Friday, February 20, 2009

محمد حمید شاہد

پیارے عمر میمن

:آداب لو بھئی میں اب یوسا کے اسلوب والے خط پر بات کر سکتا ہوں ۔ یہ موضوع ہم اُردو والوں کو ایسا بھایا ہے کہ ہمارے ہاں ہر گلی اور ہر محلے میں صاحبان اسلوب جوق در جوق ملنے لگے ہیں۔ ایک زمانے میں تو آدمی لکھنا بعد میں شروع کرتا اور صاحب اسلوب پہلے ہو جایا کرتا تھا۔ بعضوں کا اسلوب مشہور ہوگیا کوئی تخلیق مشہور نہ ہو سکی؛ وہ کیا کہتے ہیں; اِیتَر کے گھر تیتر باہر باندھوں کہ بھیتر۔ صاحب ِاسلوب کہلوانے کی طلب اور لوبھ نے بہت اچھا لکھنے والوں کو گمراہ کیا اور انہوں نے اپنے آپ کو چند موضوعات کے لیے کسی ”اسلوب“ کے ہاں گروی رکھ لیا ۔ خیر اب یوسا کو پڑھا ہے تو ایک بار پھر اس موضوع کی نزاکت،لطافت اور اہمیت کی طرف دھیان چلا گیا ہے ۔ یوسا نے یہ جو کہا ہے کہ ناول لفظوں سے بنے ہوتے ہیں تو یوں ہے کہ کسی لکھنے والے کا ڈھنگ ہی بتادیتا ہے کہ وہ کہانی کے متن کو تشکیل دیتے ہوئے اس کو کس رُخ سے آگے بڑھائے گیا۔ اسی سے تاثیر کی قوت (اور تمہاری وضع کردہ اِصطلاح میں قوت ِترغیب) کے متن سے پھوٹنے کا تعین ہو جاتا ہے۔یوسا نے یہ بھی درست کہا ہے کہ فکشن کا بیانیہ زُبان اوربیان دونوں سے مل کر بنتا ہے۔ یہ کہانی کا بیانیہ ہی ہوتا ہے جو میری نظر میں تخلیق کو تخلیق کار کی زِندگی سے پھوٹ کر الگ ہوجانے اور”خود مکتفی“ ہونے کی صورتیں بتاتا چلا جاتا ہے۔ زُبان کے حوالے پر یوسا کا خط بہت دلچسپ ہو گیا ہے۔ ہمارے ہاں اکثر مباحث میں شاعر لوگ (خصوصاً غزل کے شعرا،جو خود ایک طرف تو روایتی زبان کے اسیر ہوجاتے ہیں اور دوسری طرف متقدمین کے ہاں سے رعائتیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاتے ہیں کہ اپنے لیے گنجائشیںپیدا کر سکیں) افسانہ نگاروں پر پھبتی کسا کرتے ہیں کہ اُنہیں زبان لکھنا نہیں آتی۔ یہی الزام بیدی سے لے کر آج تک چلا آتا ہے ۔ یہ جو یوسا نے صحت کے تصور کو حذف کرنے کی بات کی ہے اور ہر بار، ہر عیب سے پاک ، ٹھیک ٹھیک صرف و نحو کے پیمانوں پر آنکی ہوئی زبان کے استعمال کرنے کی للک سے پیدا ہونے والی خرابی کاذکرکیا ہے تو یہ بھی سمجھ میں آنے والی بات ہے ۔ اپنے موضوع کے لیے موزوں زبان کا انتخاب فکشن کے باب میں بنیادی مسئلہ بنتا ہے۔ جن دو باتوں کو یوسا نے فکشن کی زبان کے باب میں کام یابی کے بیانیہ کی ضمانت قراردیا ہے( یعنی داخلی ربط اور اس کی ناگزیریت ) واقعہ یہ ہے کہ ان کے بغیر زبان اور بیان کو سلیقے سے آگے بڑھایا ہی نہیں جاسکتا۔ بیان بے ربط ہو سکتا ہے،زبان ناہموار ہو سکتی ہے مگر بیانیہ کہانی کی تظہیر کے بعد ایک ربط میں آجانا چاہیے ۔ بھئی کتنی پر لطف بات ہے ۔ ”ناول جو کہانی بیان کررہا ہے بے ربط ہوسکتی ہے، لیکن وہ زبان جو اس کی تشکیل کرتی ہے اسے باربط ہونا چاہیے“۔یہاں یو سا نے ”یولیسس“ کی بر محل مثال دے کر اپنی بات خوب اچھی طرح سمجھا دی ہے۔ تم نے اس حصے کوخوب ترجمہ کیا ہے ۔ سیل بے اماں، فسوں ساز قوت،سرگرداں شعور کی نقالی، گھڑنت جیسے مناسب اور برمحل الفاظ ڈھونڈ لانا،کہ بات اس طرح واضح ہوتی چلی جائے جیسی کہ اصل متن میں کہی گئی ہو گی، مانتا ہوں جی ،تخلیق نو والا معاملہ ہے۔ خوب بھئی خوب۔ ادھر یوسا نے بھی اپنے خط کے اس حصے میں بڑے پر لطف اشارے کیے ہیں۔ ایک طرف اکڑی ہوئی اور کسی ہوئی مکتبی زبان کو رکھا ہے اور دوسری طرف تخلیقی زبان، کہ جس میں خوب گودا ہوتا ہے۔ اس کی یہ بات بھی تسلیم کی جانی چاہیے کہ بعض موضوعات کے لیے نک سک سے درست زبان ہی مناسب ہوجایاکرتی ہے ۔ یہ جو اسلوب کو نفسِ موضوع کے مطابق ڈھال لینے کی بات ہے اس کوہمارے فکشن نگاروں کو پلو میں باندھ کر رکھنا ہوگا ۔ ایک بار پھر داد وصول کرو کہ مجھے ”تبحّرسے کلیلیں “ والا جملہ لطف دے گیا ۔ مفروضے کو باقاعدہ ایک تیکنیک بنا نے، جذباتیت سے کنّی کاٹنے ،جسم اور ہوس رانی سے کنارا کشی کرنے والے خواص کو جس طرح بورحیس کے اسلوب میں نمایاں شناخت کیا گیا ہے اور اس کی کہانیوں کو اپنے لطیف طنز کے باعث انسانی صفات اختیار کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے بھئی مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر گیا ہے ۔ تم نے بورحیس اور مارکیز کے اسالیب کی وضاحت والے حصوں میں اپنے ترجمے میں خوب لطف پیدا کیا۔ لو وہ جملہ بھی آگیا جسے ہر لکھنے والے کو ازبر کر لینا چاہیے اور اگرکوئی نسیان کے عارضے میں مبتلا ہو تو اسے اپنے سامنے لکھ کر لٹکا لینا چاہیے: ”ادب میں اخلاص یا عدم اخلاص ایک اخلاقی معاملہ نہیں ہے بل کہ جمالیاتی معاملہ ہے۔“معاف کرنا،یوسا کی یہ بات کہ ” سچ تو یہ ہے کہ لفظ بھی وہ کہانیاں ہیں جو وہ بیان کرتے ہیں“ مجھے ادھوری لگی ہے ۔ کون نہیں جانتا کہ لفظ اگر جملے سے باہر پڑا ہو تولڑھک کر سیدھا لغات کی ٹوکری میں جا گرتا ہے یا پھر گونگا ہوجاتا ہے ۔ یہ جملہ ہی ہوتا ہے جو اس کے اندر ایک کہانی داخل کرتا ہے یا اسے کچھ کہنے پر اکساتا ہے ۔ ہر نئی ترتیب سے اس کہی جانے والی کہانی میں حک و اضافہ ہوتا رہتا ہے۔بل کہ یوں کہوکہ کہانی کے ٹھاٹ بدل جاتے ہیں( چاہو تو ہندی کے” ٹھاٹ“ کو انگریزی کے” تھاٹ(Thought)“ سے بدل لو)۔ یو سا کی یہ بات بھی یاد رکھی جانی چاہیے کہ ”جب ایک لکھنے والا کوئی اسلوب مستعار لیتا ہے، تو پیدا ہونے والا ادب نقلی محسوس ہوتا ہے، محض ایک مضحکہ خیز نقّالی۔“جب یو سانے نئے لکھنے والوں کو ایک اسلوب کی تلاش میں نکل کھڑے ہونے کا مشورہ دینے کے ساتھ ہی مسلسل پڑھنے اور بہت اچھا پڑھے چلے جانے کا کہا تو سمجھو اس نے انہیں گمراہ ہونے سے بچا لیا ہے ۔ کیا خوب بات ہے :”ان ناول نگاروں کے اسلوب کی نقّالی نہ کرو جو تمھیں بہت بھاتے ہیں اور جنھوں نے پہلے پہل تمھیں ادب سے محبت کرنا سکھایا۔“مجھے یہاں حلقہ ارباب ذوق راول پنڈی والی ایک نشست یاد آتی ہے ۔ یہی متاثر ہونے والا قضیہ چل رہا تھا۔ جلسہ کے شرکا نے لگ بھگ مجھے زچ ہی کر دیا تھا۔ سب اس پر برہم تھے کہ آخر میں کسی سے متاثر کیوں نہیں ہوں؟ اگر ہوں،تو بتاتا کیوں نہیں ہوں؟؟ گویا میں کچھ چھپا رہا تھا یا پھر جھوٹ بول رہا تھا۔ کسی اور تقریب میں جب کہ میں اگلی نشست پر بیٹھا تھا؛ ایک ستر سالہ بزرگ ناقد نے مجھ پر نظریں گاڑے گاڑے کہا تھا;’ بعض لوگ نہ جانے کیوں اس کااعتراف کرلینے میں ہتک محسوس کرتے ہیں کہ وہ کسی سے متاثر ہیں ۔ ‘ مجھے یوں لگا کہ یہ مجھے کہا گیا تھا۔ اس روزاس بزرگ ادیب کی بدگمانی اور چوٹ کرنے پر بہت دُکھ ہوا تھا ۔ حلقہ کی اُس نشست میں، کہ جس کا میں ذکر کر رہا تھا اور جو دراصل میرے ساتھ سوال وجواب کی نشست تھی، مجھ سے متاثر ہونے والا سوال پوچھا گیا تھا،تو میں نے صاف کہہ دیا تھا : ”تخلیقی عمل کے دوران ”موحد“ ہونا پڑتا ہے کہانی کو بھی اور تخلیق کار کو بھی۔“ پھر تو صاحب ،شور مچ گیا تھا کہ جیسے میں لکھنے والوں کو ”وہابی‘ ‘بنانے جارہا تھا۔ یہ وہابی والا لطیفہ تو تم نے سن ہی رکھا ہوگا ۔ اجی، وہی سردار جی والا: جن کی دکان بہت چلتی تھی ۔ محلے کا دوسرا دکان دار ،جو مسلمان تھا، مولوی صاحب کے پاس گیا، اپنادُکھ بیان کیا، نذرانہ دیا اور مولوی صاحب کو دُعا کے لیے کہا۔ مولوی نے کہا ،فکر نہ کرو میں دعا بھی کرو ںگا اور اس سکھ کے بچے کا بندوبست بھی کردوں گا۔ اگلے روز مسجد سے اعلان ہو رہا تھا : صوبہ سنگھ کریانے والا‘ وہابی ہو گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان سردار جی کی دکان ٹھپ ہوگئی۔ ہاں تو،میں نے تو محض یہ کہا تھا : ” میں نے کوشش کی ہے کہ جیسا کسی اور نے لکھاہے میں ویسانہ لکھوں۔ میں اوروں کی طرح نہیں لکھنا چاہتا میرا اپنا تخلیقی تجربہ میری راہ متعین کرتا ہے اور یہ خرابی یا خلش میرے اندر ہے کہ مجھے سب سے بچ نکلنا ہے ۔ “ میں نے اسی مقام پر وضاحت بھی کر دی تھی : ”تمام اچھے اَفسانہ نگاروں کے مجھ پر اثرات ضرور ہوں گے کہ میں روایت کے ساتھ جڑا ہوا آدمی ہوں۔ جڑا ہوا بھی ہوں اور اس سے کٹتا بھی رہتا ہوں تاہم لکھتے ہوئے میں تنہاہوجاتا ہوں ۔ اور میں اچھے تخلیق کارکے لیے ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ ممکن حد تک دوسروں کے اثرات سے بچے اور ذاتی جوہر کو اپنی کارکردگی دکھانے دے ۔“ میں نے گفتگو کا یہ حصہ ڈھونڈ کر بطور خاص یہاں ہو بہ ہو نقل کیا ہے کہ تم تک، تخلیق کار کی حیثیت سے میرا اپنا رجحان پہنچ پائے اور شاید اس طرح تمہیں اس کا جواز بھی مل چکا ہوگا کہ میں یوسا کو کیوں چاہنے لگا ہوں۔ اب یوسا کی باتیں نہ پڑھتا تو شایدمیں اپنے آپ کو ”ادب کا وہابی“ ہی سمجھتا رہتا۔ یوسا کے ایک خوب صورت جملے کو نقل کرنے کے بعد تم سے اجازت چاہوں گا۔ اگر ممکن ہو تو میری کتاب ”اردو افسانہ:صورت و معنی“ کے ابتدا ئی مباحث پر نگاہ ڈال لینا۔ اور ہاں جہاں کہیں میں نے ٹھوکر کھائی ہے اس کی نشاندہی کرو تو یہ احسان ہوگا۔ ہمارے ہاں یہ خرابی راسخ ہو چکی ہے کہ ہم اس طرح کے مباحث سے الگ تھلگ رہتے ہیں جو یوسا نے اُٹھائے ہیں۔ یوسا کا وہ جملہ،جو مجھے آخر میں نقل کرنا تھا یوں ہے: ”اچھی کہانیاںکہنے کے لیے تنہا الفاظ کافی نہیں ہوتے۔“پانچویں خط پر جلد بات ہو گی۔

محبت کے ساتھ

محمدحمیدشاہد

اسلام آباد : ۳ مئی۸۰۰۲

No comments:

Post a Comment