Saturday, February 21, 2009

محمد عمر میمن

برادرم حمید شاہد،
تسلیمات۔
”آپ“ لکھ کر میں آپ کی فراوانیِ اظہار پر پابندی لگانے کا خواہش مند نہیں تھا۔ بس بچپن سے ایک عادت پڑی ہوئی ہے جسے اس عمر میں ترک کرنے کے لیے ایک نئی عادت ڈالنی پڑے گی۔ اس ”آپ“ کے پیچھے وہی محبت اور وفور تھا جو آپ کے ”تم“ سے جھانک رہا تھا۔ موجودہ خط میں آپ کچھ اس طرح سمٹ گئے ہیں کہ مجھے اپنے پر افسوس ہونے لگا۔ بھئی آپ مجھ پر یہ ظلم نہ کریں۔ میں نے کب لکھا تھا کہ مجھے ”تم“ سے مخاطب نہ کیا کریں۔ سو آپ وہی کریں جس کے عادی ہیں اور جس میں اپنا اظہار خلوص و محبت سے کر سکتے ہیں، اور میں وہی پیرایہ اختیار کروں گا جس کا عادی ہوں۔ لیکن اس کے پیچھے اپنے بارے میں نہ کوئی زعم ہے نہ زبردستی اپنی عزت کرانے کا شوقِ فضول۔ دراصل اپنی عزت آدمی خود کرتا ہے، دوسروں سے کروانے پر اصرار میرے حساب سے شوقِ خود نمائی کا ہی ایک مذموم شاخ سانہ ہے۔ سو میرے بھائی، آپ بہرِ خدا مجھے شرم سار نہ کریں۔ سچ پوچھیے تو مجھے آپ کا خط بہت اچھا لگا تھا۔ آپ اپنے سے قریب نظر آئے۔ اب آپ خواہ مخواہ فاصلہ پیدا کرنے کے درپے ہو رہے ہیں۔ مجھے آپ کا میری کاوشوں کا مطالعہ اتنے انہماک سے کرنا اور ان سے عملی طور پرکچھ اخذ کرنا اتنا چھا لگا تھا کہ میں نے سوچا کہ کیوں نہ آپ کو یوسا کے چند اور خط بھجوادوں۔ کتاب جانے کب چھپے گی، اور یہ بھی طے نہیں کہ کبھی چھپے گی بھی۔ اور نہ یہ معلوم ہے کہ اس کی اگلی قسطیں کب اور کہاں نکلیں گی ۔ اگر آپ چاہیں تو بھیج سکتا ہوں۔ اور کیا لکھوں۔ اچانک ایک تعطل کی سی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ اسے بس اب آپ ہی دور کرسکتے ہیں۔


محبت کے ساتھ


آپ کا


محمد عمر میمن


میڈیسن : ۶۱ اپریل ۸۰۰۲

No comments:

Post a Comment