Thursday, February 19, 2009

محمد حمید شاہد

پیارے محمدعمر میمن

آداب قبول کرو

میں تمہیں آج ہی خط ای میل کر چکا تو رہ رہ کر اس بات کی طرف دھیان جاتا رہا کہ باقی وہ کیا بھید رہ جاتا ہے جو ان اگلے خطوط میں یوسا نئے لکھنے والوں کی جھولی میں ڈالنا چاہے گا ؟ میں نے دھیان سے اس کا ایک اور خط” چینی ڈبے“ والا ایک بار پھر پڑھ ڈالا ہے ۔ سوالیہ نشان جوں کاتوں میرا منہ نوچ رہا ہے ۔ شاید وہ کچھ اگلے خطوں میں ہوگا جس کے اوپر اوپر سے پہلی قرا ت میں نظر تیر گئی ہو گی ۔ خیر میں سنبھل کر بیٹھ گیا ہوں اور ارادہ ہے کہ آخر تک تمہارا اور یوسا کا ساتھ نبھاﺅں گا۔ گزشتہ خط میں میرا جی چاہتا تھا کہ کہیں نہ کہیں منٹو کی کہانی ”کھول دو“ کی مثال ٹانک دوں مگر آخر تک اپنی الجھنوں کو سلجھانے میں لگا رہا ۔ تمہیں یاد ہوگا کہ اس افسانے کی سکینہ جب ڈاکٹر کی آواز پر اپنی شلوارنیچے سر کارہی تھی تو پوری انسانیت ننگی ہونے لگی تھی۔ ایسے میں ہم سب کا دھیان سکینہ کے بوڑھے باپ سراج الدین کی طرف نہیں گیا ہوگا جو زندگی کی رمق پا کر خوشی سے چلانے لگا تھا کہ اس کہانی کو پڑھنے والا قاری ایک اور جانب زقند لگا چکا تھا ،اس جانب جہاں وہ آٹھ رضا کار ہو سکتے تھے کہ انہیں دبوچ کر ان کے بدکردار بدنوں سے آخری سانسیں تک کھینچ لے۔ یہاں میں یہ اضافہ کرنا چاہتا تھا کہ ”کھول دو“ کا جملہ ایک سفاک لطیفے کے ساتھ جڑا ہوا ہے ۔ ایک بے اولاد مجبور عورت کے ساتھ جو پیر کے پاس صاحب اولاد ہونے کے لیے تعویز لینے گئی تھی اور پیر کی نیت میں ایسا فتور آیا کہ اُسے اکیلا پاکر وہی حیلہ آزمانا چاہا جس کاوہ عادی تھا ؛ کہا : ”ناڑاکھول۔“ وہ گھبرا گئی ۔ اپنی سماعت پر اسے یقین نہ آرہا تھا ۔ تعجب اور گھبراہٹ سے پوچھا: سرکار کچھ آپ نے مجھ سے کہا ہے؟، وہ ادھر ادھر دیکھ کر تسلی کر رہی تھی جہاں کوئی اور نہ تھا۔ پیر نے کہا،” ہاں، بھلیے لوکے ‘میں نے تمہیں ہی کہا ہے،ناڑا کھول اور ادھر آجا“ ۔ وہ ناڑے کی سچی تھی۔ طیش میں آگئی۔ جو منہ میں آیا بک دیا ۔ پیر کے ہاتھ پاﺅں پھول گئے مگر پرلے درجے کا مکار تھا ، پینترا بدلا کہا: اے نیک بخت بر ہم کیوں ہوتی ہے۔ وہ اپنے پیچھے دیکھ،دیوار میں ٹھکی ہوئی کیل سے ناڑا بندھاہے: اسے کھول کر لے آ کہ وہ دَم کرکے تمہیں دوں ۔ میمن جی ، یہی لطیفہ اس” کھول دو“ کے پیچھے گونج سکتا تھا ۔ مگر منٹو نے کچی گولیاں نہیں کھیلی تھیں ۔ ڈاکٹر جو کھڑکی کھولنے کو کہہ رہا تھا اور سکینہ اپنا ناڑا ڈھیلا کرکے شلوار نیچے کھسکا رہی تھی ۔ ایسے میں یہ لطیفہ اپنا وجود معدوم کر چکا تھا۔ اب تو وہ سکینہ تھی: جس کے ہاتھ عصمت دری کے تسلسل کے باعث میکانکی انداز میں چل رہے تھے یا پھر وہ باپ تھا: جو اپنی بیٹی میں زندگی کے آثار پا کر خوشی سے کھل اُٹھا تھا اور وہ ڈاکٹر بھی تو وہیں تھا جس نے ننگی پنڈلیاں دیکھی تھیں تو اس کے چہرے کے مسام پسینہ باہر پھینکنے لگے تھے ۔ تو اے پیارے میمن ،افسانہ تو بنتا ہی تب ہے جب کہانی زقند لگاتی ہے/پلٹا کھاتی ہے ۔ قاری کے اندر کو دہلا کر رکھ دیتی ہے اور واقعہ وہ نہیں رہتا جیسا کہ وہ پہلے بیان ہو رہا ہوتا ہے۔ راوی کی تبدیلی کی ایک عمدہ مثال جو مجھے یہاں شدت سے یاد آرہی ہے، وہ نجیب محفوظ کے ایک مختصر ناول” یوم قتل الزعیم“( جس روز صدر قتل ہوا) کی ہے ۔ نجیب محفوظ کے اس ناول میں راوی ہر باب میں بدل جاتا ہے ۔ کہانی بوڑھے محتشمی زاید کے بیان سے شروع ہوتی ہے جو پرانی اقدار کو نبھانے والا آدمی ہے اور ان اقدار کو اپنے سامنے ٹوٹتا ہوا دیکھ رہا ہے۔ اگلے باب کا راوی علوان فواز محتشمی ہے ،جو ہر نئے چڑھتے دن کے ساتھ چکرا جاتا ہے ۔ وہ اپنے دادا سے سوال کرتا ہے کہ آخر ہم کب تک امید افزا باتوں کو دہراتے رہیں گے ۔ وہ رفتہ رفتہ اپنی محبوبہ کو کھونے پر خود کو مجبورپاتا ہے ۔ تاہم اپنے آپ کو یقین دلانا چاہتا ہے کہ ان کی محبت قائم رہے گی۔ اگلے صفحات میں راوی علوان فواز نہیں بل کہ رندہ سلیمان مبارک ہے ۔ وہی جس سے علوان فواز محبت کرتا ہے ۔ وہ بھی علوان فواز سے محبت کرتی ہے ۔ دونوں کی منگنی ہو چکی ہے مگر معاشی دباﺅ نے اقدار کو بدل کر رکھ دیا ہے اور وہ اندر سے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی محبت کا سا تھ نہیں دے پا رہی۔ یوں کرداروں کے عنوان سے ابواب قائم ہوتے ہیں اور پھر وہی کردار راوی کا منصب سنبھال لیتے ہےں۔اس تیکنیک نے ناول کے مزاج کو دھیمارکھا اور اس کے متن کو تاثیر کی دولت سے مالامال کردیا ہے۔ لو‘ میں مصر تو پہنچ ہی چکا؛ کیوں نہ یہ بتاتا چلوں کہ پہلا افسانہ مصر ہی میں لکھا گیا تھا۔ اور یہ بھی کہتا چلوں کہ کہانی میں زمان،مکان،کرداروں اور کیفیت کے بدلنے کو جس ڈھنگ سے ان آخری ابواب میں یوسا نے سمجھانے کی کوشش کی ہے لگ بھگ یہی قرینہ توان مصری کہانیوں میں بھی ملتا ہے جو چار ہزار سال سے بھی پہلے لکھی گئی تھیں۔ ”چینی ڈبے “ کا عنوان پانے والے خط میں یوسا نے مرکزی کہانی کے اندر ضمنی کہانیوں کی طرف اِشارہ کیا ہے اور اس باب میں اس نے ”دی تھاﺅزینڈ اینڈ ون نائٹ“ کا حوالہ دیا ہے جو عربی سے انگریزی اور فرانسیسی میں ترجمہ ہوئی توساری دنیا میں تہلکہ مچ گیا ۔ ”الف لیلہ “کو یورپ نے ادب عالیہ گردانا اور مانا۔ ایک ہزار ایک راتیں اور ایک کہانی میں ایک ہزار ایک کہانیاں ۔ یوسا کا دھیان فوراً الف لیلہ کی طرف چلا گیا اور میں سوچ رہا ہوں کہ یہ تو بعد کا قصہ ہے ۔ بہت پہلے جب ابھی کہانی لکھنے کا رواج نہ نکلا تھا اور مصری قصہ خواں گھوم پھر کر کہانیاں سنایا کرتے تھے تب بھی وہ اس تیکنیک سے آگاہ تھے کہ کہانی کے اندر سے کہانی کیسے نکالنی ہے ، راوی کہاں بدلنا ہے، کس کردار کو آگے لے جانا ہے اور کسے راہ ہی میں اوندھا دینا ہے ۔ کہاں وقت کے کسی اور مرحلے میں جست لگانی ہے اور کہاں مکان کو بدل دینا ہے۔ لکھی ہوئی صورت میں سب سے قدیم تصورہونے والی کہانی ،تم تو جانتے ہی ہو پیارے کہ وہ The Tale of the Shipwrecked Sailor ہے۔ چاہو تو اسے سہولت کے لیے ڈوبا ہوا بحری بیڑا کہہ لو ۔ کہتے ہیں یہ۳۳۱ ۲ قبل مسیح میں لکھی گئی ۔ یوں حساب لگاﺅ تو یہ چار ہزار ایک سو اکتالیس سال پرانی کہانی ہوئی جب کہ الف لیلہ تو بہت بعد کی بات ہے۔ بہ قول انتظار حسین، الف لیلہ ان عربوں کے تخیل کا کارنامہ ہے جو قبائلی زندگی کی منزل عبور کرچکے تھے مگر جن کے سینوں میں ابھی قبائلی الاﺅ کی آنچ باقی تھی ۔ مجھے بھی مظفر علی سید کی طرح یہ سن /پڑھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ یورپی ادب نے الف لیلہ کو اعلی مسند پر جگہ دی ہے ۔پچھلے ڈھائی تین سو سالوں میں اس کے خوب تراجم ہوئے ، کئی کہانیاں ماخوذ ہوئیں اورقسم قسم کے ایڈیشن نکلے۔ اب یوسا نے بھی اسی الف لیلہ کا حوالہ ’کہانی میں کہانی‘ کے باب میں دیا ہے تو یقین جانو، میرے یار میمن، میں بہت خوش ہوا ہوں ۔ یہ قصوں کا قصہ ہے بھی خوب مزے کا ۔ اس کی راوی شہرزاد کے سر پر موت کی تلوار لٹک رہی ہے اور وہ زندگی کی طلب میں کہانی کا سہارا لیتی ہے ۔ ایک کہانی جو ایک ہزار مزید کہانیوں کو اپنے اندر سمائے اور سموئے ہوئے ہے ۔ اسے یوسا نے چینی ڈبوں کا طریقہ کار کہا ۔ ایک ڈبے کے اندر سے ایک اور ڈبہ ۔ میمن جی،جس مصری کہانی کی میں اوپر بات کر آیا ہوں اور اسے دنیا کی پہلی لکھی ہوئی کہانی قرار دے چکا ہوں اس میں بھی یہی کہانی در کہانی والی تیکنیک (جسے یوسا نے ”چینی ڈبوں “والی تیکنیک کہا ہے) مل جائے گی ۔”ڈوب جانے والے اس بحری بیڑے“ کی کہانی کے بارے میں تحقیق کرنے والوں کا دعویٰ ہے کہ اس کا ابتدائی حصہ ضائع ہوگیا ہے ۔ وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ اس کا آخری حصہ بھی نہیں ملتا ۔ دونوں جانب سے کٹی ہوئی کہانی میں بھی کم از کم تین کہانیاں یا پھر کہانی کی تین سطحیں مکمل طور پر موجود ہیں ۔ یوں دونوں طرف سے کٹ کٹا کر یہ کہانی افسانہ کہنے کا چلن سجھا گئی ہے۔ ایسا چلن جس میں آغاز، وسط، اور اختتام کی بہ جائے کہانی کو کہیں سے بھی شروع کیا جاسکتا ہے جو اپنے ڈھنگ سے آگے بڑھ کر کہیں بھی تمام ہو سکتی ہے۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا :وہ جو یوسا نے اپنے تئیں نئے ناول نگار کو کہانی در کہانی کی ایک تیکنیک سمجھانے کے جتن کیے ہیں تو میں اسی نئے ناول نگار کو اطلاع دینا چاہتا ہوں کہ یہ تیکنیک تو قدیم ترین کہانی کا بھی وظیفہ رہی ہے۔ اس میں ایک کہانی تو اس نواب کی ہے جو کسی مہم سے ناکام لوٹنے کی وجہ سے فرعون کے مقابل ہونے سے گھبرا رہا تھا ۔ دوسری کہانی اس جہازران کی ہے جو اس خوف زدہ نواب کو اپنی کہانی سناکر اس کی ہمت بندھارہا ہے ۔اس نے اپنی کہانی میں تاثیر کے پورے لوازم بہم کر دیے ہیں۔ وہ فرعون کے غضب سے سہمے ہوئے نواب کو بتاتا ہے کہ ایک بار اپنے جہاز پر ایک سو بیس بہترین ملاحوں کے ساتھ کسی مہم سے کام یاب لوٹ رہا تھا کہ سب کچھ تباہ ہوگیا ۔ جہازران کے مطابق ابھی وہ سمندر میں ہی تھے کہ طوفان کی چودہ فٹ اونچی لہر نے جہاز کو پٹخ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ جہاز سمیت سب ڈوب گئے ۔ ایک لکڑی کا تختہ بچا تھا جس پر وہ سوار ہو گیا تو سمندر نے اسے ناگ جزیرے پر پھینک دیا۔ تیسری کہانی اس ناگ کی آمد سے شروع ہوتی ہے جو اس جہازران کو اپنے منہ میں داب کر اپنے ہاں لے گیا تھا اور وہاں اس کی ڈھارس بندھانے کو اپنی کہانی سنائی تھی۔ یہی کہ وہ پچھتر سانپ تھے ؛بہن بھائی اور بچے ۔ سب اس جزیرے پر بہت خوش تھے کہ ایک ستارا ٹوٹ کر گرا اور سب بھسم ہوگئے ۔ چوں کہ وہ خود وہاں نہیں تھا لہٰذا بچ گیا ۔ آخری حصے میں تینوں کہانیاں مکمل ہوتی ہیں ناگ جہازران کو ایک جہاز کے آنے کی خبر سناتا ہے۔ وہ جہاز جب وہاں پہنچتا ہے تو اس میں اس کو اپنے جزیرے کے تحائف دے کر رخصت کرتا ہے اور ساتھ ہی خبر سنا دیتا ہے کہ بہت جلد یہ جزیرہ پانی میں ڈوب جائے گا۔ گو یا ناگ بھی نہ رہے گا۔ کہانی بتاتی ہے کہ ناگ نہ رہا مگر اس کا قصہ اور وہ تحائف جو اس نے جہاز ران کو تحفے میں دیے تھے فرعون کے دربار میں پہنچ گئے ۔ غمزہ سردار کی کہانی یوں تمام ہوتی ہے کہ وہ جہازران کی کہانی کے انجام کو اپنے انجام سے الگ تصور کرتا ہے۔ لو‘ اب تو میمن پیارے مجھے کہانیوں کا ایک سلسلہ یاد آنے لگا ہے جس میں کہانی در کہانی کی تیکنیک استعمال کی گئی ہے ۔ بل کہ یوں کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ ہر اچھی کہانی میں اس تیکنیک کو تلاش کیا جاسکتا ہے کہ اس کے بغیر کوئی افسانہ مکمل ہوتا ہی نہیں ہے۔ ناول میں تو باقاعدہ الگ الگ ٹریک بنانے پڑتے ہیں کہ کہانی پھیلتی اور سکڑتی چلی جائے ۔ میں ایسی کہانیوں کی فہرست بنانا ہی چاہتا تھا کہ یوسا کے ایسے ہی طرز عمل پر اپنا الجھنا یاد آیا ۔ تم نے اس باب کو بھی خوب ترجمہ کیا ہے ۔ تاہم: —جہاں بھی”ترغیب“آیا ہے وہاںاسے”تاثیر “سے بدل لو۔ یہ تو میرا پرانا مطالبہ ہے۔ —”یہ اپنا عمل]اپنی کارروائی[کیسے کرتی ہے؟“ والے جملے پر نظر ثانی کی ضرورت ہے ،مثلا ”یہ اپناکام کیسے کرتی ہے“ جیسے سادہ ترین جملے سے بھی بات بنائی جاسکتی ہے۔ —”کہانی ان روایتی چیستانوں(پزلس) کی طرح بنائی جاتی ہے جن کے سلسلہ وار تدریجاً چھوٹے ہوتے ہوئے ایک جیسے حصے ہوتے ہیں جو ایک دوسرے میں سما جاتے ہیں“ یہ جملہ بہت طویل اور الجھ گیا ہے۔ اسے توڑ کر دو جملے بنا لو تو کیا اچھا ہو۔ —کہانی واحد ہے لہذا ”چیستان“ ہونا چاہیے ۔ اگر میں ٹھیک سمجھا ہوں تو یہاں بنیادی طور پر ایک ایسے حیران کرنے والے کھیل کا حوالہ آیا ہے جس میں چھوٹے ٹکڑے بڑے کے اندرسماجاتے ہیں/گم ہو جاتے ہیں ۔ —”حکمت عملی “یا ”عملیت “ کی جگہ صرف ”طریقہ کار“ سے بات بن سکتی ہے۔ — ]متداخل[ کو سطرسے نکال باہر کرو ۔ جملہ ویسے ہی مکمل ہے۔ —”ماں کہانی،”بیٹی کہانی،”نواسی کہانی “؛ خدارا، کہانی در کہانی کے لیے اگر یہ تراکیب یوسا نے بھی استعمال کی ہیں تو بھی مناسب یہی ہے کہ ان کو بدل لو۔ — ”چالیس کے پیٹھے“ کو ”چالیس کے پیٹے “ کرلو۔ بھئی پیٹھے کدوسے توہمارے ہاں حلوہ بنایا جاتا ہے۔ — ”تظلیل“ کی جگہ ”خیالی عکس “ مناسب ہے۔ — ”کرکس “کی جمع ”کرکسوں“ کَھلتا ہے ۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ کرکس مختلف جگہوں پر ذرا بدل بدل کر معنی دے ر ہا ہے۔ ایک آدھ مترادف میں نے گزشتہ خط میں لکھا ۔ اب خیال آتا ہے کہ کچھ مقامات پر یہ لفظ” بنیادی تنازع“ یا پھر ”مرکزی وظیفے “ کے معنی بھی دیتا ہے۔—”مرکزہ“ اور ”مرکزی نقاط“ جیسے مترادفات بھی جملے کا مزاج دیکھ کر استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ — اس حصہ کا آخری جملہ کتنا پرلطف ہے ۔ کاش تم نے اس میں ]خیال میں لاکھڑا[کا اضافہ نہ کیا ہوتا اور ”حاضرات“ کی جگہ محض” حاضر “ لکھا ہوتا۔ لو میں اس جملے کو اپنی مرضی سے لکھ کر بات ختم کر رہا ہوں اوراس یقین کے ساتھ کہ یہ جملہ یوسا نے ایسے ہی لکھا ہوگا:” فکشن وہ زندگی نہیں ہے کہ جس کا تجربہ کیا جاتا ہے بل کہ ایک مختلف زندگی؛ فکشن کی تخلیق اس مواد سے ہوتی ہے جسے زندگی بہم کرتی ہے۔ فکشن کے بغیر زندگی روکھی پھیکی اور بنجر ہو جائے گی۔ “

محبت کے ساتھ،

__محمد حمید شاہد

اسلام آباد،

۲۲جون۰۰۸ ۲
///

No comments:

Post a Comment