Saturday, February 21, 2009

محمد عمر میمن

یوسانے اپنی کتاب ”نوجوان ناول نگار کے نام خطوط“میںفکشن کی فنّی عملیات سے بحث کی ہے جس کے ذریعے وہ تخیلی دنیا تخلیق ہوتی ہے جواپنے حسنِ ترغیب (یا قوتِ تاثیر)کے باعث کاملاً غیر حقیقی یا تخیلی ہونے کے باوجود حقیقی دنیا کا التباس پیدا کرتی ہے؟کتاب میں کل بارہ خط شامل ہیں۔ پہلے دو خطوں میں یوسا اپنے نوجوان مخاطب کو ان فنّی لوازمات سے آگاہ کرتا ہے جو اس کی دانست میں کسی اچھے ناول کی اساس ہوتے ہیں۔ تیسرے خط میں وہ ”قوّتِ ترغیب“ سے بحث کرتا ہے،جس پر فکشن کی کام یابی کا دارومدار ہوتا ہے۔ لیکن فکشن کی وہ صلاحیت جو نیرنگِ خیال پر حقیقت کا دھوکا دلاتی ہے، اس کے اجزاے ترکیبی کیا ہیں؟ اگلے آٹھ خطوں میںان اجزا پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ یہ اجزاے ترکیبی یا رموز، علی الترتیب،یہ ہیں: ”اسلوب“، ”راوی اور بیانیہ مکان“، ”زمان یا وقت“، ”حقیقت کی سطحیں“، ”انتقالات اور کیفی زقندیں“، ”چینی ڈبّے یا روسی گڑیاں“، ”پوشیدہ حقیقت“، اور”کم یونی کیٹنگ وَے سِلز“۔ آخری خط ، ”بہ طورِ پس نوشت“، میںیوسا مشورہ دیتا ہے کہ پچھلے سوا سو صفحوں میں جو کچھ کہہ چکا ہے ا سے دریا برد کردیا جائے اور ناول لکھنا شروع کردیا جائے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ تنقید، چاہے کتنی ہی سخت گیر اور وجدانی کیوں نہ ہو، امرِ تخلیق کی مکمل توجیہہ کرنے کی اہل نہیں ہوتی۔ ایک کام یاب فکشن یا نظم میں ہمیشہ ہی ایک عنصریا بُعد ایسا ہوتا ہے جو عقلی تنقیدی تجزیے کی گرفت میں نہیں آسکتا۔ اس کتاب میںمکتبی تنقیدکا جبرنہیں، رسمی زبان کا قبض بھی نہیں، اگر کچھ ہے تو یہ ایک اول درجے کے تخلیقی فن کار کی متانت، اعتماد، اور انساینت ساز انکساری ہے، جو تنقید کا منکر نہیں لیکن جو پاسبانِ عقل کو کبھی کبھی تنہا چھوڑدینے کی دل نواز ضرورت سے بھی آگاہ ہے۔یہ کتاب میں نے دو تین سال پہلے پڑھی تھی اور اسی وقت سے اس کے ترجمے کاخیال رہا تھا، جو اب میں نے کرلیا ہے۔ پوری کتاب جانے کب چھپے، فرشی صاحب نے عنایتاً اسے اپنے ”سمبل“ میں قسط وار چھاپنے کی ابتدا کردی ہے۔ پہلے دو خط وہاں چھپ چکے ہیں۔انھیں پڑھ کر محمد حمید شاہدصاحب کو ان پر کچھ کہنے کی تحریک ہوئی اور انھوں نے فکشن کے بارے میں اپنے خیالات کا نچوڑاپنے خطوط میں پیش کردیا ہے۔ ان خطوں کو پڑھ کر مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ یہ کہیں چھپ جائیں تاکہ یوسا نے جن نکات کا اظہار کیا ہے اور جس طرح شاہد صاحب نے ان پر مزید بحث کی ہے، خاص طورپر اردو کے ہمارے مقامی اور معاصرمنظر نامے کی رعایت سے، اس سے ہمارے اردو داں طبقے کو بھی کچھ فائدہ پہنچے۔ سوان کی اور میری مراسلت حاضر ہے۔ اس مراسلت کو ”مکالمے“ سے زیادہ ایک ”خود کلامیہ“ کہنا چاہیے، کیوں کہ اس میں میرا کردار بس واجبی سا ہے۔ایک تابعِ مہمل کا۔ اس برات کے اصلی دلھا میاں تو شاہد صاحب ہیں، مجھے زیادہ سے زیادہ وہ جسے مغرب میں دلھا کا ”بیسٹ مین“کہا جاتا ہے، بس وہی سمجھا جائے، یا نوشے کا برادرِ خورد جسے بھی، کبھی کبھی، دل رکھنے کی خاطر، گھوڑے پر بٹھا لیا جاتا ہے۔انھیں پڑھ کر میری طرح آپ بھی شاہد صاحب کے ادب سے سنجیدہ لگاو اور تفاعل، غیر معمولی لگن اور اس کے مباحث کی بابت ان کی تیز فہمی کے قائل ہوجائیں گے۔

—محمد عمر میمن میڈیسن‘ امریکا

No comments:

Post a Comment