Thursday, February 19, 2009

محمد عمر میمن

برادرم حمید شاہد
السلام علیکم


۔خاصی طویل خاموشی کے بعد آپ سے مخاطب ہورہا ہوں۔ اس درمیان میں آپ کے خط آتے رہے لیکن انھیں بر وقت پڑھنا بھی ممکن نہ ہوسکا۔ آپ کی مسلسل کرم فرمائی سے اپنی ندامت کا احساس فزوں ہوتا رہا۔ یوں تو میری طبیعت اکثر نرم گرم رہتی ہے کیوں کہ بہت سی بیماریاں زبردستی مہمان بن گئی ہیں لیکن اس بار صورت کچھ مختلف رہی۔ ترکی میں تو وقت کسی نہ کسی طرح ٹھیک گزر گیا اور واپسی پر دو دن تک بھی طبیعت ٹھیک رہی لیکن اس کے بعدسے حالت بہت خراب ہوگئی۔ خیر جراثیم کش دوا کا دو ہفتے کا کورس تجویز ہوا جو ہنوز جاری ہے۔ آپ کو تو پتا ہی ہوگا کہ جراثیم کش دوائیں ایک طرف صحت بہ حال کرتی ہیں تو دوسری طرف آدمی کا پلیتھن نکال دیتی ہیں۔ نقاہت کا یہ عالم ہے کہ پلنگ سے اٹھنے کو دل نہیں چاہتا اور ہر وقت دماغ میں ایک غبار کی سی کیفیت رہتی ہے جس کی وجہ سے کسی چیز پر ارتکاز کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔پیر کے دن پھر ڈاکٹر کے سامنے پیشی ہوگی۔ دیکھیے کیا فرماتے ہیں۔ افاقہ ہے تو سہی لیکن طاقت ہنوز روٹھی ہوئی دلہن کی طرح میکے بیٹھی ہوئی ہے۔اب پتا نہیں آپ کہاں تک اس رام کہانی کو سننے کے لیے بے تاب تھے۔ اگر بہت زیادہ بور ہوگئے ہوں تو یہ سوچ کر درگزر سے کام لیں کہ آپ کے دوست کی وہی حالت ہوگئی ہے جس کا بڑا دل فگار نقشا غالب صاحب پہلے ہی کھینچ گئے ہیں: ” اب عناصر میں اعتدال کہاں“ والا شعر یاد کرلیجیے۔اور بھائی، آپ کبھی یہ خاطر میں نہ لائیں کہ میں آپ کی کسی بات کا برا منا کر اٹواٹی کھٹواٹی لے کر پڑ جاوں گا۔ اوّل تو اس عمر میں یہ بچکانہ حرکتیں زیب نہیں دیتیں(مجھے آپ سے اپنی بات صاف سیدھے طور پر کہہ دینے میں کیا مانع ہے، بس شائستگی شرط ہے)، پھر یہ کہ قرنوں کے بعد آپ ہاتھ آئے ہیں (میرا مطلب ہے دل لگتا ہوا ایک شخص)، میں آپ کو کیسے کھو دوں؟!آپ نے حسبِ معمول یوسا کے آخری خطوط سے متعلق بڑے تفصیلی خط لکھے تھے جو ترکی سے لوٹنے کے بعد میں نے پڑھ تو لیے تھے لیکن جواب لکھنے سے پہلے ہی چت ہوگیا تھا۔اب ان کے مشمولات ذہن سے محو ہوگئے ہیں، بس اڑتا اڑتا سا اپنا تاثر یاد رہ گیا ہے، لیکن اس میں بھی کسی تفصیل کی تلاش عبث ہوگی۔ میں نیچے اس تاثر کو مختصراً لکھتا ہوں، لیکن اس سے پہلے ایک شکریہ واجب ہے۔یوسا کے خطوط کے تراجم سے آپ کو جو بھی فائدہ ہوا ہو وہ اپنی جگہ، لیکن ان تراجم کے آپ کی نظر سے گزرجانے سے مجھے یقیناً بہت فائدہ ہوا ہے۔آپ نے بعض الفاظ کے جو مترادفات تجویز کیے ہیں وہ میرے لیے ایک نعمت سے کم نہیں۔ بل کہ میں تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جب میں کتاب پر ایک بار اور نظرِثانی (یہ ایک طرح کا تضادِ لفظی ہے)کر چکوں گا تو ضروری ہے کہ آپ بھی ایک بار اسے شروع سے آخر تک دیکھ لیں اور مزید نوک پلک سنوار دیں۔ آپ کو زحمت تو ہوگی لیکن اس سے ہم سب کا بھلا ہوجائے گا۔ کیا حرج ہے کہ نگارش مکمل ترین صورت میں قاری تک پہنچے۔اچھا تو وہ تاثر کیا تھا؟یہ شاید میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ آپ کے اندازِ تحریر سے مجھے پتا نہیں چلتا کہ آپ یوسا کی موافقت کررہے ہیں، مخالفت کررہے ہیں، اس کی بات کو آگے بڑھا رہے ہیں، اس پر تنقید کررہے ہیں، اس کی کوتاہیوں کی طرف توجہ دلا رہے ہیں، اور اگر یہ سب کررہے ہیں تو مجھے سے جواب میںکس چیز کے متوقع ہیں۔ بعض بعض مقامات پر مجھے آپ کی گفتگو اتنی مدلل اور اہم معلوم ہوئی کہ جی چاہا آپ سے درخواست کروں کہ آپ یوسا کے سارے خطوط ایک بار پھر پڑھ کر ایک مقدمہ قائم کریںاور مضمون کی شکل میں یوسا کے خیالات سے بحث کریں اور اپنے مطالعے کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے بتائیں کہ یوسا کی کون سی بات تشنہ رہ گئی ہے اور اسے کس طرح آگے بڑھایا جاسکتا جس سے یہ یہ اہم نکتے ہمارے سامنے آئیں گے، اور یہ نکتے ایک لکھاری کے لیے کیوں اہم ہیں۔ اس سے نہ صرف یہ کہ لوگوں کو خود بھی لکھنے کی تحریک ہوگی بل کہ کس طرح لکھنا چاہیے، اس کا سلیقہ بھی آجائے گا (انشاءاﷲ!)۔دوسری بات کا تعلق مجھ سے زیادہ ہے، بل کہ میری وضاحت سے: میں نے یوسا کے ان خطوط کا ترجمہ کس نیت سے کیا تھا؟ سامنے کی بات اس سے زیادہ نہیں کہ مجھے یہ پسند آئے تھے۔ بس۔ (ہمارے یہاں فکشن پراس طرح بہت کم لکھا گیا ہے۔ اچانک وارث علوی کا خیال آتا ہے، جو میرے دوست ہیں اور مجھے ان کی ذہانت پر پورا اعتماد ہے۔ مشکل یہ ہے کہ جب وہ تنقید کرتے ہیں تو گو وہ کافی غلبہ آور لگتی ہے لیکن بعد میں پتا چلتا ہے کہ یہ ساری باتیں کسی کلیے کی پابند نہیں، کہ ان سے چند قابل عمل اصول وضع نہیں کیے جاسکتے۔) سو مجموعی طور پر یوسا کے خطوط کی علم خیز شگفتگی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن کیا میں یوسا پر فکشن کے خاتم النبی کے طور پر آمناو صدقنا کہہ چکا ہوں۔ ہرگز نہیں۔ سو میرا مقصد کبھی یہ نہیں تھا کہ اگر اس کی فکر میں کوئی جھول ہے تو اس پر بحث شروع کردوں۔ اصل میں یوسا کے ان خطوط کے محتویات پر تنقید میرا منشا کبھی نہیں رہا تھا۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں نکلتا کہ یوساکا فکشنی تفکر کسی قسم کی تنقید سے بالا ہے۔ بس یہ تنقید یہاں میرا مقصد نہیں۔ سو مجھے نہ یوسا کی حمایت کرنی ہے نہ مذمت۔ میں تو بس اتنا ہی چاہتا ہوں کہ ایک چیز جو مجھے پسند آئی ہے اس میں دوسروں کو بھی شریک کرلوں۔اور لوگ، حسب توفیق، جو بھی فائدہ اٹھا سکیں، اٹھا لیں۔سو میرے بھائی، آپ خوب دل کھول کر یوسا کے خیالات پر تنقید کریں، اس کی اچھائیوں اور کم زوریوں کو لوگوں کی توجہ میں لائیں۔ اس سے ان کا بھلا ہوگا اور مجھے خوشی ہوگی کہ ایک اچھا کام ہورہا ہے۔بس اگر میں اس سلسلے میںکچھ کہنا چاہوں گا تو وہ یہ ہے: ہر تحریر اپنی وضع (structure)میں اثر انگیزیا پر تاثیر ہوتی ہے۔ اور وضع سے میری مرادلکھاری کا من مانا انتخاب نہیں ہے بل کہ وہ منطقی جبرہے جو ایک سلیم و بالغ لکھنے والے سے ایک خاص وضع کا انتخاب کرواتا ہے اورکسی دوسری وضع کا نہیں۔ یعنی ایک طرح کی منطقی ناگزیریت۔ یہ فن ہمارے یہاں آج کسی میں بہ درجہ اتم پایا جاتا ہے تو وہ شمس الرحمٰن فاروقی ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا، ان کی تحریر کے پیچھے ایک بے پناہ منطقی انسجام ہوتا ہے اور ان کی تحریر کا ایک حرف بھی اس کی گرفت —یا بل کہ بافت—سے باہر نہیں نکلتا۔ ارے بھائی، میں آپ کو وعظ نہیں دے رہا، بل کہ میں تو اس چیز کو اور پھلتے پھولتے دیکھنے کا خواہش مند ہوں جو آپ میں فراواں پائی جاتی ہے اور خود مجھ میں مفقود ہے۔


والسلام


آپ کا،


__محمد عمر میمن


میڈیسن:۲۴ جولائی۰۰۸ ۲

No comments:

Post a Comment