اس کی اگلی قسطیں کب اور کہاں نکلیں گی ۔ اگر آپ چاہیں تو بھیج سکتا ہوں۔ اور کیا لکھوں۔ اچانک ایک تعطل کی سی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ اسے بس اب آپ ہی دور کرسکتے ہیں۔


محبت کے ساتھ


آپ کا


محمد عمر میمن


میڈیسن : ۶۱ اپریل ۸۰۰۲

4: زندگی ‘ عمومی سچ ‘تخلیقی عمل اورتنقید


زندگی ‘ عمومی سچ ‘تخلیقی عمل اورتنقید

محمد حمید شاہد

پیارے عمر میمن
:آداب
یہ ”آپ“ والی کہانی تو میرے بچپن سے بھی جڑی ہوئی ہے مگر معاملہ یوں ہے بھائی کہ لکھتے ہوئے قلم اَپنے راستے پر چل کر آزادی خود حاصل کر لیتا ہے ۔ کم از کم میرے ساتھ تو یہی ہوا ہے۔ میں شاید کسی کو ملتے ہوئے اور،سامنے آتے ہوئے، اُس کے لیے احترام کے سارے صیغے استعمال کروں گا کہ یہی میری تربیت کا تقاضا ہے مگر لکھتے ہوئے اور خصوصا ً ایسے شخص کو،کہ جس سے کوئی ادبی قضیہ زیر بحث لانا مقصود ہو، قلم اپنی روش پر چل نکلتا ہے ۔ چلو، اَچھا ہوا ‘ تم نے کم از کم اِس باب میں مجھے آزادی دِے دِی ۔ جب کبھی ملاقات ہوئی تو” آپ ،آپ“ کی خوب تکرارسے ”تم“ کی ناس ماردوں گا کہ شاید یوں ازالہ ہوجائے ۔ (کیسا ہے؟ ایک ایسے آدمی سے آئندہ کی ملاقات کا تصور، جس سے اب تک کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ اوراس سے ایک وعدہ، جانتے ہوئے بھی کہ اس کا امکان زیادہ ہے‘ یہ ملاقات زندگی بھر نہ ہوگی۔) تم نے یوسا کے مزید خطوط بھیجنے کی بات کی ہے ۔ بھئی مجھے اِنتظار رہے گا۔ بس یوں ہے کہ انہیں ایک ایک کرکے بھیجتے رہو۔ میں لطف لے لے کر پڑھتا رہوں گا۔ رہ گئی بات ان پہلے دو خطوط کی تو یہ مجھے یوں اچھے لگے ہیںکہ ایک مدت کے بعد مجھے تخلیقی عمل کے ساتھ جڑی ہوئی تنقید پڑھنے کا موقع ملا ہے ۔ تم تو جانتے ہی ہو کہ ِادھر ایک مدت سے تنقیدی تھیوریوں نے ایسا یبوست زدہ ماحول بنایا ہوا ہے‘کہ تخلیقی عمل ایک پس ماندہ سی شے لگنے لگا ہے ۔ جب تخلیق کا تصور محض ایک تحریر اور متن کے محدود تصور سے آگے نہ بڑھ سکے تو اس طرح کے سانحات کا ہوجانا لازم ہو جاتا ہے۔ پچھلے دنوں تنقید کی ایک کتاب جو لگ بھگ پانچ سو صفحات پر پھیلی ہوئی تھی،پڑھنے کا موقع ملا۔ اس کے مقدمہ کی پہلی سطر پڑھو گے تو خواہش ہوگی اپنے جبڑوں کو اوپر نیچے اُچھل جانے دو کہ حلقوم میں آیا ہوا قہقہہ باہر نکل سکے :”تنقید کو اکثر تخلیق کے مقابل رکھ کر سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اِس کوشش کا نتیجہ تنقید کے حق میں عام طور پر اَچھا نہیں نکلا۔“ عجب ہٹ دھرمی ہے بھئی کہ معاملہ تو تم ادبی تخلیق سے کرنے چلے ہو اور اِس سے بچ نکلنے کا ارادہ بھی رکھتے ہو۔ تم یقین نہیں کرو گے مگریہ واقعہ ہے کہ پوری کتاب پڑھ لینے کے بعد ایک تخلیق کار کی حیثیت سے مجھے شدید مایوسی ہوئی تاہم میں نے ہمت کرکے اِس موضوع کی درجنوں کتابوں کا مطالعہ کرلیا ہے اوراب اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اِس طرح کے مباحث لسانی فلسفے کی ذیل میں تو رکھے جا سکتے ہیں، حتیٰ کہ ایسی سرگرمیوں میں بھی شمار کیے جاسکتے ہیں جو ادب کی بھید بھری دنیا کے اردگرد ہوتی رہتی ہیں مگر انہیں تخلیقی عمل سے کوئی علاقہ نہیں ہوتا۔دیکھو ‘ وہ لوگ جو اپنی تخلیقی عمر گزار چکے ہیں ‘وہ اس طرح کی بانجھ مشقت میں پڑیں تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ بے کار مباش کچھ کیا کر؛”نیفہ “اُدھیڑ اور سیاکر ‘کے مصداق ‘اِن کے پاس کرنے کو کچھ اور نہ ہوگامگر تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اس تنقیدی الجھیڑے میں پڑ کر ہمارا ایک آدھ ایسانوجوان بھی ضائع ہو رہا ہے‘جس کی صلاحیت اور محنت کو دیکھ کر رشک آتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ بہت کچھ کر لینے پر قادر ہے مگر تنقید کے اس التباس میں پڑ کر ضائع ہوتے دیکھتا ہوں تو طبیعت پھیکی پڑتی ہے ۔ میں،ان ساری کتابوںپر جو تنقیدی تھیوریوں کے بیان پر ہی تمام ہو جایا کرتی ہیں، یوسا کی باتوں کو ترجیح دینے پر خود کو مجبور پاتا ہوں تو شاید اس کا سبب یہ ہے کہ میرے لیے تخلیقی اسلوب حیات کو اپنا لینا، محض ادبی کارکن ہونے پر مقدم ہو گیا ہے۔ میں اسی اسلوب حیات کی بات کر رہا ہوں جس کی طرف یوسا نے پرلطف اشارے کیے ہیں۔ یہ اسلوب حیات کیوں کر اِختیار کیا جاتا ہے۔ یہ سوال بجا طور پر بہت اہم ہوگیا ہے ۔ یعنی لکھنے کی تاہنگ اور وہ بھی ان موضوعات پر جو لکھنے والے کے اپنے لہو کے ساتھ رگوں میں گردش کر رہا ہو۔ یہ لہو میں گردش کا معاملہ سلجھانے کے لیے مجھے وہ مثال یاد آرہی ہے جو کل ہی حلقہ ارباب ذوق،اسلام آباد ،کے اجلاس میں ایک افسانے پر بات کرتے ہوئے سامنے آئی تھی ۔ جو افسانہ پیش ہوا اس میں مواد کی فراوانی تھی، موضوع بھی بڑی وضاحت سے بیان ہوا تھا، وہ بیانیہ بھی برا نہ تھا مگر وہ اسلوب حیات والی بات یہاں نظر نہ آتی تھی۔ ایسے میں کہا گیا کہ اس افسانے کی مثال ایسے ہی ہے جیسے آپ میں سے کسی نے بازار کے بیچ مگر کچھ دیر پہلے چلنے والی گولی کی بابت سنا ہو۔ اور آپ کو یہ بھی بتایا گیا ہو کہ چار آدمی قتل ہوگئے تھے۔ آپ کو شدید دکھ ہوگا ۔ اور چوں کہ آپ نے وہاں اپنی آنکھوں سے سڑک پرگرا ہوا خون بھی دیکھا تھا لہذا اس دُکھ نے آپ کو شدید متاثر بھی کیاہوگا ۔ آپ گھر آگئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس واقعہ کو لکھ ڈالیں۔یوں ایک کہانی بن جاتی ہے ۔ اس طرح بننے والی کہانی کو اس کہانی سے مماثل قرار دیا گیاجو حلقہ ارباب ذوق میں تنقید کے لیے پیش کی گئی تھی اور پھر کہا گیا کہ اب ذرا قتل والے واقعہ کے آخری جملے میں تبدیلی کر لیں ۔ گھر پہنچنے کے بعد آپ پر کھلتا ہے کہ مرنے والوں میں ایک آپ کا بھائی ہے۔ لیجئے اب آپ لکھنا بھی چاہیں گے تو اس پہلے والی سہولت کے ساتھ نہ لکھ پائیں گے ۔ وہ سانحہ جو باہر تھا اب آپ کے بھیتر میں اُترگیا ہے ۔ جب ایک ضروری توقف کے بعد آپ اسے کہانی کی صورت لکھ پانے کے قابل ہوں گے تو موضوع آپ کے لہو میں شامل ہوجائے گا۔ میں سمجھتا ہوں فکشن اور بطورخاص افسانے میں یوں کسی موضوع کے ساتھ جڑ جانا اور اس میں ایک تخلیقی توقف کاالتزام ‘بہت اہم ہوتاہے۔ میں اسے اس عمل سے مختلف سمجھتا ہوں جس میں لکھے جانے والے کردار کی کھال میں بیٹھ جانے کی بات کی جاتی ہے۔ اس لیے جان من کہ محض دوسروں کی کھال اوڑھ کر نظارہ کرنے والا اس کردار کی روح میں نہیں اتر سکتا ۔ اب اگر ہم تخلیقی عمل کی پراسراریت سے اپنی زندگی کو جوڑنے کے لائق ہوگئے ہیں تو ہمیں یوسا کی ”ادبی ووکے شن“ والی بات سہولت سے سمجھ آسکتی ہے ۔ اس تمہید کے بعد میں یہ کہنا چاہوں گا کہ تم نے جہاں جہاں اسے ادبی” شغل“ لکھا ہے وہاں وہاںمیں اَپنے اَندر بے اِطمینانی سی پاتا رہا ہوں ۔ یوسا کی یہ بات بھی مان لینے کے لائق ہے کہ ادبی ووکے شن محض انتخاب سے آدمی کا مقدر نہیں ہوتا اور نہ ہی محنت اور صرف محنت سے یہ ہاتھ آتا ہے۔ انتخاب اور محنت اس باب میں دوسری منزل میں آتے ہیں جب کہ اولیت داخلی میلان کو حاصل ہے ۔ مجھے یہاں ہنری جیمس کی کہی ہوئی ایک بات یاد آتی ہے جس کے مطابق ”تجربہ کبھی محدود نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ مکمل ہوتا ہے“۔ وہ لکھنے والے جو محنت اور تجربے سے ہی کام چلانا چاہتے ہیں اور انہیں لکھنے کو اسلوب حیات بنا لینے پر اس لیے قدرت نہیں ہے کہ ان کا داخلی میلان اس نہج پر خلق ہی نہیں ہوا ؛وہ کہانی کو محض واقعے کی سطح پر لکھنے پر قادر ہوتے ہیں۔ جب کہ داخلی میلان رکھنے والے کے لیے یہ تجربہ جو بظاہر نامکمل ہوتا ہے اس کی حسیات کے اندر دور تک تحلیل اور خوب گہرا جذب ہوجاتا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ میری بات طول پکڑ گئی ہے مگر اس کا کیا کروں کہ مجھ پر اپنی بات مکمل کرنے کا جنون سوار ہوچکا ہے ۔ میں سوچتا ہوں جن دنوں میں نئی تنقید پڑھ رہا تھاتو مجھ پر ایسا دورہ کیوں نہ پڑا تھا ۔ کیوں ؟ آخر کیوں؟ مجھے صاف صاف یاد بھی نہیں ہے کہ تب میں نے کیا پڑھا تھا؟ ہاں بس اُلجھنا یاد ہے۔ رولاں بارتھ کے مصنف کی موت والے مضمون نے بھی مجھے کم نہیں اُلجھایا تھا۔ ادھر دیکھو یوسا کو پڑھ کر ایسا نہیں ہوتا کہ وہ فکشن کے موضوع کے حوالے سے کتنی پرلطف اور روشن روشن باتیں کر رہا ہے۔ رولاں بارتھ نے تو سرے سے موضوع کو مانا ہی نہیں تھا ۔ اس کے ہاںموضوع کے غیاب کا دعویٰ ملتا ہے ۔ میں اِس مضحکہ خیز دعویٰ کو فلسفیانہ موشگافی سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا ۔ بھلاتم خود ہی کہو، ایسی بے تکی صورت حال پر کیسے ایمان لایا جا سکتاہے جس میں ”تحریر ایسی مبہم ‘مخلوط اور زاویہ مستقیم سے گریزاں وسعتِ امکانی ہوجاتی ہے جہاں موضوع غائب اور پہچان ختم ہوجاتی ہے۔“ چوں کہ بارتھ نے مصنف کومار کر اس کے تخت پر قاری کو بٹھانا تھالہذا اس نے اس منفی بنیاد پر مصنف کو قربان کردیا۔ (اپنے انتظار حسین نے اس حوالے سے ایک خوب تبصرہ کیا تھا۔ دُکھ جھیلیں بی فاختہ اور انڈے کوے کھائیں۔ )میں نے اپنے ادبی مطالعے میں اس سے زیادہ گمراہ کن بیان نہیں پڑھا اور تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ِاس مجہول بیان نے ہمارے ہاں ایک ایسی بھیڑ کو گمراہ کیا ہے جو ہل لا لا لا کرکے تنقید پر ٹوٹ پڑی ہے۔ کچھ اس بے ڈھب انداز میں کہ پوری ربع صدی ہو چلی ہے اس نے مصنف کیا، تخلیق پاروں کو بھی ڈھنگ سے دیکھنا پسند نہیں کیا ہے۔ یوسا نے میرے اندر کے دُکھ اور غصے کے لاوے کوپھوٹ بہنے کا راستہ دِے دِیا ہے تو یوں ہے کہ میں رولاں بارتھ کو مندرجہ ذیل بیانات بدل دِینے کا مشورہ دِے رہا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ فکر میں اس ترمیم کے بغیر تخلیقی بھید کو سمجھا ہی نہیں جاسکتا:
رولاں بارتھ کے بیانات*
مجوزہ ترمیم کی صورتیں**
=لکھنا دراصل ہر نقطہ آغاز کا ختم کردیا جانا ہے۔*

=لکھنا عدم کو وجود میں لانا اور نامکمل کو تکمیل کی طرف لے جانا ہے ۔**
=تحریردر حقیقت وہ مبہم، مخلوط اور زاویہ مستقیم سے گریزاں وسعتِ امکانی ہے، جہاں ہمارا موضوع ختم *ہوجاتا ہے اور اس منفیت کی ابتدا خود تحریر کرنے والے سے ہوتی ہے۔

=ادبی تحریر درحقیقت ابہام سے تخلیقی ابہام، اکہرے پن سے معنیاتی انضباط اور خط مستقیم سے وسعت کی **جانب رواں وہ وسعت امکانی ہے جہاں ہمارا موضوع قائم ہوجاتا ہے اور اسی اثبات کی ابتدا خود تحریر کرنے والے سے ہوتی ہے۔

=مصنف اپنی موت کی طرف بڑھتا ہے؛تحریر کا آغاز ہوتا ہے۔*

=مصنف اپنی شناخت مستحکم کرتا ہے؛تحریر کا آغاز ہوتا ہے۔**
=یہ مصنف نہیں زبان بولتی ہے۔*

=زبان گونگی ہوتی ہے یا پھر معنی کی سطح پر مڑھی ہوئی جھلی کی طرح، یہ مصنف ہی ہے جو اسے **ڈھنگ سے بولنا سکھاتا اور اس پر معنیاتی امکانات کھولتا ہے۔
=تحریرچوں کہ مسلسل معنی فرض کرتی رہتی ہے لہذا اس میں سے پہلے معنی خارج/معطل ہوتے رہتے *ہیں۔

=ادبی تحریرچوں کہ مسلسل معنی جذب کرتی رہتی ہے لہذا اس کے اندر معنیاتی سلسلہ قائم ہو جاتا ہے **یوں پہلے سے موجود معنی خارج نہیں ہوتے ان میں توسیع اور نمو ہوتی رہتی ہے ۔
=قاری کی پیدائش،مصنف کی موت کی قیمت پر ہونی چاہیے۔=قاری وہ راس نشین ہے جو مصنف کی حیات میں توسیع اور اس کی پہلی سے موجود شناخت کی نموکا وسیلہ بنتا ہے ۔
لو، پیارے اَب لگتا ہے میرا اپھارہ کم ہوا۔ اب میں سہولت سے یوسا کی اس بات کی طرف لوٹ سکتا ہوں جو اس نے اسٹرپر کے حوالے سے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ یوسا نے کتنی سہولت سے یہ سمجھادیا ہے کہ اسٹرپر میں تماشاگر ایک ایک کرکے اپنے کپڑے اتارتا(کاش یہاں” اتارتی“ ہوتا) چلا جاتا ہے جب کہ ناول میں یہ تماشا معکوس شکل میں ہوتا ہے۔ میں نے اس بات کو یوں سمجھا ہے : ایک عام تحریر، جو لغاتی معنی کے جبر سے نہیں نکل سکتی اسٹرپر کی مثل ہے۔ ادھر الفاظ ادا ہوتے ہیں ادھر ایک ایک کرکے جسم پر سے کپڑے اترتے چلے جاتے ہیں ۔ جملہ مکمل ہوتے ہی معنی مکمل طور پر ننگے ہوکر سامنے آجاتے ہیں ۔ مجھے یہاں پشکن کا جملہ یاد آتا ہے ؛ ”آہ ننگی حسین نہیں ہوتی‘ کھٹکتی ہے“ تو یوں ہے میرے بھائی ادب میں یہ ننگا پن نہیں چلتا ۔ ننگے بدن کو ایسامہین لباس پہنائے چلے جانا ہی وہ تخلیقی بھید ہے جس سے چھلکتے بدن کی ہر جھلک، ایک نئی اشتہا کو مہمیز کرے ۔ اب تم ہی کہو یہ نئی جھلک جو تم دیکھو گے، بھئی اسی مہین لبادے سے، یا پھر جن قوسوں، گولائیوں اور گداز کو دیکھ رہے ہو کیا یہی مصنف نہیںہے؟ بھئی یہی تو وہ جادو گر ہے جو مر کر بھی نہیں مرتا کہ اس نے تمہارے (قاری کے)اندر ایک اشتہا اور لذت رکھ دی ہے۔ جی،فکشن کے باب میں یوسا کی ایک بات سے اختلاف کا موقع نکل آیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں، اس کی بات کہ ” فکشن ایک ایسی چیز ہے جو سچی نہیں تاہم سچی ہونے کا سوانگ بھرتی ہے “ بھی لائق ترمیم ہے ۔ اس باب میں ایک جملہ میں تواتر سے لکھتاآیا ہوں اسی کو نقل کر رہا ہوں ۔ ”فکشن وہ عظیم سچائی ہے جو زندگی کے عمومی سچ پر حاوی ہوجاتی ہے۔“ یوسا نے درست کہا تھا: خط کے لیے جچاتلا اِختصار ضروری ہوتا ہے۔ میں کہاں سے کہاں نکل گیا ۔ معذرت قبول کرو ۔

محبت کے ساتھ

محمدحمیدشاہد

اسلام آباد :۹۱ اپریل۸۰۰۲

محمد عمر میمن

برادرم حمید شاہد

السلام علیکم۔

بے حد مفصل خط ملا۔ شکریہ۔ میری تو سمجھ میں نہیں آتا کہ جواب میں لکھوں تو کیا لکھوں۔ ہنوز آپ کے باریک بین مطالعے اور جس عقیدت اورسنجیدگی سے آپ ادب کے سامنے دو زانو ہوکر بیٹھتے ہیں اسی پر حیرت کررہا ہوں۔ کاش ہمارے بیش تر پڑھنے اور لکھنے والوں کو آپ کا چلن آجائے! مجھ پر تو آپ کے وسیع مطالعے کا اچھا خاصا رعب جم گیا ہے۔ آپ کے مقابلے میں بہت کم پڑھا لکھا آدمی ہوں۔ اور یہ میں مشرقی کسرِ نفسی کے کسی دورے کی گرفت میں آکر نہیں لکھ رہا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ میرا مطالعہ کافی محدود ہے۔ پھر تنقید ونقید مجھے فطری طور پر بھاتی بھی نہیں۔ خیر، اب ایسا بھی نہیں کہ تنقید سے بالکل ہی استغنا برتتا ہوں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ تنقید بھی اسی قسم کی پسند آتی ہے جس میں تخلیقی تجربے کا نچوڑ ہو۔ یوسا کے خطوط مجھے اسی لیے پسند آئے تھے۔ رولاں بارتھ قسم کی مخلوق مجھ سے ہضم نہیں ہوتی۔ سو آپ نے اگر مجھ سے اپنے اٹھائے ہوئے نکات کے سلسلے میں کسی وافی و شافی بحث کی توقع کی تھی تو آپ کو مایوسی ہوگی۔ مجھے اس کا افسوس ہے، لیکن میں وہی ہوں جو ہوں۔ اپنے آپ کو بدلنا چاہوں تو بھی نہیں بدل سکتا۔ اگر کوشش کی تو منہ کی کھانی پڑے گی۔ اس عمر میں آپ مجھے رسوا ہوتا ہوا دیکھ کر خوش تو نہیں ہوسکیں گے۔ مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ آپ کو بھی یوسا کی باتیں پسند آئیں۔ اس سے بہت ہمت بندھی۔ آپ نے کردار کی روح میں اتر جانے والی بات خوب کہی ہے۔ بالکل، ایسا ہی ہونا چاہیے۔بھائی میں خود بھی ووکیشن کے لیے ”شغل“ کے استعمال سے مطمئن نہیں ہوں۔ سلیم الرحمٰن گواہ ہیں، میں نے ان سے بھی اس سلسلے میں مدد لی تھی۔ چکر یہ ہے کہ اول تو میری اردو بے حد ناقص ہوچلی ہے، اور پھر بعض اوقات اردو میں مناسب مترادفات ملتے بھی نہیں۔ بھئی آپ مجھ سے تکلف وغیرہ نہ کیا کریں۔ اگر آپ کو کوئی بہتر لفظ معلوم ہو تو بتائیں۔ یوسا والی کتاب میں یہی ایک لفظ نہیں ہے جس نے مشکل پیدا کی، کئی اور بھی ہیں۔ میں آپ کو اس خط کے ساتھ یوسا کے اگلے تین خطوط بھیج رہا ہوں۔ آپ پڑھیے اور اگر کہیں بہترلفظ مل جائیں تو فوراً مطلع کیجیے۔ احسان ہوگا۔ ایک بات اور: ان پر ایک اور نظرِ ثانی واجب ہے۔ جہاں جہاں دوسری زبانوں سے اسم معرفہ یا عنوانوں کے نام استعمال ہوئے ہیں، وہ اردو میں اپنے ہجوں کے لحاظ سے مستند نہیں۔ میں اس سلسلے میں ایک صاحب سے مدد لینے والا ہوں، اور پھر انھیں درست کروں گا۔ لیکن جہاں تک متن کے ترجمے کا تعلق ہے، میرے خیال میں آپ اس پر کم و بیش بھروسا کرسکتے ہیں۔اب ایک مزے کی بات سنیے: جس دن آپ کا خط ملا اسی دن فرشی صاحب کاخط بھی آیا۔ لکھا کہ پہلے بعض وجوہ کی بنا پر انھیں یوسا کے خط ”سمبل“میں قسط وار چھاپنے میں تامل تھا ، لیکن لوگوں نے پہلے دو خطوں کو کافی پسند کیا ہے اور اب وہ تین خط اگلے شمارے میں اور چھاپنا چاہتے ہیں۔ واﷲ، اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ یہی خط میں آپ کو بھیج رہا ہوں۔ آپ سب سے پہلے پڑھ لیں گے۔ دیکھا آپ نے، دوستی کام آگئی۔ آپ کو یوسا کی اس بات سے اختلاف ہے کہ ”فکشن ایک ایسی چیز ہے جو سچی نہیں تاہم سچی ہونے کا سوانگ بھرتی ہے۔“ میرے خیال میں تو یہ اختلاف کی بات نہیں۔ جہاں تک میں اسے سمجھ سکا ہوں، وہ صرف یہ کہنا چاہتا ہے کہ فکشن تخیل کا کارخانہ ہے۔ اس لحاظ سے اسے حقیقت نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن اس کا کمال یہ ہے کہ یہ اپنی قوتِ ترغیب کے زور پر حقیقت نظر آنے لگتا ہے (یا ایک متبادل حقیقت وضع کرتا ہے جو کسی لحاظ سے بھی حقیقی حقیقت سے قدرو قیمت میں کہتر نہیں ہوتی)۔ اصل میں یہ بحث زیادہ تفصیل سے ”قوتِ ترغیب“ والے خط میں ہوئی ہے، اور وہ میں آپ کو بھیج رہا ہوں۔ آپ کا قول بھی اپنی جگہ پر درست ہے: ”فکشن وہ عظیم سچائی ہے جو زندگی کے عمومی سچ پر حاوی ہوجاتی ہے۔“ میں بس ایک لفظ کا اضافہ کروں گا: “کام یاب“ (کام یاب فکشن الخ)۔ اگر یہ اضافہ کرلیا جائے تو پھر قوتِ ترغیب والی بات سمجھ میں آنے لگتی ہے۔آصف فرخی صاحب لکھتے ہیں کہ تازہ “دنیا زاد“ نکل آیا ہے۔ اس میں میراکیا ہوا ایک جاپانی محقق کا ترجمہ شامل ہے۔ ذرا پڑھیے گا۔ مجھے تصوف کی مابعدالطبیعیات سے عشق ہے۔ ہوسکتا ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ عمر بڑھتی جارہی ہے۔ امید ہے کہ آپ بہ خیروعافیت ہوں گے۔

والسلام

محمد عمر میمن

میڈیسن : ۴۲ اپریل ۸۰۰۲

5: فکشن میں اسلوب کا مسئلہ


فکشن میں اسلوب کا مسئلہ

محمد حمید شاہد

پیارے عمر میمن
:آداب
تمہارا خط ملا اور بعد میں یوسا کے خطوط کی اگلی کھیپ ۔ آہا ،تیسرا خط پڑھتے ہی مزا آگیا ۔ اس باب میں مجھے جوکچھ سوجھ رہا ہے تمہیں بتانا چاہتا ہوں ۔ پہلے تو اس مہربانی کا فوراً شکریہ قبول کرو کہ تمہاری بدولت میں یوسا کو پڑھ رہا ہوں اور پھر بتانے دو کہ مجھے واقعی پورے تخلیقی عمل کو اس ڈھب سے دیکھنے میں مزا آرہا ہے۔ رہ گئی رُعب جمنے یا جمانے کی بات، تو خدارا مجھے اِس گھناﺅنے جذبے سے الگ ہی رکھو کہ میں تو اِس سارے بھید کو سمجھنے کے جتن کر رہا ہوں جو ایک تخلیق کارکے نصیب میں لکھ دِیا گیا ہوتا ہے۔ میں اسے نصیب کے ساتھ اس لیے نتھی کررہا ہوں کہ تخلیقی عمل کے ساتھ جڑنا جس کی سرشت میں لکھا ہوا نہیں ہوتا وہ محض مشاہدے، مشقت اور ریاض سے، اسے اس سطح پر حاصل نہیں کر سکتا جسے تخلیقی وفور کہتے ہیں۔ تخلیقی عمل جب زندگی کرنے کے آہنگ سے جڑ جاتا ہے تو یہی اس تخلیق کار کا اسلوب ہوجایا کرتا ہے۔ دوسرے معنوں میں تم کہہ سکتے ہو کہ ہر حقیقی تخلیق کار کااَسلوب خود بہ خود اُس کی زندگی بِتانے کے قرینے سے پھوٹتا ہے۔ جب کہ کوشش اور ریاض سے دوسروں کی پیروی میں اپنے لیے اسلوب گھڑنے والے اس کوّے کی مثل ہیں جو ہنس کی چال چلناچاہتا ہے اور اَپنی چال بھی گنوا بیٹھتا ہے۔ بات رُعب جھاڑنے سے چلی اور اَسلوب کی طرف لڑھک گئی، مجھے معاف کردینا کہ میں اِس خط کے آغاز میں ہی اِدھراُدھر بھٹکنے لگا ہوں ۔تاہم جو بات میں کہنا چاہتا تھا وہ یوں ہے کہ ایک سچے تخلیق کار کا مسئلہ رُعب کا بوجھ دوسروں پر لادنا نہیں ہوتا ۔ سچ پوچھو تو جو شخص اپنے آپ کو عالم سمجھنے لگے تخلیق کی دِیوی اُس سے رُوٹھ جایاکرتی ہے۔ یہاں معاملہ فکشن کے متن کی تعمیر کا ہے یعنی موجود سچ سے کہیں بڑے سچ کی تعمیر کا معاملہ۔ اس دِیار کے داخلی دروازے پر ”جھوٹوں کا داخلہ ممنوع“ کی تختی لگی ہوئی ہے۔ ہاں تو تم نے لکھا ہے کہ تمہیں تنقید بھی اسی قسم کی پسند آتی ہے جس میں تخلیقی تجربے کا نچوڑ ہو، کیا خوب بات کہی ۔ مجھے تعجب نہیںہوا،اچھا لگا ہے ۔ جس کا یہ چلن ہو وہ تخلیقی عمل سے کٹی ہوئی تنقید کے نام پر اٹھائی گئی بانجھ فلسفیانہ اور مہمل تحریروں کو کیوں کر پسند کرے گا اور اس کارِزِیاں میں اَپنا وقت کیوں برباد کرے گا۔ مجھے یوسا کے خطوط نے مشتعل کیا تھا اور وہ تندوتیزسوالات جو مجھے بے چین رکھے ہوئے تھے، میں نے تمہاری طرف لڑھکا دِیے ۔ میں اب تمہارا اور اپنا وقت اس قسم کے حوالوں اور سوالوں سے برباد نہیں کروں گا۔ ایک ہی جست میں یوسا کی طرف آتا ہوں؛ لو آگیا۔ تم نے”کردار کی روح میں اُتر جانے والی“ میری بات کو لائق اِعتنا جانا، مجھے حوصلہ ہوا۔ رہ گیا یہ قضیہ کہ”ووکیشن‘ ‘ کے لیے” شغل“ نہیں تو کون سا لفظ ہوناچاہےے؟ بھئی سچ پوچھو تو میں تراجم کی طرف راغب ہوا تھا اور فوراً اِدھر سے اِس لیے بھاگ نکلا کہ مجھ میں وہ الفاظ جو بطور اِصطلاح اِستعمال کیے جارہے ہوتے ہیں،اُن کایک لفظی یا کسی متبادل ترکیب میں ترجمہ کرنے کا سلیقہ نہیں تھا۔ میں نے دیکھا ہے کہ ہمارے ہاں ترجمہ کار اِصطلاحات کا ترجمہ کرتے وقت ترکیب سازی سے اصطلاح وضع کر لیا کرتے ہیں ۔ میں نے تمہارے ہاں یہ صلاحیت دیکھی ہے ۔ محمدسلیم الرحمن کے ہاں بھی ایسا چلن پایاگیا ہے،جو مجھے اچھا لگتا ہے ۔ اس باب میں، میں بہت اناڑی ہوں ۔ مجھے غلط یا صحیح یہ تو سوجھ جاتا ہے کہ یہاں کوئی اور لفظ ہونا چاہیے؛ مگر کونسا ؟ میں اس باب میں بُری طرح ناکام ہوجاتا ہوں۔ مثلاً یوسا کی طرف سے اِصطلاح کے طور پر برتے گئے اسی”ووکیشن“ کولے لو۔ اس کے ایک معنی”شغل‘ ‘کے بھی ہیں ۔ مگر یوسا نے جس طرح اِس اِصطلاح کے لیے فضا بنائی ہے اس میں اِس کے معنی نہ تو محض شغل کے رہتے ہیں، للک کے اور نہ ہی پیشہ اور کسب کے، کہ یہ اِصطلاح ایک ہی وقت میں لکھنے والے کی قدرت، طبعی میلان اور دھیان کے اِرتکاز کی طرف اِشارے کرتی ہے۔ یہ جان کر مجھے اچھا لگا کہ” سمبل“ میں یوسا کے خطوط شائع ہوتے رہیں گے ۔ بھئی میں تو حیران تھا کہ اس باب میں پہلے تامل کیوں کیا گیا تھا ۔ مجھے واقعی یوسا کی اس بات سے اِختلاف ہے کہ فکشن سچی ہونے کا سوانگ بھرتی ہے ۔ اِس کا جواز میں بتا چکا ہوں۔ تاہم میں اس باب میں اضافہ کرنا چاہوں گا کہ فکشن کا یہ فریب بھی لگ بھگ ویسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ حضرت غالب کے نزدیک ہستی کے فریب کا تھا
ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسد


عالم تمام حلقہ ءدام خیال ہے
دیکھو! یہاں غالب نے جس حقیقت کو بیان کیا ہے وہ موجود حقیقت سے کتنی بڑی ہو گئی ہے۔ پیارے،یہی معاملہ فکشن نگار کی کائنات کا ہے۔ کہنے کوجھوٹی مگر اپنی اصل میں کہیں بڑی حقیقت سے جڑ جانے والی۔ مجھے لفظ ”سوانگ“ پر اعتراض ہے ۔ دیکھو کہ اتنی بڑی کائنات جسے ماہرین طبیعیات ٹھونک بجا کر حقیقی قرار دے چکے ہیں مگر جو اپنے مرزا نوشہ کوفریب لگتی ہے ؛یہ بھی تو تخیل کے ایک کارخانے سے پھوٹی ہے ۔ اب یہ تمہارے اور میرے سمیت‘ ہے بھی اور نہیں بھی۔ مگر ہم اپنے وجود کو جس حد تک دریافت کرتے یا جس حد تک اس کائنات کے بارے میں اپنا گمان باندھتے چلے جاتے ہیں اتنا اتنا ہم اپنے آپ پر اور کائنات ہم پر کھلتی چلی جاتی ہے۔ فکشن کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے ۔اس کے ذریعہ واقعہ کی ایک صورت بیان ہو رہی ہوتی ہے اور معنیاتی سطح پر، متن کی باطنی ساخت میں اس سے کہیں بڑی حقیقت تخلیق ہو رہی ہوتی ہے ۔ ڈیپ اسٹریکچر میں ”بڑی سچائی“ رکھے بغیر واقعہ کو فکشن میں منقلب کیاہی نہیں جاسکتا۔ تم درست کہتے ہو اسے حقیقت نہیں کہا جاسکتا۔ ہاں اسے محض حقیقت کہنا نامناسب ہوگا۔ میں نے کہا نا یہ معلوم حقیقت سے بڑی حقیقت ہوتی ہے۔ بالکل یوں جیسے شجر پھوٹتا بیج ہی سے ہے مگر اس کی جڑیں زمین میں گہرائی تک اُتر جاتی ہیں اور شاخیں آسمان کی وسعتوں کو چھونے لگتی ہیں ۔ میں کبھی کبھی فکشن کو اسی شجر طیب سے تعبیر کرتا ہوں اور فکشن کی تخلیق کو عمل خیر سے جوڑ لیا کرتا ہوں کہ کائنات کی حقیقتوں اور سچائیوں کی تفہیم کے جتن کرنا اور فرد کو اس کی باطنی مسرت سے ہم کنار کرنا عمل خیر ہی توہے۔ یوسا کا یہ خط بھی پہلے دوخطوط کی طرح دل چسپ ہے ۔ میں ان کے نشے میں ہوں تاہم آگے بڑھنے سے پہلے جس ترکیب نے مجھے اُلجھن میں ڈالا ہوا ہے اُس کی طرف تمہارا دِھیان چاہوں گا۔ یہ ترکیب ہے ” قوّتِ ترغیب“۔ میں نہیں جانتا کہ جس لفظ سے تمہارے ہاں یہ ترجمہ ہو کر آئی ہے اس میں سے ”راسخ ہونے “اور” دِل نشین ہوجانے“ کے معنی نکلتے ہیں یا نہیں مگر یوسا کی تحریرسے مجھے یوں لگتا ہے اُس اصطلاح میں کہ جو فی الاصل اُس نے برتی ہوگی،فن پارے کے اندر ترغیبی قوت سے کہیں زیادہ فکشن کی وہ قوت مراد ہو گی جو قاری کو اپنے عظیم سچ پر یقین لانے پر مجبور کر دیا کرتی ہے۔ دراصل ترغیب کی قوت تخلیقی تحریروں سے کہیں زیادہ تبلیغی تحریروں یا مقصدی مضامین کا وصف ہوتی ہے۔ چوں کہ”ترغیب“ کے لفظ میں لالچ دینے، کسی کام پر آمادہ کرنے کے معنی شامل ہوتے ہیں جو قوت کے ساتھ جڑ کر مزید شدید ہوجاتے ہیں لہذا میں اس عمل کو جس میں قاری فکشن کے سچ پر ایمان لے آیا کرتا ہے، قوت ترغیب والی اصطلاح سے تعبیر کرنے میں اپنی طبعی رجحان کی وجہ سے رکاوٹ محسوس کر رہا ہوں۔ اس باب میں بھی، میں وہی مثال دینا چاہوں گا جو یوسا نے دی تھی؛ یعنی وہی ”دی میٹا مورفوسِس“والی ۔ ایک معمولی سے مسکین دفتری گرے گور سَمسا کی کہانی جس کی ایک نفرت انگیز لال بیگ میں کایا کلپ ہو جاتی ہے ۔ تم نے کاکروچ کوتل چٹّے سے تعبیر دی، یقیناً اس لفظ سے رات کو نکلنے والے کئی پتنگے مراد ہو سکتے ہیں مگر لال بیگ کو دیکھتے ہی جو کراہت کا گولا پیٹ سے حلقوم کی سمت اٹھتا ہے،تل چٹّا پڑھ کر نہیں اُٹھتا۔ بظاہر یہ کہانی کتنا بڑا جھوٹ ہے اور بہ قول یوسا مضحکہ خیز بھی ہے۔ تاہم کافکا نے جس طلسماتی انداز میں اِسے لکھا وہ ہمیں اس پر راغب نہیں کرتا کہ ہم بھی اس تکلیف سے گزریں بل کہ ہم گرے گورسمسا کے ساتھ ساتھ اس ذِلت سے گزرنے پر (چاہتے، نہ چاہتے ہوئے بھی) مجبور ہوتے ہیں ۔ گویا یہ ساری واردات ایک بڑاسچ بن کرہمارے بھیتر میں اُتر جاتی ہے۔ دیکھو، یہاں یوسا نے بھی گرے گور سَمساکی ہول ناک دُرگت پر تہِ دل سے ”یقین“ کرنے کی بات کی ہے۔ اس سے یگانگت محسوس کرنے اور اس کے ساتھ ساتھ تکلیف اٹھانے، اسی مایوسی سے اپنا دَم گھٹنے کی بات کی ہے ۔ قاری کے دفاعی نظام کو یوں توڑ دینے کا معاملہ کہ ایمان لانا یا تسلیم کر لینا لازم ہو جائے قوت ترغیب کے نہیں بل کہ متن کی تاثیر کے باب میں آئے گا۔ اِسی تاثیر کا اِعجاز ہے کہ ہم گرے گور سَمسا کی کہانی پر یقین کرلیتے ہیں۔ یوسا نے درست لکھا ہے کہ کافکا میں کسی حقیقت یا پھر غیر حقیقی صورتحال کو ایک بڑی حقیقت میں منقلب کرنے کی صلاحیت تھی؛ لفظوں، خاموشیوں، انکشافات، تفاصیل، معلومات کی تنظیم اور بیانیہ روانی کے ذریعے،جس نے قاری کے دفاعی نظام کو منہدم کر دیااوراس نے ایک ایسی کریہہ صورتحال کے مقابلے میں اپنے تمام ذہنی تحفّظات کو پسپا ہونے دیا۔ایسے میں اِنتظار حسین کی کہانی ”کایا کلپ“ کا تذکرہ کرنابے جا نہ ہوگا۔ اِنتظار حسین نے اس کہانی کو۷۶۹ ۱ءمیں شائع ہونے والے اپنے افسانوں کے مجموعے ”آخری آدمی“ میں شامل کیا تھا۔ کہانی میں کافکاکا گرے گور سمسا‘ شہزادہ آزاد بخت ہو گیاہے اور کافکاکے لال بیگ کو مکھی بنالیا گیا ہے۔ یاد دِلادوں کہ اس کتاب کا دیباچہ سجاد باقر رضوی نے لکھا تھا۔ اس کا دعویٰ تھا:”افسانہ نگار نے داستان کی علامت کو نئے مفاہیم دینے کی کوشش کی ہے۔“ انتظار حسین کی اس کہانی میںشہزادہ آزاد بخت مکھی کی صورت صبح کرتا ہے اور کہانی جوں جوں آگے بڑھتی ہے توں توں مکھی کی جون سے واپسی کا مرحلہ شہزادہ آزاد بخت پر کٹھن ہوتا چلا جاتا ہے ۔ حتیٰ کہ وہ رات آجاتی ہے جب شہزادی نے اسے مکھی بنائے بغیر تہ خانے میں بند کر دیاتھا۔ دیوجو پہلے آدمی کی بو پاکر ”مانس گند، مانس گند“ چلاتا قلعے میں داخل ہوتا تھا، خاموش رہا کہ اب وہاں کوئی آدمی نہیں تھا۔ ےہ وہی رات بنتی ہے کہ جس کے بعد کوئی بھی منتر شہزادے کو مکھی سے آدمی کی جون میںنہ لا سکا۔ سجاد باقر رضوی کا ےہ بھی کہنا تھا:”ےہ کہانی پڑھ کر آدمی اپنے اندر کی مکھی صاف دیکھنے لگتا ہے۔“مگر میرے ساتھ عجب حادثہ ہوا ہے کہ اسے پڑھنے کے بعد مجھے کافکا کی کہانی کا گرے گور سمساےاد آ گیا ہے۔ انتظار حسین نے اپنے ہاں کی کہانیوں اور داستانوں سے دیو، شہزادہ اور شہزادی کو لے کر جو منظر نامہ ترتیب دیا ہے اس سے جون بدلنے والی کہانی اپنی اپنی سی لگنے لگی ہے مگر مکھی کے روپ میں کایا کلپ کے پیچھے یہاں دو نیتیں کام کر رہی ہیں: ایک خوف کہ دیو جان سے مار ڈالے گا اور دوسری اس کی نظر سے چھپے رہنے کی چال ۔ جب کہ کافکا کی کہانی بہت گہرا وار کرتی ہے۔ ذلت کے ساتھ زندہ رہے چلے جانے کی اذیت والا معاملہ خود بہ خود ہمارے اندر گھس جاتا ہے ۔ اپنے انتظار حسین کے ہاںساری کہانی کو بیانیے کے زور پر منوانے کے جتن ملتے ہیں ۔ یوسا کے خط کی روشنی میں،میں دیکھتا ہوں تو اس کی وجہ بھی سمجھ میں آگئی ہے۔ کافکا نے اپنی کہانی کا ڈیپ اسٹریکچر بنایا تھا ،انتظار حسین نے اپنی کہانی کا محض سرفس اسٹریکچر بنانے پر ساری توانائی صرف کر دی ہے۔ مجھے انتظار کی زبان بہت بھلی لگتی ہے اور اسی نے مجھ سے یہ کہانی بھی پوری توجہ سے پڑھوالی تھی مگر جوں جوں وقت گزرتا گیا اس کی چمک مانند پڑتی گئی اور میں اسے کافکا کی کہانی سے الگ کرکے دیکھنے پر قادر نہ ہوسکا۔ پیارے دوست،میں یوسا کی تائید میںیقین سے کہہ سکتا ہوں کہ فارم،کانٹینٹ اورتھیم کواگر اپنا بیانیہ خود وضع نہ کرنے دیا جائے تو تخلیق میں تاثیر کا جوہر اپنی پوری جولانی نہیں دکھا پاتا۔ ہمارے ہاں ساٹھ کی دہائی کے افسانہ نگاروں نے اپنا اپنا اسلوب بنانے کی باجماعت شعوری کوشش کی۔ انہوں نے ان عناصر کے بہم ہونے کا انتظار کیے بغیر علامت اور تجرید کے نام پر جو لکھا اسے لفظی کرتب بازی سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اس زمانے کازیادہ تر کام ساختہ ہونے کی وجہ سے تخلیقی تاثیر سے عاری محسوس ہوتاہے ۔ تاہم بیانیہ کو مردود قرار دینے والے اس زمانے میں بھی کچھ اچھے افسانوں میں ان عناصر کو باہم پیوست کرنے کی صورتیں نکال لی گئی تھیں اور یوں ان میں تاثیر کی کرامت پیدا کر لی گئی۔ جن دنوں میرے افسانوں کا دوسرا مجموعہ ”جنم جہنم “ آیا تھا ان دنوں منشایاد نے ان تاثیر والے افسانوں کی جتنی تعداد بتائی تھی اس کی گنتی تو بس ایک ہاتھ کی انگلیوں پر تمام ہو جاتی ہے ۔ بھئی اب تو مجھے یقین ہو چلا کہ میں ادھر ادھر بھٹکتا رہوں گا اور شاید ڈھنگ سے یوسا پر بات نہ ہو پائے گی۔ تم میری اس گم راہی پر مجھے معاف کر دینا اورجو بھی باتیں تمہارے مطلب کی نہ ہوں ان سے سرسری گزر جانا۔ ہاں تو بات یوسا کی قوت ترغیب کی ہو رہی تھی جسے میں نے اپنی سہولت کے لیے فی الحال تخلیقی تاثیر سے بدل لیا ہے۔ یوسا ہمیں اطلاع دیتا ہے کہ کہانی جس قدر تجربے میں آنے والی زندگی سے قریب ہو گی اور جس قدر اس تجربے میںآنے والی زندگی سے آزاد ہو گی اس میں تاثیر کی قوت اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ اس باب میں ہم اسی لال بیگ والا قصہ سامنے رکھ سکتے ہیں۔ دیکھو کافکا کا گرے گور سَمسا جتنی ذلتیں اٹھا رہا ہے وہ سار ی ہمارے تجربے اور مشاہدے کا حصہ ہیں ۔ اسی طرح کاکروچ ہم نے دیکھ رکھا ہے اور اس سے کراہت بھی ہمارے تجربے کا حصہ ہے۔ وہ جو یوسا نے کہا کہ کہانی کو ہمارے تجربے میں آنا چاہیے تو یوں ہے کہ گرے گور سَمسا اور کاکروچ کا الگ الگ وجود ہمارے تجربے سے جڑا ہوا ہے مگر ایک کردار کی دوسرے کردار میں کایا کلپ کے لیے جو باریک کام کافکا کے ہاں ہوا ہے اس کے عقب میں یوسا والی یہی بات کام کر رہی ہے کہ اس تجربے کو خود مکتفی ہو جانا چاہیے۔ تو یوں ہے کہ کس نے آدمی کو کاکروچ بنتے دیکھا ہے؟ مگر ہمیں دیکھنا پڑتا ہے اور وہ کافکا کی کہانی سے باہر کہیں نہیں ہے۔ انتظار حسین والی کہانی کا ایک المیہ یہ بھی ہے مکھی تو ہم نے دیکھ رکھی ہے مگر دیو ہماے تجربے کا حصہ نہیں ہے ۔ شہزادے اور شہ زادیاں بھی قصے کہانیوں کی مخلوق ہیں۔ اچھا مکھی کے حوالے سے اس کا غلیظ ہونا بھی ہمارے تجربے کا حصہ ہے۔ جب کہ انتظار کی کہانی میں محض اسے جسمانی سطح پر حقیر بناکر کہانی کا کام نکال لیا گیا ہے ۔ یوں ہمارا تجربہ جزوی طور پر چھواگیا ہے۔ علامتی اور تجریدی کہانی والوں کا بھی یہی المیہ رہا ہے ۔ وہ جس طرح کی زندگی بیان کرنا چاہتے تھے وہ قاری کے تجربے سے کٹی ہوتی یا پھر اوجھل ہوتی تھی۔ یہی سبب ہے کہ ان کی کہانیاں اس دنیا کا عکس تک نہ پیش کرسکیںجو ان کے قارئین تجربہ کرتے رہے ہیں اور یوں ایک دورافتادہ اور گونگی چیز بن گئیں۔ بہ قول یوسا: ایک ایسی اختراع جو ہمیں باہرد ھکیل کر دروازہ بند کردیتی ہے۔ تو یوں ہے پیارے کہ تاثیر پر میرا ایمان پختہ ہے اور یوسا کو پڑھ کر تو اور پختہ ہو گیا ہے۔یوسا کی یہ بات بھی لائق توجہ ہے کہ فکشن حیرت انگیز ابہام کا نام ہے۔ ایک طرف وہ حقیقت کی غلام ہے تو عین اسی لمحے خود مختار اور خود کفیل بھی ہے اور لطف یہ ہے کہ یہ انہی اجزا سے مرکّب ہے ۔ میں ان اجزا کو مساوی نہیں کہوں گا کہ ان کے تناسب میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے ۔ لو ابھی تک اسی خط پر بات کرپایا ہوں اب چاہتا ہوں کہ اسلوب والے خط پر توجہ مرکوز کردوں ۔ اس پر بعد میں بات ہوگی ۔”دنیا زاد“ کا نیا شمارہ مل گیا ہے جس میں تشی ہیکو از تسو کے مضمون کا ترجمہ” وجودیت: مشرق و مغرب“ شامل ہے میں اسے پہلی فرصت میں اور توجہ سے پڑھوں گا۔


محبت کے ساتھ


محمد حمیدشاہد


اسلام آباد: ۳ مئی ۸۰۰۲

Friday, February 20, 2009

اسلوب اور زبان:6


اسلوب اور زبان

محمد حمید شاہد

پیارے عمر میمن

:آداب لو بھئی میں اب یوسا کے اسلوب والے خط پر بات کر سکتا ہوں ۔ یہ موضوع ہم اُردو والوں کو ایسا بھایا ہے کہ ہمارے ہاں ہر گلی اور ہر محلے میں صاحبان اسلوب جوق در جوق ملنے لگے ہیں۔ ایک زمانے میں تو آدمی لکھنا بعد میں شروع کرتا اور صاحب اسلوب پہلے ہو جایا کرتا تھا۔ بعضوں کا اسلوب مشہور ہوگیا کوئی تخلیق مشہور نہ ہو سکی؛ وہ کیا کہتے ہیں; اِیتَر کے گھر تیتر باہر باندھوں کہ بھیتر۔ صاحب ِاسلوب کہلوانے کی طلب اور لوبھ نے بہت اچھا لکھنے والوں کو گمراہ کیا اور انہوں نے اپنے آپ کو چند موضوعات کے لیے کسی ”اسلوب“ کے ہاں گروی رکھ لیا ۔ خیر اب یوسا کو پڑھا ہے تو ایک بار پھر اس موضوع کی نزاکت،لطافت اور اہمیت کی طرف دھیان چلا گیا ہے ۔ یوسا نے یہ جو کہا ہے کہ ناول لفظوں سے بنے ہوتے ہیں تو یوں ہے کہ کسی لکھنے والے کا ڈھنگ ہی بتادیتا ہے کہ وہ کہانی کے متن کو تشکیل دیتے ہوئے اس کو کس رُخ سے آگے بڑھائے گیا۔ اسی سے تاثیر کی قوت (اور تمہاری وضع کردہ اِصطلاح میں قوت ِترغیب) کے متن سے پھوٹنے کا تعین ہو جاتا ہے۔یوسا نے یہ بھی درست کہا ہے کہ فکشن کا بیانیہ زُبان اوربیان دونوں سے مل کر بنتا ہے۔ یہ کہانی کا بیانیہ ہی ہوتا ہے جو میری نظر میں تخلیق کو تخلیق کار کی زِندگی سے پھوٹ کر الگ ہوجانے اور”خود مکتفی“ ہونے کی صورتیں بتاتا چلا جاتا ہے۔ زُبان کے حوالے پر یوسا کا خط بہت دلچسپ ہو گیا ہے۔ ہمارے ہاں اکثر مباحث میں شاعر لوگ (خصوصاً غزل کے شعرا،جو خود ایک طرف تو روایتی زبان کے اسیر ہوجاتے ہیں اور دوسری طرف متقدمین کے ہاں سے رعائتیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاتے ہیں کہ اپنے لیے گنجائشیںپیدا کر سکیں) افسانہ نگاروں پر پھبتی کسا کرتے ہیں کہ اُنہیں زبان لکھنا نہیں آتی۔ یہی الزام بیدی سے لے کر آج تک چلا آتا ہے ۔ یہ جو یوسا نے صحت کے تصور کو حذف کرنے کی بات کی ہے اور ہر بار، ہر عیب سے پاک ، ٹھیک ٹھیک صرف و نحو کے پیمانوں پر آنکی ہوئی زبان کے استعمال کرنے کی للک سے پیدا ہونے والی خرابی کاذکرکیا ہے تو یہ بھی سمجھ میں آنے والی بات ہے ۔ اپنے موضوع کے لیے موزوں زبان کا انتخاب فکشن کے باب میں بنیادی مسئلہ بنتا ہے۔ جن دو باتوں کو یوسا نے فکشن کی زبان کے باب میں کام یابی کے بیانیہ کی ضمانت قراردیا ہے( یعنی داخلی ربط اور اس کی ناگزیریت ) واقعہ یہ ہے کہ ان کے بغیر زبان اور بیان کو سلیقے سے آگے بڑھایا ہی نہیں جاسکتا۔ بیان بے ربط ہو سکتا ہے،زبان ناہموار ہو سکتی ہے مگر بیانیہ کہانی کی تظہیر کے بعد ایک ربط میں آجانا چاہیے ۔ بھئی کتنی پر لطف بات ہے ۔ ”ناول جو کہانی بیان کررہا ہے بے ربط ہوسکتی ہے، لیکن وہ زبان جو اس کی تشکیل کرتی ہے اسے باربط ہونا چاہیے“۔یہاں یو سا نے ”یولیسس“ کی بر محل مثال دے کر اپنی بات خوب اچھی طرح سمجھا دی ہے۔ تم نے اس حصے کوخوب ترجمہ کیا ہے ۔ سیل بے اماں، فسوں ساز قوت،سرگرداں شعور کی نقالی، گھڑنت جیسے مناسب اور برمحل الفاظ ڈھونڈ لانا،کہ بات اس طرح واضح ہوتی چلی جائے جیسی کہ اصل متن میں کہی گئی ہو گی، مانتا ہوں جی ،تخلیق نو والا معاملہ ہے۔ خوب بھئی خوب۔ ادھر یوسا نے بھی اپنے خط کے اس حصے میں بڑے پر لطف اشارے کیے ہیں۔ ایک طرف اکڑی ہوئی اور کسی ہوئی مکتبی زبان کو رکھا ہے اور دوسری طرف تخلیقی زبان، کہ جس میں خوب گودا ہوتا ہے۔ اس کی یہ بات بھی تسلیم کی جانی چاہیے کہ بعض موضوعات کے لیے نک سک سے درست زبان ہی مناسب ہوجایاکرتی ہے ۔ یہ جو اسلوب کو نفسِ موضوع کے مطابق ڈھال لینے کی بات ہے اس کوہمارے فکشن نگاروں کو پلو میں باندھ کر رکھنا ہوگا ۔ ایک بار پھر داد وصول کرو کہ مجھے ”تبحّرسے کلیلیں “ والا جملہ لطف دے گیا ۔ مفروضے کو باقاعدہ ایک تیکنیک بنا نے، جذباتیت سے کنّی کاٹنے ،جسم اور ہوس رانی سے کنارا کشی کرنے والے خواص کو جس طرح بورحیس کے اسلوب میں نمایاں شناخت کیا گیا ہے اور اس کی کہانیوں کو اپنے لطیف طنز کے باعث انسانی صفات اختیار کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے بھئی مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر گیا ہے ۔ تم نے بورحیس اور مارکیز کے اسالیب کی وضاحت والے حصوں میں اپنے ترجمے میں خوب لطف پیدا کیا۔ لو وہ جملہ بھی آگیا جسے ہر لکھنے والے کو ازبر کر لینا چاہیے اور اگرکوئی نسیان کے عارضے میں مبتلا ہو تو اسے اپنے سامنے لکھ کر لٹکا لینا چاہیے: ”ادب میں اخلاص یا عدم اخلاص ایک اخلاقی معاملہ نہیں ہے بل کہ جمالیاتی معاملہ ہے۔“معاف کرنا،یوسا کی یہ بات کہ ” سچ تو یہ ہے کہ لفظ بھی وہ کہانیاں ہیں جو وہ بیان کرتے ہیں“ مجھے ادھوری لگی ہے ۔ کون نہیں جانتا کہ لفظ اگر جملے سے باہر پڑا ہو تولڑھک کر سیدھا لغات کی ٹوکری میں جا گرتا ہے یا پھر گونگا ہوجاتا ہے ۔ یہ جملہ ہی ہوتا ہے جو اس کے اندر ایک کہانی داخل کرتا ہے یا اسے کچھ کہنے پر اکساتا ہے ۔ ہر نئی ترتیب سے اس کہی جانے والی کہانی میں حک و اضافہ ہوتا رہتا ہے۔بل کہ یوں کہوکہ کہانی کے ٹھاٹ بدل جاتے ہیں( چاہو تو ہندی کے” ٹھاٹ“ کو انگریزی کے” تھاٹ(Thought)“ سے بدل لو)۔ یو سا کی یہ بات بھی یاد رکھی جانی چاہیے کہ ”جب ایک لکھنے والا کوئی اسلوب مستعار لیتا ہے، تو پیدا ہونے والا ادب نقلی محسوس ہوتا ہے، محض ایک مضحکہ خیز نقّالی۔“جب یو سانے نئے لکھنے والوں کو ایک اسلوب کی تلاش میں نکل کھڑے ہونے کا مشورہ دینے کے ساتھ ہی مسلسل پڑھنے اور بہت اچھا پڑھے چلے جانے کا کہا تو سمجھو اس نے انہیں گمراہ ہونے سے بچا لیا ہے ۔ کیا خوب بات ہے :”ان ناول نگاروں کے اسلوب کی نقّالی نہ کرو جو تمھیں بہت بھاتے ہیں اور جنھوں نے پہلے پہل تمھیں ادب سے محبت کرنا سکھایا۔“مجھے یہاں حلقہ ارباب ذوق راول پنڈی والی ایک نشست یاد آتی ہے ۔ یہی متاثر ہونے والا قضیہ چل رہا تھا۔ جلسہ کے شرکا نے لگ بھگ مجھے زچ ہی کر دیا تھا۔ سب اس پر برہم تھے کہ آخر میں کسی سے متاثر کیوں نہیں ہوں؟ اگر ہوں،تو بتاتا کیوں نہیں ہوں؟؟ گویا میں کچھ چھپا رہا تھا یا پھر جھوٹ بول رہا تھا۔ کسی اور تقریب میں جب کہ میں اگلی نشست پر بیٹھا تھا؛ ایک ستر سالہ بزرگ ناقد نے مجھ پر نظریں گاڑے گاڑے کہا تھا;’ بعض لوگ نہ جانے کیوں اس کااعتراف کرلینے میں ہتک محسوس کرتے ہیں کہ وہ کسی سے متاثر ہیں ۔ ‘ مجھے یوں لگا کہ یہ مجھے کہا گیا تھا۔ اس روزاس بزرگ ادیب کی بدگمانی اور چوٹ کرنے پر بہت دُکھ ہوا تھا ۔ حلقہ کی اُس نشست میں، کہ جس کا میں ذکر کر رہا تھا اور جو دراصل میرے ساتھ سوال وجواب کی نشست تھی، مجھ سے متاثر ہونے والا سوال پوچھا گیا تھا،تو میں نے صاف کہہ دیا تھا : ”تخلیقی عمل کے دوران ”موحد“ ہونا پڑتا ہے کہانی کو بھی اور تخلیق کار کو بھی۔“ پھر تو صاحب ،شور مچ گیا تھا کہ جیسے میں لکھنے والوں کو ”وہابی‘ ‘بنانے جارہا تھا۔ یہ وہابی والا لطیفہ تو تم نے سن ہی رکھا ہوگا ۔ اجی، وہی سردار جی والا: جن کی دکان بہت چلتی تھی ۔ محلے کا دوسرا دکان دار ،جو مسلمان تھا، مولوی صاحب کے پاس گیا، اپنادُکھ بیان کیا، نذرانہ دیا اور مولوی صاحب کو دُعا کے لیے کہا۔ مولوی نے کہا ،فکر نہ کرو میں دعا بھی کرو ںگا اور اس سکھ کے بچے کا بندوبست بھی کردوں گا۔ اگلے روز مسجد سے اعلان ہو رہا تھا : صوبہ سنگھ کریانے والا‘ وہابی ہو گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان سردار جی کی دکان ٹھپ ہوگئی۔ ہاں تو،میں نے تو محض یہ کہا تھا : ” میں نے کوشش کی ہے کہ جیسا کسی اور نے لکھاہے میں ویسانہ لکھوں۔ میں اوروں کی طرح نہیں لکھنا چاہتا میرا اپنا تخلیقی تجربہ میری راہ متعین کرتا ہے اور یہ خرابی یا خلش میرے اندر ہے کہ مجھے سب سے بچ نکلنا ہے ۔ “ میں نے اسی مقام پر وضاحت بھی کر دی تھی : ”تمام اچھے اَفسانہ نگاروں کے مجھ پر اثرات ضرور ہوں گے کہ میں روایت کے ساتھ جڑا ہوا آدمی ہوں۔ جڑا ہوا بھی ہوں اور اس سے کٹتا بھی رہتا ہوں تاہم لکھتے ہوئے میں تنہاہوجاتا ہوں ۔ اور میں اچھے تخلیق کارکے لیے ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ ممکن حد تک دوسروں کے اثرات سے بچے اور ذاتی جوہر کو اپنی کارکردگی دکھانے دے ۔“ میں نے گفتگو کا یہ حصہ ڈھونڈ کر بطور خاص یہاں ہو بہ ہو نقل کیا ہے کہ تم تک، تخلیق کار کی حیثیت سے میرا اپنا رجحان پہنچ پائے اور شاید اس طرح تمہیں اس کا جواز بھی مل چکا ہوگا کہ میں یوسا کو کیوں چاہنے لگا ہوں۔ اب یوسا کی باتیں نہ پڑھتا تو شایدمیں اپنے آپ کو ”ادب کا وہابی“ ہی سمجھتا رہتا۔ یوسا کے ایک خوب صورت جملے کو نقل کرنے کے بعد تم سے اجازت چاہوں گا۔ اگر ممکن ہو تو میری کتاب ”اردو افسانہ:صورت و معنی“ کے ابتدا ئی مباحث پر نگاہ ڈال لینا۔ اور ہاں جہاں کہیں میں نے ٹھوکر کھائی ہے اس کی نشاندہی کرو تو یہ احسان ہوگا۔ ہمارے ہاں یہ خرابی راسخ ہو چکی ہے کہ ہم اس طرح کے مباحث سے الگ تھلگ رہتے ہیں جو یوسا نے اُٹھائے ہیں۔ یوسا کا وہ جملہ،جو مجھے آخر میں نقل کرنا تھا یوں ہے: ”اچھی کہانیاںکہنے کے لیے تنہا الفاظ کافی نہیں ہوتے۔“پانچویں خط پر جلد بات ہو گی۔

محبت کے ساتھ

محمدحمیدشاہد

اسلام آباد : ۳ مئی۸۰۰۲

7:کہانی ‘تخلیق کار اور راوی


کہانی ‘تخلیق کار اور راوی

محمد حمید شاہد

پیارے عمر میمن
آداب
میں نے سوچا تھا کہ کل اتوار ہے‘ چھٹی والادن۔ سکون سے یوسا کا پانچواں خط پڑھوں گا مگر مجھے چین کہاں آسکتا تھا؟۔ سو کمپیوٹر کھول کر بیٹھ گیا ہوں ۔ جس کمرے میں، میں سوتا ہوں وہیں ایک طرف میز کرسی لگا کر میں نے لکھنے پڑھنے کی جگہ بنا لی ہے ۔ دوپہرآ فس سے واپس آکر جوں ہی میں نے کمپیوٹر آن کیا،میری بیوی، جواس وقت آرام کرنے کی عادی ہے، چڑ گئی۔ یہ بھی کیا دیوانگی ہے کہ دفتر سے گھر آتے ہی میں نے عین اس کے سرہانے دفتر لگا لیا ہے ۔ تو یوں ہے بھائی کہ یوسا کے خطوط نے واقعی مجھے اپنی گرفت میں لے کر دیوانہ بنا لیاہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ فکشن کے مبادی مباحث اور تخلیقی عمل کے اسرار جیسے موضوعات مجھے مسلسل گھیرے ہوئے ہیں ۔ اور یوسا کی طرف دیوانوں کی طرح لپکنا بھی شاید اسی وجہ سے ہوگا۔ یوسانے پانچویں خط میں راوی کی اقسام گنوائی ہیں اور ان پر بحث کی ہے جو اپنی جگہ بہت دِل چسپ ہےں۔ یوسا کی یہ بات مانتا ہوں کہ کہانی بیان کرنے والی ذات کو مصنف سے خلط ملط نہیں کرنا چاہیے تاہم میں اس کی اس بات کو مان لینے میں تامل محسوس کر رہا ہوں کہ کہانی کا راوی لفظوں کا بنا ہوا ہوتا ہے ،گوشت اور خو ن سے بنے ہوئے آدمی جیسا نہیں ہوتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ لکھنے والا جب تک اپنے کردار کے استخوانی ڈھانچے پر گوشت مڑھ کر اس کے سینے میں دل، رگوں میں لہو اور پھیپھڑوں میں سانسیں اور بدن میں روح نہیں بسا لیتا، اس وقت تک اس کا کردار محض لفظوں کا بنا ہوا آدمی ہی رہتا ہے، یوں جیسے لفظ اور تخیل لوہے کے ہوتے تو آدمی اور کہانی روبوٹ بن چکے ہوتے۔ ہاں،یہ بات ماننے کی ہے کہ کہانی کا راوی کہانی کی حدیں پار نہیں کرتا ۔ کہانی کا مصنف بھی حد پار کرے توسنگسار ہوجاتا ہے ۔ بے شک مصنف کی اپنی زندگی بہت پُرمایہ اوربھرپور ہوتی ہوگی مگر جب وہ کہانی کے مقابل ہوتا ہے تو سچ جانو کہ وہ بہت سکڑ جاتا ہے اور کہانی کا راوی اس کو زیر کر لیا کرتا ہے۔ راوی کا فکشنی وجود اگر ساختہ لگنے لگے تو اسے مصنف کی ناکامی سمجھنا چاہیے ۔ میں اس راوی کو مانتا ہوں جو یوسا کے مطابق، تمام دوسرے کرداروں کی کہانیاںبیان کرتاہے،یوں کہ جسے ظاہر کرنا ہوتا ہے اسے ظاہر کرتا ہے اور جسے چھپانایا لٹکائے رکھنا ہوتا ہے،اُدھر دیکھتا بھی نہیں ۔ بیان ہونے والے کرداروں کو باتونی ہونا ہے یا کم آمیز ، چنچل ہونا ہے یا سنجیدہ یہی راوی سکھاتا ہے ؛بالکل اس انسان کی طرح جس کا شعور اپنی نابالغ اولاد کو سکھانے کے معاملے میں پوری طرح چوکس ہوتاہے،تاہم ایک بار کردار بن جائے تو وہ خودسر ہو جایا کرتا ہے ۔ بالغ بچوں کی طرح ان کی اپنی شخصیت،اپناڈھنگ اور اپنا چلن ہوتا ہے ۔ اگر ایسا نہ ہو پائے تو یقین جانو راوی طاق پر بیٹھے اس اُلو جیسا ہو جاتا ہے،جو بھر بھر چلو مانگتا ہے۔ کہانی کون بیان کرے گا؟ اس کے لیے تین میںسے ایک کا انتخاب کیا جاتا ہے اس باب میں یوسا کی نشان دہی کتنی خوب ہے:راوی-کردار،ہمہ دان راوی،اورمبہم راوی ( گول مول پڑھ کر ہنسی چھوٹ جاتی ہے؛ ہو سکے تو اسے بدل لو۔) کاش، یوسا کی ان باتوں کو کوئی ناقد آگے بڑھائے اور اردو والوں کو بھی ایسے مباحث کی طرف راغب کرے۔ تمہارے تراجم نے اگر کسی کو اس طرف مائل کر دیا، توسمجھو تمہاری اس کاوش کاحق ادا ہوا ۔ بھئی مجھے تو اپنا گھائل ہی جانو۔ کاش میں اس خط کے سارے نکات کا احاطہ کر سکتا ۔ بیگم اُکتا کر پہلو بدل رہی ہے ،میرا دھیان مسلسل اُدھر رہا ہے اور اب یوں لگنے لگا ہے کہ میں زیادتی کا مرتکب ہو رہاہوں ۔ لو اجازت دو۔ تاہم بتاتا چلوں کہ اس خط کی تمام دیگر باتیںمجھے برحق لگیں اور تمہارا ترجمہ بھی خوب رہا ہے۔


محبت کے ساتھ


محمد حمید شاہد


اسلام آباد : ۳ مئی ۸۰۰۲

محمد عمر میمن

برادرم حمیدشاہد
السلام علیکم۔
بے حد مفصل خط ملے۔ شکریہ۔ میں پھر پرانا جملہ دھراوں گا، ”میری تو سمجھ میں نہیں آتا کہ جواب میں لکھوں تو کیا لکھوں۔ ہنوز آپ کے باریک بین مطالعے اور جس عقیدت اورسنجیدگی سے آپ ادب کے سامنے دو زانو ہوکر بیٹھتے ہیں اسی پر حیرت کررہا ہوں۔کاش ہمارے بیش تر پڑھنے اور لکھنے والوں کو آپ کا چلن آجائے! “چوں کہ آپ نے جو کچھ ان خطوط میں لکھا ہے مجھے اس سے کوئی قابلِ ذکر اختلاف نہیں، ان کا جواب دینے کے لیے کچھ بن نہیں پڑ رہا۔ سو آپ مجھے دوسری باتیں کرنے کی اجازت دیں۔لیکن اس سے پہلے صرف ایک بات کے بارے میں اپنا خیال ظاہر کرنا چاہوں گا: میرے خیال میں یوسا کا شاید یہ مقصد نہیں ہے کہ مفرد لفظ کہانی ہوتا ہے (گو ہوسکتا ہے، اگریہ لکھنے والے کی یاد سے مس ہوجائے، بہ شرطے کہ لکھنے والے کو بات کرنے کا سلیقہ آتا ہو) بل کہ یہ کہ کہانی اس کے بغیر کہی نہیں جاسکتی اور دورانِ روایت یہ کوئی بے جان شے نہیں رہتابل کہ اپنی خود مختار معنویت اور انسلاکات کی ایک پوری اقلیم سنبھالے ہوئے آتا ہے۔ ویسے آپ کی بات ٹھیک ہے کہ فکشن میں ہمیں جملے کو اکائی ماننا چاہیے، مفرد لفظ کو نہیں۔بھائی، میں کسی قدر سکتے کے عالم میں ہوں۔ ”دنیا زاد“ کی چند گزشتہ اور تازہ اشاعت میں میرے کئی تراجم چھپے۔ کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ میں برا کیا مانتا (کہ تراجم سے میرا مقصدبڑی حد تک پورا ہوگیا تھا، یہی کہ اردو جسے بھولے جارہا تھا اس کی بازیافت) حیرت ضرور ہوئی۔ لیکن صاحب شمال کی طرف یہ عالم ہے کہ”سمبل“ میں صرف دو خط پڑھ کر آپ میں کھلبلی مچ گئی۔ اور اب فرشی صاحب کا خط آیا ہے کہ آپ کے تراجم پر اتنے توصیفی خط آئے ہیں کہ آپ پڑھ کر باغ باغ ہوجائیں گے۔ عجیب بات ہے، کراچی اور اس کے انواح میں، جس کے بارے میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ اردو والوں کا مسکن ہے،وہاں تو میرے تراجم کا کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ تو، برادر، ایسے میں آپ کا ملنا، اور ان تمام نادیدہ اور ناشناس قارئینِ ”سمبل“کا ملنا میرے لیے کسی نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں۔ مجھ پر ایسی توجہ تو پہلے کبھی نہیں دی گئی۔ آپ کی دوستی کے حوالے سے ذوق یاد آتے ہیں:
اے دوست کسی ہم دمِ دیرینہ کا ملنابہتر ہے ملاقاتِ مسیحا و خضر سے
آپ جس توجہ سے یوسا کے خطوط کے ترجمے پڑھ رہے ہیں ان کا شکریہ کس طرح ادا کروں۔ میری محنت سپھل ہوئی۔ سچ اتنا اطمینان ہوا کہ کیا عرض کروں۔ پھر مجھے آپ کے اس دیدہ ریز مطالعے سے ایک بلاواسطہ فائدہ بھی پہنچ رہا ہے۔ آپ ان الفاظ کا بھی ذکر کردیتے ہیں جو آپ کے اندازے کے مطابق درست ترجمہ نہیں ہوئے ہیں۔ خیر یہ کام تو دوسرے بھی کرنے میں کچھ کم ماہر نہیں۔ لیکن وہ متبادل الفاظ تجویز نہیں کرتے۔ آپ کرتے ہیں۔ جس سے مزید غوروفکر کی راہیں کھل جاتی ہیں۔ آپ کی” قوتِ ترغیب “اور ”پیشے“ سے بے اطمینانی کے باعث میں بڑی سنجیدگی سے سوچ رہا ہوں کہ پہلے کو ”قوتِ تاثیر“ اور دوسرے کو ”اذن“ سے بدل دوں۔ ترجمہ کرتے وقت میں بھی ان سے مطمئن نہیں تھا۔ آپ کے خطوط ملنے کے بعد تو بے اطمینانی اور بڑھ گئی ہے۔ یہ بتائیے vocation/calling کے لیے”اذن“ مناسب رہے گا؟اب آپ سے ایک در خواست ہے۔ آپ یہ کام اب ذرا زیادہ سختی، بل کہ میں تو کہوں گا زیادہ بے رحمی سے کیجیے۔ جہاں جہاں بہتر لفظ سوجھے بلا تکلف بتائیں۔ آپ جب بقیہ خطوط پڑھیں گے تو وہاں بھی آپ کو میری بے بسی کا اندازہ ہوگا۔ لیکن آپ کی مدد شاملِ حال رہی اور پوری کتاب چھپنے کی کبھی نوبت آئی تو اس کے رخ و رخسار کا انگھڑ پن قدرے بہتر ہوجائے گا۔ کیا حرج ہے۔میں اگلے دو تین خط بھی جلد ہی بھیجوں گا۔ لیکن ایک بات کا خیال رکھیں۔ ان پر ابھی مزید کام کرنا باقی ہے۔میں جب آپ کے تازہ خط پڑھ رہا تھا تو اچانک مجھے ایک خیال آیا۔ آپ نے یوسا کے ہر خط کے حوالے سے مجھے ایک خط لکھا ہے۔ ان خطوں کی اپنی حیثیت ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ان پر نظر ثانی کرکے انھیں سلسلے وار یا کتابی شکل میں چھپوادیا جائے۔ ان کا لہجہ بے حد شگفتہ اور علم رسا ہے ۔ اگر لوگوں نے یوسا کے خط پڑھ بھی لیے تو آپ کے خط پڑھ کر بات شایدزیادہ آسانی سے ذہن نشین ہوجائے۔تکرار کی اپنی افادیت ہے۔ پھر آپ کے خطوط میں یہ بات اہم ہے کہ یہ ہمارے اردوکے حاضرہ منظر نامے کی حدود میں رہتے ہوئے کی گئی ہے، جیسے حلقے والا واقعہ جہاں آپ نے اس سوال کے جواب میں کم کم بولنے کو ترجیح دی کہ ایک باشعور لکھنے والے کے لیے اس بات کا جواب دینا کتنا مشکل ہے کہ اس پر کس کس کے اثرات ہیں، جب کہ لکھنے کا عمل شعوری طور پر ایک اچھے لکھنے والے کو ان اثرات سے کنی کٹانے کی شہ دیتا ہے، اور کہ جواب نہ دینا خود سری یا اپنی ذات پر فخرِ بے جا کی نشانی نہیں۔بھائی، میری درخواست ہے کہ کم از کم آپ اپنا خط نمبر ۴، جویوسا کے اسلوب والے خط کے بارے میں ہے، فرشی صاحب کو بھیج دیکھیں۔ نہ چھاپیں تو نہ چھاپیں۔ کیا فرق پڑتا ہے۔ ”دنیا زاد “ کو آزما لیا جائے گا۔ ان خطوط کی شانِ نزول کے بارے میں ایک ابتدائی تعارفی پیراگراف لکھ دینے سے بات قارئین کے لیے واضح ہوجائے گی۔ یعنی انھیں آپ کے خطوط کے سیاق و سباق کا علم ہوجائے گا۔مجھے توقع نہیں تھی کہ یوسا کہ خطوط سے ہمارے لکھنے والے کچھ اثر لیں گے۔ لیکن آپ کے اتنے زبردست اور مثبت ردعمل کو دیکھ کر خیال آیا کہ اب اس معاملے کو جھاگ کی طرح بیٹھ نہیں جانا چاہیے بل کہ اسے کچھ عرصے تک ادبی منظر پر معلق رہنا چاہیے اور لکھنے اور پڑھنے والوں کی یاد میں منڈلانا۔ پھر چاہے لکھنے والے ان خطوط کی دانش کا بالجہر اعتراف کریں نہ کریں، اس سے دامن بھی نہیں بچا سکیں گے، کیوں کہ یہ دانش قاری کے قبضے میں آچکی ہوگی اور وہ ان سے یہ توقع کرے گی کہ اگر لکھنا ہی ہے تو ان معیاروں کو سامنے رکھ کر لکھو ورنہ ہمارا وقت نہ ضائع کرو۔ اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں۔ میرا اور آپ کا مقصد پورا ہوگا۔ شاید اسی بہانے غیر محسوس دباو سے مجبور ہوکر ہمارے لوگ اچھا فکشن لکھنے لگیں۔ سوچیے گا۔بس جناب، اب گاڑی میں پیٹرول ختم ہوگیا ہے، اور بیٹری بھی کم زور پڑنے لگی ہے۔ باقی باتیں آپ کا اگلا خط آنے پر، یعنی وہ باتیں جو آپ کا خط آنے سے اٹھیں گی اور مجھے تحریک دلائیں گی۔ امید ہے کہ آپ بہ خیروعافیت ہوں گے۔


والسلام


محمد عمر میمن


میڈیسن: ۵ مئی ۸۰۰۲

8:ترغیب نہیں تاثیر


ترغیب نہیں تاثیر

محمد حمید شاہد

پیارے عمر میمن :
آداب
بھئی شکریہ تو مجھے تمہارا اَدا کرنا ہے کہ یوسا کے خطوط میرے لیے بھادوں کی بھرن ثابت ہوئے ہیں ۔ خیر بھرا ہوا تو میں پہلے سے تھا،یوسا کو پڑھا تو کناروں سے چھلک پڑا ہوں ۔ اور ہاں، یہ جو تم نے کہا ہے کہ ادھر کراچی والوں پر ایسا اثر کیوں نہیں ہوتا؟ میں تو اس باب میں اتنا ہی جانتا ہوں کہ صاحب،یہ ہے بھادوں کا جھلا، ایک سینگ سوکھا ایک ہو گِلا۔ ایسے میں ایک طرف تالاب کناروں تک بھر جائے اور دوسری طرف ڈھیلا ہی نہ گَلے تو اس پر تعجب کیسااور ہمارا تپنا کیا؟ لو میں تمہاری تفہیم درست مانتا ہوں کہ یوسا کی مراد مفرد” لفظ“ نہیں تھا۔ سچ پوچھو تو ہونا بھی نہیں چاہیے تھا۔ یہ بھی درست ہے کہ” لفظ دورانِ روایت کوئی بے جان شے نہیں رہتا، اپنی خود مختار معنویت اور انسلاکات کی ایک پوری اقلیم سنبھالے ہوئے آتا ہے۔“ ” قوتِ ترغیب “اور ”پیشے“ سے میری بے اطمینانی کی وجہ تمہارے ہاں لائق اِعتنا ہوئی، ٹھیک ہے انہیں بدل ڈالو ۔ تم نے اس باب میں درست سوچا ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے تم ہو بہت بھلے مانس،سہولت سے” بہکاوے“ میں آجاتے ہو۔ اپنے کام پردوسری اور تیسری نظرڈالنے کو پہلے سے تیار بیٹھے ہو۔ ادھر تو یار لوگ ایک دفعہ لکھ کر قلم توڑ دیا کرتے ہیں ۔ اب تم خود سمجھ سکتے ہو ایسی بے چاری تحریروں کو چھپتے ہی کھنگر کیوں لگ جاتی ہے ۔ بھئی سچ پوچھو تو مجھے vocation/calling کے لیے تمہارا مجوزہ لفظ”اِذن“ اچھا لگا۔ تاہم اس پر ایک دفعہ پھر سوچنا ہوگا کہ ” اِذن“ تصوف کی اِصطلاح میں مرشد کی طرف سے سالک کودی جانے والی اِجازت کے معنوں میں معروف ہے۔ سوال یہ ہے کہ جس لفظ کو پڑھتے ہی سر پر ٹوپی اوڑھ لینے کو جی چاہے وہ فکشن کی اِصطلاح بن کر کس حد تک مختلف شیڈز دے سکتا ہے۔ میرے ذہن میں اسی قبیل کا ایک اور لفظ” توفیق“ آیا تھا۔ یہ دو سطحوں پر معنی دے سکتا تھا،ایک یہ کہ لکھنے والے کو فطرت کی طرف سے کیا توفیق عطا ہوئی گویا میلان کیا ہے اور دوسری، اس لکھنے والے کی اِس باب میں توفیق کیا ہے؛ یعنی اس کی صلاحیت لپک کر کس حد کو چھو سکتی ہے۔ تاہم وہی ٹوپی والی پھبتی اس لفظ پر بھی جچتی ہے۔ تم نے اپنے خط میں کہا ہے کہ تمہیں میری باتیں اردوکے حاضرہ منظر نامے کی حدود میں رہنے کی وجہ سے اچھی لگی ہیں ۔ شکریہ پیارے شکریہ ۔ یہاں ایک اور وضاحت کی گنجائش نکل آئی ہے کہ یوسا نے تو اپنے خطوط میں ناول اور فکشن کے ڈھنگ بتائے ہیںاور میں انہیں افسانے کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کرتا رہا ہوں۔ تمہیں معترض ہونا چاہیے تھا اور پوچھنا چاہیے تھا کہ میں ادھر سے اُدھر کیوں کدکڑے مارے پھرتا ہوں؟ شیشے اور سیخ میں فرق تو ہونا چاہیے ؟ اُدھر کی شراب ادھر کیوں ڈالتا پھرتا ہوں؟ لو،بھئی تم نہ پوچھو گے تو کیا میں اتنے اہم معاملے کی وضاحت نہ کروں گا؟ ہمارے ہاں یہ قضیہ اُٹھتا رہا ہے ۔ ایک حضرت نے تو Edgar Allen Poe کا حوالہ دے کر یہ تک دعوافرما دیا تھا کہ وہ تواَفسانے کو فکشن ہی نہ مانتا تھا۔ جو مانتا ہوتا تو اپنے شہرہ آفاق مضمون ”Art of Fiction “ میں Short Story کا ذکرضرور کرتا۔ تم ہی کہو پیارے، Poe نے اَفسانے کا ذکر اپنے مضمون میں نہیں کیا اور اب یوسا بھی اپنے خطوں میں افسانے کا حوالہ نہیں دے رہا تو یہ کیوں کر ثابت ہوگیا کہ اَفسانہ اور فکشن الگ الگ ہیں۔ یعنی ناول تو فکشن ہے اور افسانہ ؟ بھئی یہ درفنطنی بھی عجب ہے۔ وارث علوی اَفسانے کی تنقید لکھتے ہوئے اسے” فکشن کی تنقید“ کہہ چکا ہے ۔ شمس الرحمن فاروقی نے اَفسانے اور کہانی،دونوں کو اپنی کتاب(افسانے کی حمایت میں) میں مختلف مقامات پر فکشن کے مترادف کے طور پر لکھا ہے ۔ اب اگر میرے ہاں بھی ایسا ہی ہورہا ہے تو غُل نہیں مچنا چاہیے۔ میں اس باب میں پہلے بھی وضاحت کر چکا ہوں کہ ہمارے ہاںshort storyکا عین مین ترجمہ” مختصر اَفسانہ “ ہوگیا تھااور short fiction کہتے ہوئے، یہ خیال کیا جانے لگا کہ اَفسانہ تو ناول کا منی ایچر ہوتاہے ۔ یہیں سے خرابی شروع ہوتی ہے ۔ میری نظر میں شارٹ اسٹوری کا اُردو میں متبادل ”اَفسانہ“ ہے” مختصر اَفسانہ“ نہیں۔ یہ لفظ پہلے سے ہی ہمارے ہاں موجود تھا اور یہ کہ ہمارے ہاں کا اَفسانہ ناول کی قطعاً تصغیری صورت نہیں ہے ۔ میں Poe کی یہ بات بھی ماننے کو تیار نہیں ہوں‘ جس کے مطابق شارٹ اسٹوری کو ایسی صنف بتایا گیا تھا جو ایک گھنٹے میں پڑھی جا سکتی تھی۔ ہمارے ہاں ناولٹ کو ایک آدمی کی زندگی بتایا گیا تو ناول کو اسی فرد کی تہذیبی زندگی ہے جب کہ افسانہ زندگی کی ایک قاش قرار پایا ۔ میرا دل تو اس تقسیم پر بھی نہیں ٹھکتاکہ تم نے ایسے کام یاب ناول دیکھ رکھے ہوں گے جو زندگی کے اِنتہائی مختصر دورانیے اور گنتی کے چند کرداروں کوخاطر میں لاتے رہے ہیں مگر انہیں ناول ماناگیا؛ کوئی انہیںشارٹ اسٹوری یا اَفسانہ کہنے کوبہ ضد نہیں ہے ۔ تم نے ایک سے ایک بڑھیا افسانہ ترجمہ کر رکھا ہے تم ہی بتاﺅ کیا اس میں تہذیبی زندگی کی پوری ہما ہمی نہیں آتی رہی ہے۔میں نے تو کئی افسانوں کویوں پایا ہے جیسے وہ پوری کائنات کو گھیر لینے کی کوشش میں ہوتے ہیں ۔ مغرب میں ناول اور اَفسانے کے درمیان تیکنیک کے فرق کی وضاحت تو ہوتی رہی مگر ان کو الگ الگ صنفی منصب کا درجہ نہیں دیا گیا جب کہ اُردو فکشن کے مجموعی تجربے کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو جو منظر نامہ بنتا ہے اس میں اَفسانہ ہویا ناول فی الاصل اَفسانے ہی کی ذیل میں شمار ہوتے ہیں ۔ گویا تم کہہ سکتے ہو کہ ہمارے ہاں اَفسانے نے ایک صدی سے زاید کے عرصے میں کئی صدیوں کی مسافت طے کی ہے اور فکشن کی کوئی بھی فرع ہو اَفسانے کی مستحکم ہو چکی رَوایت سے اس کا بچ نکلنا ممکن نہیں رہا ہے ۔ ٭میمن: عبارتِ بالا کے بیش تر مفاہیم کی صحت سے کسی کافر کوہی انکار ہوسکتا ہے۔ بہ ہر حال،مجھے نہیں ہے، اور یوسا کو بھی نہیں ہونا چاہیے۔ چوں کہ اُس کے خطوط ایک نوجوان ”ناول نگار“ کے نام ہیں ، اسی لیے وہ یہاں ”فکشن“ میں صرف صنفِ ناول کی داخلی عملیات (یا انجرپنجر)پر گفتگو کررہا ہے۔ ”شورٹ اسٹوری“ کے لوازمات ناول کے لوازمات سے مختلف تو ہوسکتے ہیں، لیکن یہ اتنے فیصلہ کن نہیں ہوسکتے کہ خود ”شورٹ اسٹوری“ کو ”فکشن“ کی اقلیم سے بے دخل کردیں۔ میرا خیال ہے کہ آپ نکتے کو خوب سمجھتے ہیں لیکن بعض اردو نقادوں کی غلط فہمی یا تنگ نظری کا حساب بے باق کررہے ہیں، یا، آپ ہی کے لفظوں میں، اپنے ”جی کا بخار“ نکال رہے ہیں۔میں نے اوپر ”بیش تر“ اس لیے کہا ہے کہ مجھے آپ کی ساری باتوں سے اتفاق نہیں ہے۔ ان دو باتوں میں کہ” مغرب میں ناول اور اَفسانے کے درمیان تیکنیک کے فرق کی وضاحت تو ہوتی رہی مگر انکو الگ الگ صنفی منصب کا درجہ نہیں دیا گیا “ اور ”جب کہ اُردو فکشن کے مجموعی تجربے کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو جو منظر نامہ بنتا ہے اس میں اَفسانہ ہویا ناول فی الاصل اَفسانے ہی کی ذیل میں شمار ہوتے ہیں “ میں ایک دھیما سا باہمی اختلاف ہے۔ ممکن ہے نہ ہو، لیکن مجھے یہ اس لیے محسوس ہورہاہے کہ ایک طرف تومغرب میں” الگ الگ صنفی منصب“ نہ ملنے کا ذکر ہے اور دوسری طرف اردو کے فکشنی منظر نامے میں ”افسانہ“ اور ”ناول“ دونوں ہی ”افسانے کی ذیل میں شمارہوتے ہیں“کا۔میرا خیال ہے ان بیانات کی روشنی میں ہمیں سب سے پہلے یہ تعین کرنا ہوگا کہ اردو میں ”افسانے“ کی صنف کا مابہ الامتیاز کیا ہے اور ”ناول“ کی صنف کا کیا، تاکہ واضح ہوسکے کہ اردو ”ناول“ کو”فی الاصل“ اردو ”افسانے کی ذیل“ میں کیوں اور کیسے شمار کیا جائے۔ ایک ضمنی سی چیز یہ بھی ہے کہ جب دو اصناف کی تیکنیک کے فرق کو ظاہر کردیا گیا اور یہ تسلیم کرلیا گیا کہ یہ دونوں ہی ایک تصور کی زائیدہ ہیں جسے ”فکشن“ کہا جاتا ہے، تو پھر ”الگ الگ صنفی منصب“ ملنے سے کیا مراد لیا جاسکتا ہے؟ خیر یہ تو ہے سو ہے، لیکن آپ کی باتوں پر یقیناً غل نہیں مچنا چاہیے۔اگر اس قسم کی ادبی دھینگا مشتی ہوتی رہے تو لوگ عادی ہوجائیں گے کہ ایسے مباحث سے فکر کو نئی راہیں سوجھتی ہیں اور بعض نیم روشن گوشے زیادہ روشن ہوجاتے ہیں۔ ٭رہ گیا تمہارا یہ خیال کہ ہماری آپس کی خط بازی کی کوئی ادبی حیثیت ہوگئی ہے؛ تو پیارے یقین جانو میں نے یا تو اپنے جی کا بخار نکالا ہے یا پھر ادب کے ایک ادنی طالب علم کی حیثیت سے تخلیقی بھیدوں کے بھنور وںکو سمجھنے کی کوشش کی ہے ۔ ہاں اگر یہ خطوط یوسا کی اُٹھائی ہوئی بحث کو آگے بڑھانے کا سبب بنیں توان کے چھپنے میں کوئی مضائقہ نہ ہوگا۔ ممکن ہے کوئی ”صاحب ایمان “ پھڑک کر قلم اُٹھالے اورجو میں نے کہا اس کا تیا پانچا کرکے نئے نئے نکتے اُجالتا چلاجائے ۔ آہا مزا ہی تو آجائے گا۔ تو یوں ہے کہ میں انہیں ایک نظر دیکھ لوں گا اورتم بھی دیکھ لو، تاہم مناسب یہ رہے گا کہ یہ جیسے ہیں ویسے ہی رہیں اور تمہارے خطو ط بھی ساتھ ہی چھپیں اسی ترتیب سے جس میں ان کا تبادلہ ہوتا رہا۔ ان خطوط کی ”شانِ نزول“ کے بارے میں ابتدائی تعارفی پیراگراف تمہیں لکھنا ہوگا جس میں یوسا کا تعارف بنیادی حوالہ ہونا چاہیے ۔ میرا خیال ہے یوسا کے خطوط” سمبل“ کوچھاپنے دیں اور ہو سکے تو ”دنیا زاد “(یا کسی دوسرے )کوہمارا مکالمہ چھاپنے کی طرف راغب کریں تاکہ ذرا مختلف سرکل میں اس بحث کو پھیلایا جاسکے۔ یوسا کے نئے خطوط مل گئے ہیں ۔ مجھے کچھ وقت درکار ہوگا کہ توجہ سے پڑھ سکوں تاہم میں اس کا نام ”ماریو ورگس یوسا“ پڑھ کر چونک گیا ہوں پہلے تم ”ورگس “ کی جگہ ”برگس“ لکھتے رہے ہو۔ کیا یہ مناسب نہیں ہوگا کہ یہ برگس ہی رہے؟ اور ہاں فائل کا نام Llosa رکھا ہے تو بھئی کیا اسی کو تم نے اردو میں منقلب کرتے ہوئے یوسا لکھا؟اس بابت بھی تو کچھ لکھو ۔


اجازت دو۔


محبت کے ساتھ


محمد حمید شاہد


اسلام آباد : ۶ مئی‘۸۰۰۲

راوی‘ کردار اور مکان:9


راوی‘ کردار اور مکان

محمد حمید شاہد

پیارے عمر میمن
:آداب
گذشتہ خط میں راوی‘کرداراور مکان کی بات ہو رہی تھی اور یوسا نے راوی کی جو تین قسمیں بتائی تھیں ان کو سامنے رکھ کر لگ بھگ ہم متفق ہو چلے تھے کہ راوی کہانی کے اندر کا کوئی کردارہوسکتا ہے اور دوسرے کرداروں کے ساتھ مل کر اپنے لیے جگہ اور جواز بناتا ہے۔ وہ راوی جوکہانی میں بہ ظاہرکہیں نہیں ہوتا مگر ہرکہیں ہوتا ہے، وہ کہانی میں خدائی آنکھ لے کر آتا ہے ،ہر رخ سے دیکھتے ہوئے مگر خدا کے لہجے میں بولتا نہیں ہے۔ تیسری قسم کے مطابق راوی اپنے تئیں قاری کو غچہ دے سکتا تھا،کبھی اندر ،کبھی باہر، کبھی یہاں کبھی وہاں۔ اسے راوی نہ کہیں چھلاوا کہہ لیں مگر اسی سے کہانی کا مکان اور رفتا ربدلتی ہے۔ میں نے لگ بھگ یوسا کی بات کی تلخیص کر دی۔ کہنا مجھے یہ تھا کہ ان ساری صورتوں میں کہانی کے اندر کرداروں کا دائرہ کار متعین اورمرتب ہوتا ہے ۔ کردار چاہے کتنے ہی خیالی کیوں نہ ہوں اپنے وجود کو ساتھ لے کر کہانی میں وارد ہوتے ہیں لہذا وہ علاقہ جہاں کرداروں کی چلت پھرت ہوتی ہے، وہ نمایاں ہوتا چلا جاتا ہے ۔ اگر تم میری بات کے ساتھ ساتھ چل رہے ہو تو جان گئے ہو گے کہ یہی راوی بڑی حد تک نہ صرف کہانی کی ساخت بنا دیتا ہے،‘مکانی تعیین بھی کردیتا ہے۔ پیارے یہ بھی کوئی نئی بات نہ ہوئی، تاہم میں تمہیں جس بات کی طرف گھیر گھار کر لانا چاہتا ہوںاس کے لیے ماحول بن چکا ہے۔دیکھو، مکان کے ساتھ زندگی کی مہملیت جڑی ہوئی ہے ۔ گویا جہاں ہم ہیں ہمارا راوی ہے اور ہمارے کردار کی چلت پھرت ہے، اس مکان سے مہملیت کو نکالا نہیں جاسکتا ہے۔ اب لکھنے والا، اپنے راوی کو کس حد تک اس کی اجازت دیتا ہے کہ مہملیت سے معاملہ کرے اور کہانی کو ”صراط مستقیم“ پر چلانے کی بہ جائے اس میں اسی مہملیت کے سہارے شاخ تازہ کی سی لچک پیدا کرلے یا یوں کہہ لو کہ نیک آدمی کو وہ تھوڑا سا گناہ جو‘ بہت زیادہ لذت دیتا ہے، اس کی گنجائش پیدا کرے۔ خیر اس معاملے میں لکھنے والے کا حددرجہ کایاں ہونا بہت ضروری ہے۔ بھئی یہاں تو کوّے کا دماغ چاہیے کہ ادھر آئے ،مطلب کی چیز اُچک،اپنے منظر نامے میں اُتر گئے۔( ویسے آپس کی بات ہے کوا بہت سیانا ہوجائے تو گو کھاتا ہے۔ میں اس سیان پنے کو ایسی معصومیت کے تابع رکھنا چاہوں گاجو معصیت کو بھی ادائے دل رُبا بنا دیا کرتی ہے) ۔ یوں (یہی مہملیت جو انسانی زندگی کا بھی ایک لازمی عنصر ہوتی ہے) کہانی کو گمراہ نہیں کرتی اسے گداز بنا دیتی ہے۔ اب تم کہو گے کہ معنویت اور مہملیت دونوں ساتھ ساتھ کیسے چل رہے ہوتے ہیں؟ لوجی ان کے بیچ تو اینٹ کتّے کا بیر ہے؟ تو یوں ہے پیارے کہ دن کی روشنی اور رات کی تاریکی دونوں سے مل کر ہماری زندگی کی کہانی معتبر ہوتی ہے ۔ حالاں کہ ایک کی آمد دوسری کی رخصت کا اعلامیہ ہے ۔ ہم اس پرقادر نہیں ہیں کہ وقت کے اس دورانیہ کو،کہ جس میں ہم ایک متحرک مکان میں رہتے ہوئے بھی اپنے حواس معطل کرکے ساکت ہو جاتے ہیں، زندگی سے کاٹ پھینکیں۔ اگر ہم یہ نہیں کرسکتے تو دوسری طرف ہم یہ بھی تو نہیں چاہتے کہ مہملیت کے پنگھوڑے میں ہمیشہ پڑے رہیں ۔ حتی کہ ہمیں یہ بھی گوارا نہ ہوگا کہ مہملیت کا عرصہ،عین مین اپنی حقیقی مقدار میں لے لیا جائے۔ پلٹ کر دیکھیں تو اس کا بہت کم حصہ ہمارے شعور سے لاشعور میں منتقل ہوتا ہے۔ بس اتنا ہی مکان پر زندہ رہ جاتا ہے۔ میں تو کہوں گا آٹے میں نمک جتنا؛ تم چاہو تو اس کی مقدار کو حسب ذائقہ (حسب توفیق)کم زیادہ کر سکتے ہو۔ زندگی کی معنویت، لغویت اور مہملیت مل کر کہانی کے کرداروں کی رفتار متعین کرتی ہیں۔ ممکن ہے، جن معاملات میںمیں اُلجھ گیا ہوں آگے چل کر یوسا نے ان پر بات کی ہو ۔ خیر یہیں مجھے التباسیت اور سرابیت کا ذکر بھی کردینا ہوگاکہ بعد میں معلوم نہیں اِس کا محل نکلتا ہے یا نہیں۔ کہنا یہ ہے جا ن من کہ ہم اپنے راوی اورکرداروں کے ساتھ illusion اورdisillusionکی آنکھ مچولی کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ التباس کا عمل کبھی توزندگی کی معنویت سے جڑجاتا ہے اور کبھی اس کی لغویت یا مہملیت سے ۔ معاملہ الٹا کر فریب نظر کے ٹوٹنے کو بھی انہی دو صورتوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ بھئی غالب بھی کیا کمال آدمی ہے، مجھے مشکل میں دیکھتے ہی میری مدد کو لپک آیا ہے:
جب تجھ بن نہیں کوئی موجودپھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
کہانی کے خدا کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے وہ اپنی کائنات میں ظاہر ہوجائے تو کائنات منہا ہو جاتی ہے، سارا ہنگامہ دھوکا نکلتا ہے، سب کچھ مہمل ہو جاتا ہے اور وہ اپنا خدائی کردار کہانی کے کرداروں کے بھیتر میں اتار کر الگ ہوجائے تو اس کا اپنا وجود التباس ہو جاتا ہے ۔ یہی التباس اس حقیقی زندگی کے حوالے سے بھی قائم ہوتا ہے جو پڑھنے والا کہانی کے اندر سے پھوٹتی ہوئی محسوس کرتا ہے۔ اب تم ہی کہو کہ جب ہم راوی، کردار اور مکان کی بات کریں گے تو پیارے، ان امور سے خود کو کیسے الگ رکھ پائیں گے ؟ اب تک کی گفتگو سے تم قیافہ لگا چکے ہوگے کہ میں جس راوی کی بات کر رہاہوں وہ تخلیق کار نہیں ہوتا مگر اُس سے جدا بھی نہیں ہوتا۔ اگر اس بنیادی نکتہ اور اس کی تمام نزاکتوں کی تفہیم کر لی جائے تو کردار وں کی تشکیل کے وقت ان کی آزادی اور خود مختاری یقینی ہو جائے گی۔ بیانیہ کے اندر کرداروں کو اس راوی کے زیر اثر کرلینا جو تخلیق کار کے سائے میں چل رہا ہو ان کی فطری نمود اور بالیدگی میں مزاحم ہو جاتا ہے۔ جس طرح ہر انسان کے اندر بڑھنے اور پھلنے پھولنے کی خواہش ہوتی ہے اور یہ خواہش ایک دائرے سے دوسرے مگر قدرے وسیع دائرے کی سمت مسلسل لپک کی صورت ظاہر ہوتی رہتی ہے ۔ راوی کے دائرہ عمل سے کرداروں کا باہر کی جانب زور کرنا بھی اسی زمرہ میں آتا ہے۔ یوں وہ کردار کہانی کے اندر ارتقائی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے تیار ہو جایاکرتے ہےں۔ اب تم کہو گے کہ لکھنے والا بہر حال انسان ہوتا ہے، سوچنے والا، سمجھنے الجھنے اور طیش میں آنے والا۔ وہ کسی سے نفرت کرتا ہے اور کسی سے محبت ۔ اسی کی وساطت سے وہ اپنے تعصبات اپنے راوی اور کرداروں کو منتقل کرنے سے کیسے باز رہ سکتا ہے ؟ یقینا نہیں،مگر وہ جو یو سا نے کہا ہے کہ اسے تشریحی راے زنی، ترجمانی، اور فیصلہ دہی سے اجتناب کرنا ہوگا تو اس پر دھیان دینا ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں، ایک عام لکھنے والے میں اور فکشن نگار میں بنیادی فرق ہی یہی ہوتا ہے۔ اوّل الذکر کا سارا زور اس پر ہوتا ہے کہ اسے جو لکھنا ہے وہ لکھتا چلا جائے جب کہ فکشن نگار کو خبر ہوجاتی ہے کہ اس لکھنے کی جھونک میں جو نہیں لکھنا تھا وہ نوک قلم پر آیا چاہتا ہے،لہذا وہ اسے روک دیتا ہے۔ اسے روک دینا ہوتا ہے کہ بہر حال اسے اپنے کرداروں کی آزادی عزیز ہوتی ہے اور اس مکان کی حرمت بھی جس میں اس کے کردار موجود ہوتے ہیں۔ کردار سازی کا قضیہ یہیں تمام نہیں ہوجاتا ،تخلیق کار کا اپنا اسلوب حیات جس تخلیقی ساخت سے قریب ہوتا ہے اسی وضع کے کردار بنے چلے جاتے ہیں۔ وہ فکشن نگار جو زندگی کو جزیات کے ساتھ دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں اور بغیر کوئی اکھاڑ پچھاڑ کیے، بیانہ لکھنے کی طرف راغب رہتے ہیں، ان کے کرداروں کا مزاج، اُن تخلیق کاروں سے مختلف ہو جاتا ہے جوراست بیانیے کوذرا سا الٹ پلٹ کر جدید حسیات کے لیے گنجائشیں نکال لیا کرتے ہیں۔ اجتماعی زندگی کی علامت بننے والے کرداروں کی دھج، وجودیت کے مظہر کرداروں سے جدا ہوتی ہے ؛بالکل اسی طرح‘ جس طرح زندگی کہ باطنی جہات سے جڑ نے والا تخلیق کار،مظاہر فطرت کو چوپٹ آنکھ سے دیکھنے والے تخلیق کار کی طرح کردار سازی نہیں کرتا اور نہ ہی کرسکتا ہے۔ یہ بات بھی ایک بار پھر دہرا دینے کے لائق ہے کہ کرداروں کا منصب محض حقیقی زندگی(اگر کوئی ہے ؟)(ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے:غالب) کی نمائندگی نہیں ہوتا بل کہ انہیں تو ایسی حقیقت کا مظہر ہوجانا ہوتا ہے جو تجربے میں آنے والی زندگی سے کہیں وسیع اوربسااوقات لامحدود ہوجاتی ہے۔ اجی میں بھی کن اُلجھنوں کا اسیر ہواکہ مجھے تو یوسا کے زمان والے خط کے حوالے سے بات کرنا تھی۔ بھئی اگلے خط میں اپنے آپ کو اسی تک محددد رکھنے کی کوشش کروں گا۔ امید کہ تم بہت مزے میں ہوگے ۔

محبت کے ساتھ

محمد حمید شاہد

اسلام آباد: ۶ مئی ‘۸۰۰۲

10:ایک ڈیڑھ بات زمان کے باب میں


ایک ڈیڑھ بات زمان کے باب میں

محمد حمید شاہد

پیارے عمر میمن
:آداب
میں نے تم سے وعدہ نہ کر رکھا ہوتا کہ اس بار یوسا کے ”زمان“ والے خط پر بات کروں گا،اب تک فکشن کے ان ہی مباحث میں الجھا ہوتا جویوسا نے گزشتہ خطوط میں اُٹھائے تھے کہ میںاُن سے سرسری گزرتا آگے نکل آیاتھا۔ خیر اَب کیا ہو سکتا ہے کہ وعدہ بھی تو میں نے کیا تھا‘آئی موج فقیر کی،دِی اَپنی جھونپڑی پھونک۔ سو وعدہ نبھاتا ہوں ۔ زمان کا معاملہ یہ ہے پیارے کہ یہ شروع ہی سے مکان کے ساتھ پیوست رہا ہے۔ کہتے ہیں ۰ ۵۹۱میں فریڈ ہال نے جو Steady State Universe( یعنی ٹھہری ہوئی کائنات والا) نظریہ گھڑا تھا تو اُسے خوب پذیرائی ملی۔ جارج گا موو (George Gamove)نے Big Bang کا شوشا چھوڑاتو سب اُسے چھوڑ،اس کے پیچھے ہو لیے اور ابھی تک اس نظریے کا خوب ڈھنڈوراپٹ رہا ہے ۔ مجھ بے علم صیرفی کو دیکھو کہ ایک کو”گھڑت“ کہہ گیا، دوسرے کو” شوشا“اور دونوں کوگُھورے پر ڈالنے کو کمر بستہ ہوں ۔ بھئی گراں خاطر نہ ہوتومیں اس پر اٹکا ہوا ہوں کہ ان دونوں کی اوقات محض مفروضوں سے نہ پہلے کچھ زیادہ تھی، نہ اَب ہے۔ سائنسی تجربات/مشاہدات کاالمیہ یہ ہے کہ یہ بہ ہر حال ناقص /نامکمل ہوتے ہیں۔ یہی سبب ہے ان میں سے ایک نظریہ کب کا مسترد ہوچکا اوردوسرے کو جلد یا بہ دیر اسی انجام سے دوچار ہونا ہے۔ لگ بھگ چالیس سال پہلے تک ہمیں یہی بتایا جاتا رہا کہ کائنات ہمیشہ رہے گی۔ اب بتایاجارہاہے کہ جس طرح عظیم دھماکے سے کائنات Nothingness سے وجود میں آئی تھی،اور مسلسل پھیل رہی تھی،سکڑ کر پہلی حالت میںچلی جائے گی؛ پھر ایک دھماکہ ہوگا،اپنے انجام کو پہنچ جائے گی۔ اوہو میں نے درست کہاں کہا، اپنے انجام کو پہنچ کر بھی بالکل ختم نہیں ہوگی، ایک بار پھر کائنات تخلیق ہوگی؛ پہلی سے بھی بڑی ۔ اس میں پہلے والی کا مادہ بھی شامل ہوگااور کچھ مزید Nothingness سے بھی پا لے گی۔ یہ بھی کہاجارہا ہے کہ وہ کائنات ہمیشہ کے لیے ہوگی۔ واہ کیا خوب کہا سائنسی بھائی لوگو، میرا مذہب کے زیر اثر پالا ہوا ذہن فوراً قیامت اور جنت دوزخ کے تصور میں کھو گیا ہے۔ میرے تہذیبی ذہن میں بھی کائناتی چکر بسا ہوا ہے کہ آخر ایک مدت ہندو ازم اور بدھ مت والوں کا ساتھ رہا مگر اس کا کیا کیجیے کہ معروف سائنس دان Hezen Burqنے بھی اپنا ایک نظرےہ پیش کر رکھا ہے،وہی Uncertainity والا مشہورنظریہ جس میں بتایا گیا ہے کہ جدید سائنسی تحقیق اپنے وسیع کائناتی علم کی وجہ سے اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اس کے نتائج عمومی سطح پر تو ٹھیک بیٹھتے ہیں پیچیدہ معاملات میں ہمیشہ ناقص رہ جاتے ہیں یا بعض معاملات میں اِنہیں کچھ سوجھتا ہی نہیں ہے۔ اگرچہ اوپر والی بحث یوسا کی تحریر کا عنوان پڑھتے ہی مجھے اپنی طرف کھینچ لے گئی ہے مگر دیکھو یہ باتیں بالکل غیر متعلق نہیں ہیں۔ تم نے یہ کرنا ہے کہ میںنے جہاں جہاں کائنات کا لفظ استعمال کیاہے،وہاںوہاںاپنے ذہن میںایک مساوات بنا لینی ہے، لو لکھ دیتاہوں: مکان+زمان= کائنات۔ میں ایسا نہیں کرسکتا کہ کائنات جسے اس مساوات میں زمان و مکان کے مساوی دکھایاگیاہے، فی الاصل وہ زمان و مکان کے اندر مقید ہے اورصرف لکھی ہوئی مساوات میں ہی برابر ہوسکتی ہے۔ کہو، اب اگر میں اس تمہید کے بعد یہ کہوں کہ زمان اور مکان کا تناظر بیچ میں لائے بغیر فکشنی واقعے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تو کیاتم یقین کر لو گے؟ بھئی میرا تو اس باب میں پورا ایقان ہے اور طبیعت اس پر بھی ٹھکتی ہے کہ فکشن سے باہر کی زندگی بھی جو ہمارے تجربے میں آکر میلی اور استعمال میں آکر بوسیدہ ہو چکی ہے اس کاکوئی واقعہ اس تناظر سے باہر نہیں ہے۔ مجھے یہ بات کہہ ڈالنے کا یوں حوصلہ ہوا کہ یوسا نے بھی اس باب میں اپنی بات کا آغاز اِسی نکتے سے کیا ہے۔ یعنی اس نے زمانی نقطہ نظر کو مکانی نقطہ نظر سے جوڑ نا ضروری گردانا ہے۔ یوسا نے ایک تسلسل میں بہنے والے وقت کو حقیقی وقت کہاہے اور اسے اُس وقت سے الگ کرکے دِکھانے کی کوشش کی ہے جو بہ قول اس کے فکشنی وقت ہوتا ہے۔ ایسا وقت جس میں خوب اَکھاڑ پچھاڑ ہوتی ہے ۔ ایسی اکھاڑ پچھاڑ جو فن کار کو ایک تسلسل میں چلنے والے وقت سے آزاد کردِیا کرتی ہے۔ آگے چل کر یوسا نے وقت کی اِس تقسیم کو سلسلے وار اور نفسیاتی قرار دیا ۔ ایک جو معروضی وجود رکھتا ہے اور دوسرا جو ہمارے اندر ہی اندر کروٹےں لیتا رہتا ہے ۔ فکشن میں آنے والے وقت کو یوسا نے بجا طور پر اس وقت کے مماثل قرار دیا ہے جس کی چال خوشی، دُکھ اور خوف کے لمحات میں تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ اس ضمن میں ایم بروز بیئرس کی کہانی ”این اَکَرینس اَیٹ آ¶ل کرِیک برج“برمحل ہے ۔ پُل سے پھانسی دیے جانے والے لمحے سے لے کر کہ اس کی گردن کے گرد رسی تنگ ہورہی تھی اوررسی ٹوٹنے سے پہلے تک وقت ایک دھج سے چلتا ہے۔ رسّی ٹوٹنے، دریا میں گرنے، تیر کر کنارے پر پہنچنے سے لے کر گھر میں گھسنے تک وقت کی چال مختلف ہو گئی ہے۔ محبت کرنے والی عورت کی طرف بڑھنے والے لمحات میں یہ پھیلا ہوا وقت پھر سکڑ جاتا ہے اور گردن کے گرد تنگ ہوتی رسّی اس کا دم گھونٹ دیتی ہے۔ گُنتر گراث کی ”دی ٹِن ڈرم“ والی کہانی میں نے پڑھ رکھی ہے۔ یوسا کی بتائی ہوئی عام رفتار اورآسکر کے لیے ناگزیر زوال سے کنّی کترا کر نکل جانے والے وقت کو بھی تم اسی ذیل میں رکھ کر دیکھ سکتے ہو۔اب اگر میں ان مثالوں کو لے کر یہ کہوں کہ اوپر جو یوسا نے وقت کی حقیقی اور نفسیاتی کی تقسیم کی تھی اور فکشن کے وقت کو گھڑا ہوا وقت بتایا تھا تو کیا وہ غیر حقیقی نہیں ہو جاتا ؟ دیکھو جس عمومی وقت کو ہم نے اَپنے خارج سے اُچک،کاٹ پیٹ کر برابر حصوں میں بانٹا اور اس کے سیکنڈ، منٹ، گھنٹے،سال اور صدیاں بنالی ہیں اس کی تصدیق ہمارا باطن نہیں کرتا ہے۔ لہذا مجھے کہنے دو کہ یہی گھڑا ہوا دھوکا ہے۔ اصل وقت تو وہی ہے جو ہر فرد کے اندر اس کے دِل کی دھڑکنوں کے ساتھ چلتا ہے،اُس کی سانسوں میں بسا ہوا ہے یا اُس کے ذہن میں سے ایک کوندے کی طرح سے نکلتا اور سارے زمانوں کو روشن کرتا چلا جاتا ہے ۔ اپنی پہلی بات د ہرانا چاہوں گاکہ فکشن کی حقیقت،عام زندگی کی حقیقت سے کہیں عظمت والی ہوتی ہے۔ تویوں ہے جگرجی، کہ جب یہی عظمت” فکشن کے زمان“ کی دستار کا پنکھ ہو گئی ہے تواسے ٹیڑھے میڑھے ہوکر یوں سمجھنے کے جتن کیوں کیے جائیں جیسے یہ قضیہ بھی ٹیڑھے توے کی روٹی ہو ۔ میں نے جو کہا اور یوسا نے جو کہہ رکھا ہے بظاہر ایک سی باتیں ہیں مگر جب تم اپنے دیکھنے کے زاویے کو بدل لو گے تو تم پر زندگی کے حسن کا ایک اور دریچہ کھل جائے گا ۔ کم از کم میرے ساتھ تو یہی ہوا ہے اور میں جوں جوں اِس راہ پر آگے جاتا ہوں،ایک سے ایک نیا منظر، نظر کے سامنے کھلتا اور روح تک کو سرشار کرتاچلا جاتا ہے؛ بالکل یوں،جیسے کوئی لپٹا ہوا جادوئی قالین آگے ہی آگے کُھلتا چلا جائے ۔ میں نے بورحیس کی کہانی ”دی سِیکریٹ مِرکل“ کو بھی اسی تناظر میں دیکھا ہے۔ فائیرنگ اسکواڈ کے سربراہ کے حکم ”فائیر“ سے لے کر گولیوں کے جسم کو چھلنی کردینے تک، میں اِسی وقت کے تصور کی گرفت میں رہا ہوں، جو فی الاصل ہے؛تب ہی تو فن کار کی گرفت میں آگیا ہے۔ ”ڈائنا سور“ اور وقت کو جوڑ کر یہ جو یوسا نے ماضی،حال اور مستقبل کے صیغے استعمال کیے ہیں، کہانی میں آکر اپنی حیثیت کس سہولت سے بدل لیا کرتے ہیں تم اِس سے خوب آگاہ ہوگے۔ بس یوں ہے کہ فکشن کا جملہ لکھنے کی اِبتدائی تربیت کے باب میں یہ باتیں بہت اہم سہی مگر جو بھی لکھنے والا کہانی سے اس کی گییا(GYA) سے جڑ جاتا ہے اس پر وقت کو سیمابی بنالینالازم ہوجاتا ہے ۔ اور ہاں یہ گییا کا لفظ جو میں یہاں لکھ گیا ہوں اگر تمہیں چونکائے تو لغات میں مت تلاش کرنا کہ یہ مجھے بھی کہیں نہیں ملا ہے۔ کہتے ہیں یہ بھی سائنسی اِصطلاح ہے۔ میں نے کہیں پڑھی تھی؛کہاں؟ اب یاد نہیں،مگر ذہن سے چپکی ہوئی ہے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے،اس کی تشریح میں بتایا گیا تھا کہ ہر شے کا ایک نفس/mind ہوتا ہے جس کی وہ پابند ہوتی ہے۔ تو یوں ہے پیارے کہ کہانی کے اِس نفس سے جڑ کر لکھنے والا اُس اصل وقت کو گرفت میںلے لیتا ہے جس میں تجربے میں آنے والی ترتیب تباہ ہو جاتی ہے اور وجود کے آہنگ اوراور اس کی تاہنگ میں آیا ہوا وقت رواں ہوجاتا ہے۔ یوسا کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ مثالیں چن چن کر لاتا ہے؛ اگر توقاری نے فکشن کی اِن مثالوں کو پہلے سے پڑھ رکھا ہوتو سارا فن پارہ اپنی جزیات سمیت دمکنے لگتا ہے اور اگر نظر سے نہ گزری ہوں تو بھی اُس کا مدعا واضح ہو جاتا ہے ۔”بستہ وقت “، ”گاڑھا وقت“، ” زندہ وقت“، ”مردہ وقت “، ”عبوری وقت “،وغیرہ والی اصطلاحات کے تراجم خوب رہے۔ اس تقسیم کو پڑھتے ہی فوراً دِھیان اپنے ہاں کی موسیقی کے/ کی مختلف راگ/ راگنیوں کی طرف چلا گیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اِن کی اَپنی بھی ایک کہانی ہے ۔ ہم نے مشرقی موسیقی کے اس نظام سے بہت اثر قبول کیا ہے اور نتیجہ یہ نکلا کہ جاری وقت کے حوالے سے بھی ہماری حسیں کچھ فیصلے دِے دِیا کرتی ہیں ۔ آخر یہ جو ایمن، بھوپالی،ہمیر،کامود،شام کلیان،شدہ کلیان کے گانے کا وقت رات کا پہلا پہر ہے تواس کا بھی کوئی مطلب ہوگا۔ میاں کی ٹوڈی،گوجری ٹوڈی، سوہاکو آخر دن کے دوسرے پہر میں، جب کہ باگیشری کورات کے دوسرے پہر میںہی کیوں گایا جانا چاہیے؟ بات ان تہذیبی یا ثقافتی مظاہر تک آکررُک نہیں جاتی، ہم دعاﺅں اور عبادتوں کے لیے بھی اوقات کا لحاظ رکھتے ہیں۔ جادو ٹونا کرنا ہو یا تعویذ دھاگہ ہرکہیں وقت دھیان میں رہتا ہے ۔ دِھیان میں رہنے والا یہ وقت کہانی لکھتے ہوئے ہماری نفسیات پر غالب رہتا ہے لہذا اِسے بھی نفسیاتی تقسیم کی ذیل میں رکھنا ہوگا۔ ایک اورپُرلطف حوالہ تو میں بھولے جا رہا ہوں اور وہ ہے تصوف کا۔ اردو کہانی کا صوفی ٹائم مشین والے سائنس دان سے کہیں بہتر طریقے سے ایک وقت سے دوسرے وقت میں منتقل ہو سکتا ہے۔ اور اسے اردو فکشن میں موضوع بناکر قابل اِعتنا کہانیاں لکھی گئی ہیں۔ میمن جی،کیا مناسب نہ ہوگا کہ” خصوصی نقطے“ کو” خاص یا مرکزی نقطے“ سے بدل لیا جائے۔ خیر،” خصوصی“ میں بھی کوئی برائی نہیں ہے؛ مجھے بدل لینے سے ادائی میں سہولت ہو رہی تھی،اس لیے تجویز دے دی۔ میں ان ”خاص نقاط“ کو” ثقلی نقاط“ بھی کہہ سکتا ہوں کہ انہیں پر کہانی کا سارا بوجھ لدا ہوتا ہے۔ اور آخر میںمجھے بھی یوسا کی طرح کہہ لینے دو کہ تم نے مجھے رواں کردیا ہے۔ اگلی بار حقیقت کی سطحیں زیر بحث آئیں گی۔ یہ بھی میرا پسندیدہ موضوع ہے ۔ دیکھتے ہیں اس باب میں یوسا کا کہناکیا ہے؟


محبت کے ساتھ


_محمد حمید شاہد


اسلام آباد: ۷ مئی۸۰۰۲