Friday, February 20, 2009

محمد حمید شاہد

پیارے عمر میمن
:آداب
میں نے تم سے وعدہ نہ کر رکھا ہوتا کہ اس بار یوسا کے ”زمان“ والے خط پر بات کروں گا،اب تک فکشن کے ان ہی مباحث میں الجھا ہوتا جویوسا نے گزشتہ خطوط میں اُٹھائے تھے کہ میںاُن سے سرسری گزرتا آگے نکل آیاتھا۔ خیر اَب کیا ہو سکتا ہے کہ وعدہ بھی تو میں نے کیا تھا‘آئی موج فقیر کی،دِی اَپنی جھونپڑی پھونک۔ سو وعدہ نبھاتا ہوں ۔ زمان کا معاملہ یہ ہے پیارے کہ یہ شروع ہی سے مکان کے ساتھ پیوست رہا ہے۔ کہتے ہیں ۰ ۵۹۱میں فریڈ ہال نے جو Steady State Universe( یعنی ٹھہری ہوئی کائنات والا) نظریہ گھڑا تھا تو اُسے خوب پذیرائی ملی۔ جارج گا موو (George Gamove)نے Big Bang کا شوشا چھوڑاتو سب اُسے چھوڑ،اس کے پیچھے ہو لیے اور ابھی تک اس نظریے کا خوب ڈھنڈوراپٹ رہا ہے ۔ مجھ بے علم صیرفی کو دیکھو کہ ایک کو”گھڑت“ کہہ گیا، دوسرے کو” شوشا“اور دونوں کوگُھورے پر ڈالنے کو کمر بستہ ہوں ۔ بھئی گراں خاطر نہ ہوتومیں اس پر اٹکا ہوا ہوں کہ ان دونوں کی اوقات محض مفروضوں سے نہ پہلے کچھ زیادہ تھی، نہ اَب ہے۔ سائنسی تجربات/مشاہدات کاالمیہ یہ ہے کہ یہ بہ ہر حال ناقص /نامکمل ہوتے ہیں۔ یہی سبب ہے ان میں سے ایک نظریہ کب کا مسترد ہوچکا اوردوسرے کو جلد یا بہ دیر اسی انجام سے دوچار ہونا ہے۔ لگ بھگ چالیس سال پہلے تک ہمیں یہی بتایا جاتا رہا کہ کائنات ہمیشہ رہے گی۔ اب بتایاجارہاہے کہ جس طرح عظیم دھماکے سے کائنات Nothingness سے وجود میں آئی تھی،اور مسلسل پھیل رہی تھی،سکڑ کر پہلی حالت میںچلی جائے گی؛ پھر ایک دھماکہ ہوگا،اپنے انجام کو پہنچ جائے گی۔ اوہو میں نے درست کہاں کہا، اپنے انجام کو پہنچ کر بھی بالکل ختم نہیں ہوگی، ایک بار پھر کائنات تخلیق ہوگی؛ پہلی سے بھی بڑی ۔ اس میں پہلے والی کا مادہ بھی شامل ہوگااور کچھ مزید Nothingness سے بھی پا لے گی۔ یہ بھی کہاجارہا ہے کہ وہ کائنات ہمیشہ کے لیے ہوگی۔ واہ کیا خوب کہا سائنسی بھائی لوگو، میرا مذہب کے زیر اثر پالا ہوا ذہن فوراً قیامت اور جنت دوزخ کے تصور میں کھو گیا ہے۔ میرے تہذیبی ذہن میں بھی کائناتی چکر بسا ہوا ہے کہ آخر ایک مدت ہندو ازم اور بدھ مت والوں کا ساتھ رہا مگر اس کا کیا کیجیے کہ معروف سائنس دان Hezen Burqنے بھی اپنا ایک نظرےہ پیش کر رکھا ہے،وہی Uncertainity والا مشہورنظریہ جس میں بتایا گیا ہے کہ جدید سائنسی تحقیق اپنے وسیع کائناتی علم کی وجہ سے اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اس کے نتائج عمومی سطح پر تو ٹھیک بیٹھتے ہیں پیچیدہ معاملات میں ہمیشہ ناقص رہ جاتے ہیں یا بعض معاملات میں اِنہیں کچھ سوجھتا ہی نہیں ہے۔ اگرچہ اوپر والی بحث یوسا کی تحریر کا عنوان پڑھتے ہی مجھے اپنی طرف کھینچ لے گئی ہے مگر دیکھو یہ باتیں بالکل غیر متعلق نہیں ہیں۔ تم نے یہ کرنا ہے کہ میںنے جہاں جہاں کائنات کا لفظ استعمال کیاہے،وہاںوہاںاپنے ذہن میںایک مساوات بنا لینی ہے، لو لکھ دیتاہوں: مکان+زمان= کائنات۔ میں ایسا نہیں کرسکتا کہ کائنات جسے اس مساوات میں زمان و مکان کے مساوی دکھایاگیاہے، فی الاصل وہ زمان و مکان کے اندر مقید ہے اورصرف لکھی ہوئی مساوات میں ہی برابر ہوسکتی ہے۔ کہو، اب اگر میں اس تمہید کے بعد یہ کہوں کہ زمان اور مکان کا تناظر بیچ میں لائے بغیر فکشنی واقعے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تو کیاتم یقین کر لو گے؟ بھئی میرا تو اس باب میں پورا ایقان ہے اور طبیعت اس پر بھی ٹھکتی ہے کہ فکشن سے باہر کی زندگی بھی جو ہمارے تجربے میں آکر میلی اور استعمال میں آکر بوسیدہ ہو چکی ہے اس کاکوئی واقعہ اس تناظر سے باہر نہیں ہے۔ مجھے یہ بات کہہ ڈالنے کا یوں حوصلہ ہوا کہ یوسا نے بھی اس باب میں اپنی بات کا آغاز اِسی نکتے سے کیا ہے۔ یعنی اس نے زمانی نقطہ نظر کو مکانی نقطہ نظر سے جوڑ نا ضروری گردانا ہے۔ یوسا نے ایک تسلسل میں بہنے والے وقت کو حقیقی وقت کہاہے اور اسے اُس وقت سے الگ کرکے دِکھانے کی کوشش کی ہے جو بہ قول اس کے فکشنی وقت ہوتا ہے۔ ایسا وقت جس میں خوب اَکھاڑ پچھاڑ ہوتی ہے ۔ ایسی اکھاڑ پچھاڑ جو فن کار کو ایک تسلسل میں چلنے والے وقت سے آزاد کردِیا کرتی ہے۔ آگے چل کر یوسا نے وقت کی اِس تقسیم کو سلسلے وار اور نفسیاتی قرار دیا ۔ ایک جو معروضی وجود رکھتا ہے اور دوسرا جو ہمارے اندر ہی اندر کروٹےں لیتا رہتا ہے ۔ فکشن میں آنے والے وقت کو یوسا نے بجا طور پر اس وقت کے مماثل قرار دیا ہے جس کی چال خوشی، دُکھ اور خوف کے لمحات میں تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ اس ضمن میں ایم بروز بیئرس کی کہانی ”این اَکَرینس اَیٹ آ¶ل کرِیک برج“برمحل ہے ۔ پُل سے پھانسی دیے جانے والے لمحے سے لے کر کہ اس کی گردن کے گرد رسی تنگ ہورہی تھی اوررسی ٹوٹنے سے پہلے تک وقت ایک دھج سے چلتا ہے۔ رسّی ٹوٹنے، دریا میں گرنے، تیر کر کنارے پر پہنچنے سے لے کر گھر میں گھسنے تک وقت کی چال مختلف ہو گئی ہے۔ محبت کرنے والی عورت کی طرف بڑھنے والے لمحات میں یہ پھیلا ہوا وقت پھر سکڑ جاتا ہے اور گردن کے گرد تنگ ہوتی رسّی اس کا دم گھونٹ دیتی ہے۔ گُنتر گراث کی ”دی ٹِن ڈرم“ والی کہانی میں نے پڑھ رکھی ہے۔ یوسا کی بتائی ہوئی عام رفتار اورآسکر کے لیے ناگزیر زوال سے کنّی کترا کر نکل جانے والے وقت کو بھی تم اسی ذیل میں رکھ کر دیکھ سکتے ہو۔اب اگر میں ان مثالوں کو لے کر یہ کہوں کہ اوپر جو یوسا نے وقت کی حقیقی اور نفسیاتی کی تقسیم کی تھی اور فکشن کے وقت کو گھڑا ہوا وقت بتایا تھا تو کیا وہ غیر حقیقی نہیں ہو جاتا ؟ دیکھو جس عمومی وقت کو ہم نے اَپنے خارج سے اُچک،کاٹ پیٹ کر برابر حصوں میں بانٹا اور اس کے سیکنڈ، منٹ، گھنٹے،سال اور صدیاں بنالی ہیں اس کی تصدیق ہمارا باطن نہیں کرتا ہے۔ لہذا مجھے کہنے دو کہ یہی گھڑا ہوا دھوکا ہے۔ اصل وقت تو وہی ہے جو ہر فرد کے اندر اس کے دِل کی دھڑکنوں کے ساتھ چلتا ہے،اُس کی سانسوں میں بسا ہوا ہے یا اُس کے ذہن میں سے ایک کوندے کی طرح سے نکلتا اور سارے زمانوں کو روشن کرتا چلا جاتا ہے ۔ اپنی پہلی بات د ہرانا چاہوں گاکہ فکشن کی حقیقت،عام زندگی کی حقیقت سے کہیں عظمت والی ہوتی ہے۔ تویوں ہے جگرجی، کہ جب یہی عظمت” فکشن کے زمان“ کی دستار کا پنکھ ہو گئی ہے تواسے ٹیڑھے میڑھے ہوکر یوں سمجھنے کے جتن کیوں کیے جائیں جیسے یہ قضیہ بھی ٹیڑھے توے کی روٹی ہو ۔ میں نے جو کہا اور یوسا نے جو کہہ رکھا ہے بظاہر ایک سی باتیں ہیں مگر جب تم اپنے دیکھنے کے زاویے کو بدل لو گے تو تم پر زندگی کے حسن کا ایک اور دریچہ کھل جائے گا ۔ کم از کم میرے ساتھ تو یہی ہوا ہے اور میں جوں جوں اِس راہ پر آگے جاتا ہوں،ایک سے ایک نیا منظر، نظر کے سامنے کھلتا اور روح تک کو سرشار کرتاچلا جاتا ہے؛ بالکل یوں،جیسے کوئی لپٹا ہوا جادوئی قالین آگے ہی آگے کُھلتا چلا جائے ۔ میں نے بورحیس کی کہانی ”دی سِیکریٹ مِرکل“ کو بھی اسی تناظر میں دیکھا ہے۔ فائیرنگ اسکواڈ کے سربراہ کے حکم ”فائیر“ سے لے کر گولیوں کے جسم کو چھلنی کردینے تک، میں اِسی وقت کے تصور کی گرفت میں رہا ہوں، جو فی الاصل ہے؛تب ہی تو فن کار کی گرفت میں آگیا ہے۔ ”ڈائنا سور“ اور وقت کو جوڑ کر یہ جو یوسا نے ماضی،حال اور مستقبل کے صیغے استعمال کیے ہیں، کہانی میں آکر اپنی حیثیت کس سہولت سے بدل لیا کرتے ہیں تم اِس سے خوب آگاہ ہوگے۔ بس یوں ہے کہ فکشن کا جملہ لکھنے کی اِبتدائی تربیت کے باب میں یہ باتیں بہت اہم سہی مگر جو بھی لکھنے والا کہانی سے اس کی گییا(GYA) سے جڑ جاتا ہے اس پر وقت کو سیمابی بنالینالازم ہوجاتا ہے ۔ اور ہاں یہ گییا کا لفظ جو میں یہاں لکھ گیا ہوں اگر تمہیں چونکائے تو لغات میں مت تلاش کرنا کہ یہ مجھے بھی کہیں نہیں ملا ہے۔ کہتے ہیں یہ بھی سائنسی اِصطلاح ہے۔ میں نے کہیں پڑھی تھی؛کہاں؟ اب یاد نہیں،مگر ذہن سے چپکی ہوئی ہے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے،اس کی تشریح میں بتایا گیا تھا کہ ہر شے کا ایک نفس/mind ہوتا ہے جس کی وہ پابند ہوتی ہے۔ تو یوں ہے پیارے کہ کہانی کے اِس نفس سے جڑ کر لکھنے والا اُس اصل وقت کو گرفت میںلے لیتا ہے جس میں تجربے میں آنے والی ترتیب تباہ ہو جاتی ہے اور وجود کے آہنگ اوراور اس کی تاہنگ میں آیا ہوا وقت رواں ہوجاتا ہے۔ یوسا کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ مثالیں چن چن کر لاتا ہے؛ اگر توقاری نے فکشن کی اِن مثالوں کو پہلے سے پڑھ رکھا ہوتو سارا فن پارہ اپنی جزیات سمیت دمکنے لگتا ہے اور اگر نظر سے نہ گزری ہوں تو بھی اُس کا مدعا واضح ہو جاتا ہے ۔”بستہ وقت “، ”گاڑھا وقت“، ” زندہ وقت“، ”مردہ وقت “، ”عبوری وقت “،وغیرہ والی اصطلاحات کے تراجم خوب رہے۔ اس تقسیم کو پڑھتے ہی فوراً دِھیان اپنے ہاں کی موسیقی کے/ کی مختلف راگ/ راگنیوں کی طرف چلا گیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اِن کی اَپنی بھی ایک کہانی ہے ۔ ہم نے مشرقی موسیقی کے اس نظام سے بہت اثر قبول کیا ہے اور نتیجہ یہ نکلا کہ جاری وقت کے حوالے سے بھی ہماری حسیں کچھ فیصلے دِے دِیا کرتی ہیں ۔ آخر یہ جو ایمن، بھوپالی،ہمیر،کامود،شام کلیان،شدہ کلیان کے گانے کا وقت رات کا پہلا پہر ہے تواس کا بھی کوئی مطلب ہوگا۔ میاں کی ٹوڈی،گوجری ٹوڈی، سوہاکو آخر دن کے دوسرے پہر میں، جب کہ باگیشری کورات کے دوسرے پہر میںہی کیوں گایا جانا چاہیے؟ بات ان تہذیبی یا ثقافتی مظاہر تک آکررُک نہیں جاتی، ہم دعاﺅں اور عبادتوں کے لیے بھی اوقات کا لحاظ رکھتے ہیں۔ جادو ٹونا کرنا ہو یا تعویذ دھاگہ ہرکہیں وقت دھیان میں رہتا ہے ۔ دِھیان میں رہنے والا یہ وقت کہانی لکھتے ہوئے ہماری نفسیات پر غالب رہتا ہے لہذا اِسے بھی نفسیاتی تقسیم کی ذیل میں رکھنا ہوگا۔ ایک اورپُرلطف حوالہ تو میں بھولے جا رہا ہوں اور وہ ہے تصوف کا۔ اردو کہانی کا صوفی ٹائم مشین والے سائنس دان سے کہیں بہتر طریقے سے ایک وقت سے دوسرے وقت میں منتقل ہو سکتا ہے۔ اور اسے اردو فکشن میں موضوع بناکر قابل اِعتنا کہانیاں لکھی گئی ہیں۔ میمن جی،کیا مناسب نہ ہوگا کہ” خصوصی نقطے“ کو” خاص یا مرکزی نقطے“ سے بدل لیا جائے۔ خیر،” خصوصی“ میں بھی کوئی برائی نہیں ہے؛ مجھے بدل لینے سے ادائی میں سہولت ہو رہی تھی،اس لیے تجویز دے دی۔ میں ان ”خاص نقاط“ کو” ثقلی نقاط“ بھی کہہ سکتا ہوں کہ انہیں پر کہانی کا سارا بوجھ لدا ہوتا ہے۔ اور آخر میںمجھے بھی یوسا کی طرح کہہ لینے دو کہ تم نے مجھے رواں کردیا ہے۔ اگلی بار حقیقت کی سطحیں زیر بحث آئیں گی۔ یہ بھی میرا پسندیدہ موضوع ہے ۔ دیکھتے ہیں اس باب میں یوسا کا کہناکیا ہے؟


محبت کے ساتھ


_محمد حمید شاہد


اسلام آباد: ۷ مئی۸۰۰۲

No comments:

Post a Comment