Thursday, February 19, 2009

محمد حمید شاہد

پیارے محمد عمر میمن
آداب :


تم نے ای میل مکالمے کے اس دوسرے حصے کو بھی مرتب کرکے اس پر بھر پور مقدمہ لکھ دیاجس کے لیے مجھے تمہارا شکریہ ادا کرناہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یوں اس موضوع پر ہمارا مکالمہ کم ازکم اس مرحلے پر تمام ہوتا ہے ۔ وہ مباحث جوتم نے اس نئے مقدمہ میں اٹھائے ہیں ‘ وہ اپنی جگہ بہت اہم ہیں تاہم میں سمجھتا ہوں کہ ان پر میں پہلے ہی اپنے ڈھنگ سے مفصل بات کر چکا ہوں: مزید کسی وضاحت یا اضافے کی بہ جائے مناسب یہ ہوگا کہ اب دوسروں کو اس باب میں کچھ کہنا چاہیے۔ ہاں یہ جوتم نے اپنے آخری خط میں‘ مطالبہ کیاہے کہ ’مجھے یوسا کے ان خطوط کے حوالے سے ایک مضمون کی صورت میں مقدمہ قائم کرنا چاہیے ۔‘ تو اس بابت میرا یہ کہنا ہے کہ فی الحال میں یوسا کی تنقیدی فضا سے نکل آیا ہوں اور یہ بھی سمجھتا ہوں کہ اس پرجو بات میں کرنا چاہتا تھا ‘تمہارے نام اپنے خطوط میں کر چکا ہوں‘ اور جس صورت میں تم نے انہیں مرتب کردیا ہے ‘اس نے انہیں ایک مضمون میں ہی توڈھال دیاہے۔ تم نے کہا ہے کہ تمہیں وارث علوی کی تنقید اس لیے پسند نہیں آرہی کہ وہ غلبہ آور ہوتی ہے اور شمس الرحمن فاروقی کا قلم اس لیے بھلا لگتا ہے کہ وہ منطقی رہتا ہے تو یوں ہے پیارے کہ جب یہی منظقی شمس الرحمن فاروقی ’افسانے کی حمایت میں‘ منطقی وتیرے کو ایک طرف دھر کر شاعری کے مقابلے میں فکشن کو نیچادکھانے کے لیے زور قلم کا سہارا لے رہا ہوتا ہے یا پھر غلبہ آور تنقید والا وارث علوی منٹو کے افسانوں کاتجزیہ کرتے ہوئے منظقی ہوجاتا ہے تو کیا تب بھی تمہارا فیصلہ یہی رہتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ہر حال میں منطقی رہنا ادب کے باب میں کوئی بہت بڑی خوبی نہیں بنتی: بسا اوقات تہذیبی تناظر منطق کومات دے جایاکرتا ہے۔ فاروقی اور علوی ہوں یا عسکری اور شیریں جہاں جہاں وہ فکشن کی بھید بھری دنیا کو اس کے اپنے معیارات کے حوالے سے آنکنے کے جتن کرتے ہیں ہماری جھولی میں بہت کچھ ڈال جاتے ہیں اور جہاں جہاں وہ مغربی تنقیدی اصولوں کو عین مین اردو میں بھی برتنے پر اصرار کرتے ہیں یا دوسری اصناف( بل کہ مجھے ان کی اپنی محبوب اصناف کہنا ہوگا) کے اصولوں کو فکشن پر بے دریغ برتتے چلے جاتے ہیں: وہاں نہ ان کی منطق کا زور چلتا ہے نہ قلم کا فسوں بحال رہتا ہے۔ ہمارے ہاں تخلیقی معیاروں کو اسی صنف کے حوالے سے قائم کرنے کی بہ جائے کسی اور صنف یا زبان کے پہلے سے موجود ضوابط کی روشنی میں دیکھنے کی علت نے اردو فکشن کی تنقید کا مزاج نہیں بننے دیا ہے ۔ ہمیں پہلے تو یہ طے کرلینا چاہیے کہ ہمیں فکشن کے فن پاروں کو اس صنف کے اپنے معیاروں پر ہی جانچنا ہوگا۔ وہ معیارات جو شاعری کے لیے بنے یا وہ طریقے جو لسانی سطح پر کسی متن کو آنکنے میں ہماری مدد کو موجود ہوتے ہیں یہ سب جزوی طور پر ہی کارگر ہوتے ہیں ۔ آگے بڑھنے سے پیشتر جی چاہتا ہے کہ وارث علوی نے افسانے کے مطالعے کے لیے جن پہلووں کو اہم جانا تھا اس کی فہرست یہاں ٹانکتا جاﺅں : ”کہانی‘ پلاٹ‘کردار‘تمثیل‘ علامات‘ اساطیر‘ تیکنیک‘ تھیم‘ امیج‘استعارہ‘ مرقع‘تصویرگری‘ منظر نگاری‘ مقام‘ماحول‘فضا‘قدرتی اور تہذیبی پس منظر‘ موزونیت‘آہنگ‘ تضاد‘ تصادم‘ معروضیت‘ ڈرامائیت‘ لب ولہجہ ‘اسلوب‘بیانیہ‘لسانی ساخت‘ نقطہ نظر‘ جمالیاتی فاصلہ‘ طنز‘ ظرافتirony ‘ المیہ‘ طربیہ‘ نفسیاتی فلسفیانہ سماجی اخلاقی ڈائی منشن اور پھر موضوعات کے ان گنت ذیلی مباحث اور نکات“ ( افسانے کی تشریح :چند مسائل /وارث علوی) میں قبل ازیں بھی کہیں لکھ آیا ہوں کہ افسانے کے مطالعے کے لیے جو نسخہ وارث علوی نے افسانے کے ناقدین کے لیے تجویز کیا ‘ جب افسانے کی تعبیر کا معاملہ آیا تو وہ خود بھی اس پر کامل یقین نہ رکھ پایااور کہنے پر مجبور ہوا کہ ‘تعبیر” ایک خود سر ‘ خود پسندمغرور حسینہ ہے۔“ جب افسانے کی تعبیر اتنی خود سر ہے تو خود تخلیق کتنی اتھری ہوگی اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ہم اس پر بھی بات کرچکے ہیں کہ وارث علوی کی ترجیحات میں پہلے نمبر پر آنے والی ”کہانی “ کے بغیر ایک عرصہ تک کام چلایا جاتا رہا۔ تھیم اورپلاٹ کو عسکری نے اپنے افسانوں سے منہا کرکے دکھا دیا تھا اور بتا دیا تھاکہ یوں بھی افسانہ لکھا جاسکتا ہے۔ سوچو بھلا کہ کتنی کہانیوں میں تمثیل کاری ہوتی ہے؟ یا انہیں اساطیر سے جوڑا جاتا ہے؟؟۔ علامت کا معاملہ دلچسپ ہے ۔ سچ پوچھو تو ہر کام یاب کہانی مکمل ہونے کے بعد علامت کا فریضہ ہی تو سرانجام دے رہی ہوتی ہے ۔ میں بہ اصرار کہتا آیا ہوں کہ علامت کا وہ تصور جو ساٹھ اور ستر کے عشروں میں پروپیگنڈے کے زیر اثر ہر کہیں اچھالا جاتا رہا‘ اب تک مردود ہو چکاہے۔ رہ گئی امیج‘استعارہ‘ مرقع اورتصویرگری کی بات تو ان جیسے مباحث شاعری کا تجزیہ کرتے ہوئے تو مرکز میں رہتے ہیں افسانوں کو جانچتے ہوئے انہیں حاشیے پر جانا ہوتا ہے ۔ اردوفکشن کے اصول بنانے والوں نے اپنا سارا زور یا تومتن کی ترتیب پر صرف کیا یا پھر ان لسانی اور تیکنیکی حیلوں پر بحث مباحثے میں جت گئے جنہیں اس باب میں ایک حد تک کام میں لایا جاسکتا تھا:تخلیقی سطح پرکم کم ‘ اور فلسفیانہ یا نظری سطح پر زیادہ ۔ یوں تنقید تو دھانسو قسم کی بن گئی مگر تخلیقی عمل کے بھید وں کو اس تنقیدی دھول کے مرغولے نے ہماری دست رس میں نہ رہنے دیا۔ خیر میں نے اپنے آپ سے وعدہ کر رکھا ہے کہ ایک ڈیڑھ بات سے آگے نہیں بڑھوں گا۔ لہذا اپنی اس بات کو آدھے میں چھوڑ رہا ہوں۔ اس امید کے ساتھ کہ یوسا پر بات کرتے ہوئے ہم بڑی حد تک اس ناروا قسم کے تنقیدی غبارے کی ہوا نکال چکے ہیں : اب فکشن کے اصولوں پر براہ راست بحث مزید آگے بڑھ سکتی ہے ۔ میرا خیال ہے اب ہم دونوں کو اس بحث سے اس وقت تک الگ ہوجانا چاہیے جب تک کہ اس باب میں ہمیں رد نہیں کردیا جاتا یا پھر کچھ نئے سوالات نہیں اٹھائے جاتے۔ تمہارا ایک بار پھر شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ تم اس گفتگو کے محرک بنے اور اب انہیں دوسروں کے لیے مرتب بھی کر دیا ہے۔
__محمد حمید شاہد


اسلام آباد


:اگست ۲۰۰۸,۲۸


-×-×-×-×-

No comments:

Post a Comment