Friday, February 20, 2009

محمد حمید شاہد

پیارے عمر میمن
آداب
میں نے سوچا تھا کہ کل اتوار ہے‘ چھٹی والادن۔ سکون سے یوسا کا پانچواں خط پڑھوں گا مگر مجھے چین کہاں آسکتا تھا؟۔ سو کمپیوٹر کھول کر بیٹھ گیا ہوں ۔ جس کمرے میں، میں سوتا ہوں وہیں ایک طرف میز کرسی لگا کر میں نے لکھنے پڑھنے کی جگہ بنا لی ہے ۔ دوپہرآ فس سے واپس آکر جوں ہی میں نے کمپیوٹر آن کیا،میری بیوی، جواس وقت آرام کرنے کی عادی ہے، چڑ گئی۔ یہ بھی کیا دیوانگی ہے کہ دفتر سے گھر آتے ہی میں نے عین اس کے سرہانے دفتر لگا لیا ہے ۔ تو یوں ہے بھائی کہ یوسا کے خطوط نے واقعی مجھے اپنی گرفت میں لے کر دیوانہ بنا لیاہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ فکشن کے مبادی مباحث اور تخلیقی عمل کے اسرار جیسے موضوعات مجھے مسلسل گھیرے ہوئے ہیں ۔ اور یوسا کی طرف دیوانوں کی طرح لپکنا بھی شاید اسی وجہ سے ہوگا۔ یوسانے پانچویں خط میں راوی کی اقسام گنوائی ہیں اور ان پر بحث کی ہے جو اپنی جگہ بہت دِل چسپ ہےں۔ یوسا کی یہ بات مانتا ہوں کہ کہانی بیان کرنے والی ذات کو مصنف سے خلط ملط نہیں کرنا چاہیے تاہم میں اس کی اس بات کو مان لینے میں تامل محسوس کر رہا ہوں کہ کہانی کا راوی لفظوں کا بنا ہوا ہوتا ہے ،گوشت اور خو ن سے بنے ہوئے آدمی جیسا نہیں ہوتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ لکھنے والا جب تک اپنے کردار کے استخوانی ڈھانچے پر گوشت مڑھ کر اس کے سینے میں دل، رگوں میں لہو اور پھیپھڑوں میں سانسیں اور بدن میں روح نہیں بسا لیتا، اس وقت تک اس کا کردار محض لفظوں کا بنا ہوا آدمی ہی رہتا ہے، یوں جیسے لفظ اور تخیل لوہے کے ہوتے تو آدمی اور کہانی روبوٹ بن چکے ہوتے۔ ہاں،یہ بات ماننے کی ہے کہ کہانی کا راوی کہانی کی حدیں پار نہیں کرتا ۔ کہانی کا مصنف بھی حد پار کرے توسنگسار ہوجاتا ہے ۔ بے شک مصنف کی اپنی زندگی بہت پُرمایہ اوربھرپور ہوتی ہوگی مگر جب وہ کہانی کے مقابل ہوتا ہے تو سچ جانو کہ وہ بہت سکڑ جاتا ہے اور کہانی کا راوی اس کو زیر کر لیا کرتا ہے۔ راوی کا فکشنی وجود اگر ساختہ لگنے لگے تو اسے مصنف کی ناکامی سمجھنا چاہیے ۔ میں اس راوی کو مانتا ہوں جو یوسا کے مطابق، تمام دوسرے کرداروں کی کہانیاںبیان کرتاہے،یوں کہ جسے ظاہر کرنا ہوتا ہے اسے ظاہر کرتا ہے اور جسے چھپانایا لٹکائے رکھنا ہوتا ہے،اُدھر دیکھتا بھی نہیں ۔ بیان ہونے والے کرداروں کو باتونی ہونا ہے یا کم آمیز ، چنچل ہونا ہے یا سنجیدہ یہی راوی سکھاتا ہے ؛بالکل اس انسان کی طرح جس کا شعور اپنی نابالغ اولاد کو سکھانے کے معاملے میں پوری طرح چوکس ہوتاہے،تاہم ایک بار کردار بن جائے تو وہ خودسر ہو جایا کرتا ہے ۔ بالغ بچوں کی طرح ان کی اپنی شخصیت،اپناڈھنگ اور اپنا چلن ہوتا ہے ۔ اگر ایسا نہ ہو پائے تو یقین جانو راوی طاق پر بیٹھے اس اُلو جیسا ہو جاتا ہے،جو بھر بھر چلو مانگتا ہے۔ کہانی کون بیان کرے گا؟ اس کے لیے تین میںسے ایک کا انتخاب کیا جاتا ہے اس باب میں یوسا کی نشان دہی کتنی خوب ہے:راوی-کردار،ہمہ دان راوی،اورمبہم راوی ( گول مول پڑھ کر ہنسی چھوٹ جاتی ہے؛ ہو سکے تو اسے بدل لو۔) کاش، یوسا کی ان باتوں کو کوئی ناقد آگے بڑھائے اور اردو والوں کو بھی ایسے مباحث کی طرف راغب کرے۔ تمہارے تراجم نے اگر کسی کو اس طرف مائل کر دیا، توسمجھو تمہاری اس کاوش کاحق ادا ہوا ۔ بھئی مجھے تو اپنا گھائل ہی جانو۔ کاش میں اس خط کے سارے نکات کا احاطہ کر سکتا ۔ بیگم اُکتا کر پہلو بدل رہی ہے ،میرا دھیان مسلسل اُدھر رہا ہے اور اب یوں لگنے لگا ہے کہ میں زیادتی کا مرتکب ہو رہاہوں ۔ لو اجازت دو۔ تاہم بتاتا چلوں کہ اس خط کی تمام دیگر باتیںمجھے برحق لگیں اور تمہارا ترجمہ بھی خوب رہا ہے۔


محبت کے ساتھ


محمد حمید شاہد


اسلام آباد : ۳ مئی ۸۰۰۲

No comments:

Post a Comment