Thursday, February 19, 2009

محمد عمر میمن

برادرم:حمید شاہد

السلام علیکم۔

صبح آپ کا ای میل ملا۔ آپ کی سبھی باتوں سے مجھے اتفاق ہے۔ واقعی، یوسا کے خطوط کے حوالے سے اب ہمارے کرنے کے لیے کچھ باقی نہیں رہا۔ مزید گفت گو صرف اسی وقت ہو سکتی ہے جب دوسرے اس سلسلے میں بحث کو آگے بڑھائیں۔ سو اب ہمیں اس ضمن میں لمبی تان کر سوجانا چاہیے۔ یہ تو ٹھیک ہے کہ سبھی باتوں سے اتفاق صرف ایک دنیا شناس اور ابن الوقت ہی کرسکتا ہے، سو یہاں مجھ پر یہ پابندی ضرورتاً عائد ہوجاتی ہے کہ یا تو خود کو ایسی ہی کوئی شے تصور کرلوں یا پھر اگر ایسی چیز تصور نہیں کرتا تواس سامنے کے پیراڈاکس کی وضاحت کروں۔ آپ نے فاروقی اور وارث علوی صاحبان کے بارے میں جو لکھا ہے تقریباً وہی میرے خیالات بھی ہیں۔ بل کہ اسے تو میں ایک کلیہ سمجھتا ہوں اور یہی بات سبھوں کے بارے میں کہی جاسکتی ہے۔ آپ کو اگر میری بات کو ماننے میں تامل ہو تو میرا ایک پرانا افسانہ پڑھ لیجیے : ”کولاژ، مونتاژ، اسمبلاژ، سبوتاژ“ (”آج،“ مارچ ۰۹۹۱)۔یہی نہیں، فاروقی صاحب کی بہت سی باتیں میری فہم سے باہر ہیں۔مثلاً جس طرح انھوں نے بعض جدیدیوں کو آسمان پر چڑھایا تھا، ہر لونڈے نتھو خیرے کی پیٹھ ٹھونکی تھی، اور نیر مسعود کے فن کی بارے میں ان کی عجیب و غریب خاموشی۔ یہ سب اپنی جگہ، لیکن میں ان تحریروں کو ان کا اصلی کارنامہ نہیں سمجھتا ہوں۔ دیانت داری کا تقاضا یہ ہے کہ کسی کو اس کی کم زور یا زمانہ ساز تنقید کے حوالے سے نہ جانچا جائے بل کہ اس کی جان دار اور مضبوط تنقید کی بنیاد پر۔ فاروقی صاحب کا اصل کام کلاسیکی ادب سے متعلق ہے۔ان کی میر اور داستان پر کتابیں ، یا وہ مضامین جو ان کی ”شعر، غیر شعر “والی کتاب میں شامل ہیں۔ وہ زندوں سے ذرا کم ہی معاملہ کرسکے ہیں۔ نہ میرا مطلب یہ تھا کہ وارث کا لکھا ہوا ہر مضمون کنڈم ہے۔(ویسے تو مجھے وارث کی تحریر کے ڈھیلے پن کا (خیالات کا نہیں)تھوڑا بہت اندازہ بہت پہلے ہی ہوگیا تھا، لیکن اس کا واقعی اندازہ اس کے ایک مضمون کا انگریزی میں ترجمہ کرتے وقت ہوا ۔ یہ گجرات کے فسادات پر اس کا ایک پرانا اور میرا پسندیدہ مضمون ہے۔ میں ان دونوں میں سے کسی کے محتویات اور مشمولاتِ تنقید کی بات نہیں کررہا تھا، بل کہ لکھنے کے سلیقے کی، لکھائی کے مظروف کی نہیں۔ جب میں نے فاروقی صاحب کے یہاں منطقی انسجام کے بہ درجہ اتم پائے جانے کا ذکر کیا تھا تو اس سے میری مراد یہ نہیں تھی کہ ان کا لکھا ہوا سب کچھ درست ہے اور مجھے قبول ہے۔ ( اور ہو بھی کیسے سکتا تھا۔آپ نے نہیں دیکھا کہ میں نے ہمارے مکالمے کے ابتدائیے میں کیا لکھا ہے؟: ”ہمارے لکھنے اور پڑھنے والوں کو شاہد صاحب سے کچھ سیکھنا چاہیے: بے سوچے سمجھے تقلید سے دور رہیں۔ فکشن نویسوں کے سارے پہلو مثبت ہی نہیں ہوتے۔یوسا کی بیش تر باتوں سے اتفاق کے باوجود کئی باتوں سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے۔( بہ قول شاہد صاحب : ’یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ زبان ہر حال میں یوسا کے نام کا شیرہ چاٹتی رہے۔‘اور ان کا یہ اختلاف کوئی چلتی پھرتی چیز نہیں۔“) ممکن ہے میری رائے صائب نہ ہو، لیکن وارث علوی کے خیالات کی ندرت اپنے اظہار کے شکوہ اور اپنی لسانی نمائش اور آتش بازی کے ہجوم میں خیال اور تاثر کو کسی نکتے پرشدت اور ناگزیریت کے ساتھ مرتکز نہیں ہونے دیتی۔ سو میں صرف دونوں کے اندازِ تحریر اور خیالات کی پیشکش میں منطقی انسجام کی بات کررہا تھا۔ ظاہر ہے منطق خود کوئی الوہی سچائی نہیں جو اپنے میں اظہر من الشمس ہو اور کسی ثبوت سے مستغنی۔ منطق صرف ایک محدود دائرے میں کام کرتی ہے۔( عین القضات یاد ہوگا؟ عقل خود نارسا ہے تاہم غیر اہم نہیں ۔) اس کی بنیاد axioms (اصول ہاے موضوعہ) پرہوتی ہے جن کے جھوٹ سچ کا ہم کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکتے۔ سو اگر ہمیں اس سے کام لینا ہے (کیوں کہ یہ بعض حالات اور دائروں میں بے حد مفید ہوتی ہے) تو ہمیں ان مفروضوں کو سچ سمجھنا ہی پڑے گا، ورنہ منطق دو قدم نہیں چلنے کی۔ مجھے آپ کے خطوط میں بڑے نادر خیالات نظر آئے لیکن کسی قدر بکھری حالت میں (اور مراسلت کی غیر رسمی فضا میں یہ کوئی عیب بھی نہیں) سو میرا جی چاہا کہ آپ انھیں رسمی طور منضبط کرکے مضمون کی شکل میںلکھ دیں۔ اس لیے میں نے منطقی انسجام کی بات کی تھی اور چوں کہ یہ مجھے فاروقی صاحب کے یہاں نظر آتا ہے، میں نے ان کی مثال دے دی۔ ظاہر ہے میں اپنے مافی الضمیر کوسلیقے سے ظاہر نہ کرسکا، جس کا مجھے افسوس ہے۔ لیکن اب آپ کو میری اس کم زوری سے آگاہ ہوجانا چاہیے۔ اکثر میں اپنے محدودلسانی وسائل کے باعث اپنی بات قرینے سے کہہ نہیں پاتا ہوں۔

والسلام

آپ کا

__محمد عمر میمن

میڈیسن‘امریکا:۰ ۳ اگست ۲۰۰۸
///

No comments:

Post a Comment