Saturday, February 21, 2009

کہانی اور یوسا سے معاملہ

Mario Vargas Llosa, Mohammad Umar Memon, Mohammad Hameed Shahid

فکشن: تیکنیکی بھید‘فنی لوازم اورنئے مباحث
محمد حمید شاہد:محمد عمر میمن
ماریو برگس یوسا
( Mario Vargus Llosa)
کی کتاب
Letters to a Young Novelist
اور اردو فکشن کے حوالے سے مکتوباتی مکالمہ

ابتدائیہ1:کہانی اور یوسا سے معاملہ


ابتدائیہ1:کہانی اور یوسا سے معاملہ
ماریو برگس یوسا
( Mario Vargus Llosa)
کی کتاب
Letters to a Young Novelist
اور اردو فکشن کے حوالے سے محمد حمید شاہد اور محمد عمرمیمن کے درمیان ہونے والا ایک مکتوباتی مکالمہ

محمد عمر میمن

یوسانے اپنی کتاب ”نوجوان ناول نگار کے نام خطوط“میںفکشن کی فنّی عملیات سے بحث کی ہے جس کے ذریعے وہ تخیلی دنیا تخلیق ہوتی ہے جواپنے حسنِ ترغیب (یا قوتِ تاثیر)کے باعث کاملاً غیر حقیقی یا تخیلی ہونے کے باوجود حقیقی دنیا کا التباس پیدا کرتی ہے؟کتاب میں کل بارہ خط شامل ہیں۔ پہلے دو خطوں میں یوسا اپنے نوجوان مخاطب کو ان فنّی لوازمات سے آگاہ کرتا ہے جو اس کی دانست میں کسی اچھے ناول کی اساس ہوتے ہیں۔ تیسرے خط میں وہ ”قوّتِ ترغیب“ سے بحث کرتا ہے،جس پر فکشن کی کام یابی کا دارومدار ہوتا ہے۔ لیکن فکشن کی وہ صلاحیت جو نیرنگِ خیال پر حقیقت کا دھوکا دلاتی ہے، اس کے اجزاے ترکیبی کیا ہیں؟ اگلے آٹھ خطوں میںان اجزا پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ یہ اجزاے ترکیبی یا رموز، علی الترتیب،یہ ہیں: ”اسلوب“، ”راوی اور بیانیہ مکان“، ”زمان یا وقت“، ”حقیقت کی سطحیں“، ”انتقالات اور کیفی زقندیں“، ”چینی ڈبّے یا روسی گڑیاں“، ”پوشیدہ حقیقت“، اور”کم یونی کیٹنگ وَے سِلز“۔ آخری خط ، ”بہ طورِ پس نوشت“، میںیوسا مشورہ دیتا ہے کہ پچھلے سوا سو صفحوں میں جو کچھ کہہ چکا ہے ا سے دریا برد کردیا جائے اور ناول لکھنا شروع کردیا جائے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ تنقید، چاہے کتنی ہی سخت گیر اور وجدانی کیوں نہ ہو، امرِ تخلیق کی مکمل توجیہہ کرنے کی اہل نہیں ہوتی۔ ایک کام یاب فکشن یا نظم میں ہمیشہ ہی ایک عنصریا بُعد ایسا ہوتا ہے جو عقلی تنقیدی تجزیے کی گرفت میں نہیں آسکتا۔ اس کتاب میںمکتبی تنقیدکا جبرنہیں، رسمی زبان کا قبض بھی نہیں، اگر کچھ ہے تو یہ ایک اول درجے کے تخلیقی فن کار کی متانت، اعتماد، اور انساینت ساز انکساری ہے، جو تنقید کا منکر نہیں لیکن جو پاسبانِ عقل کو کبھی کبھی تنہا چھوڑدینے کی دل نواز ضرورت سے بھی آگاہ ہے۔یہ کتاب میں نے دو تین سال پہلے پڑھی تھی اور اسی وقت سے اس کے ترجمے کاخیال رہا تھا، جو اب میں نے کرلیا ہے۔ پوری کتاب جانے کب چھپے، فرشی صاحب نے عنایتاً اسے اپنے ”سمبل“ میں قسط وار چھاپنے کی ابتدا کردی ہے۔ پہلے دو خط وہاں چھپ چکے ہیں۔انھیں پڑھ کر محمد حمید شاہدصاحب کو ان پر کچھ کہنے کی تحریک ہوئی اور انھوں نے فکشن کے بارے میں اپنے خیالات کا نچوڑاپنے خطوط میں پیش کردیا ہے۔ ان خطوں کو پڑھ کر مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ یہ کہیں چھپ جائیں تاکہ یوسا نے جن نکات کا اظہار کیا ہے اور جس طرح شاہد صاحب نے ان پر مزید بحث کی ہے، خاص طورپر اردو کے ہمارے مقامی اور معاصرمنظر نامے کی رعایت سے، اس سے ہمارے اردو داں طبقے کو بھی کچھ فائدہ پہنچے۔ سوان کی اور میری مراسلت حاضر ہے۔ اس مراسلت کو ”مکالمے“ سے زیادہ ایک ”خود کلامیہ“ کہنا چاہیے، کیوں کہ اس میں میرا کردار بس واجبی سا ہے۔ایک تابعِ مہمل کا۔ اس برات کے اصلی دلھا میاں تو شاہد صاحب ہیں، مجھے زیادہ سے زیادہ وہ جسے مغرب میں دلھا کا ”بیسٹ مین“کہا جاتا ہے، بس وہی سمجھا جائے، یا نوشے کا برادرِ خورد جسے بھی، کبھی کبھی، دل رکھنے کی خاطر، گھوڑے پر بٹھا لیا جاتا ہے۔انھیں پڑھ کر میری طرح آپ بھی شاہد صاحب کے ادب سے سنجیدہ لگاو اور تفاعل، غیر معمولی لگن اور اس کے مباحث کی بابت ان کی تیز فہمی کے قائل ہوجائیں گے۔

—محمد عمر میمن میڈیسن‘ امریکا

2: ادیب اور معاشرتی قدرومنزلت


ادیب اور معاشرتی قدرومنزلت

محمد حمید شاہد

پیارے عمر میمن

:آداب‘

بھئی اتنی ساری پُرلطف باتیںتمہاری طرف سے اوپر تلے ہو گئیں کہ مزا آگیا۔ روزسوچتا ہوں‘ تمہارا شکریہ ادا کروں گا؛ روز سوچتا رہ جاتا ہوں اور ڈھنگ سے فراغت نہیں پاتا کہ تفصیل سے لکھ پاﺅں ۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ جو میں اب روا روی میں چند سطریں گھسیٹنے بیٹھ گیا ہوں ،اس سے حق ادا نہ ہوگا ۔ ”سمبل“راول پنڈی ،میں ماریو برگس یوسا نے درست کہا ہے:”” جو لوگ ادبی لگن سے سرفراز ہیں وہ اس کے تخلیقی تجربے کو ہی اپنا انعام گردانتے ہیں ۔“ یہ اور اس طرح کی پرلطف باتیں تم ترجمہ نہ کرتے تو میرادِھیان اِن کی طرف کیسے جاتا؟ اور اگر جاتا بھی تو شاید بہت دیر ہو جاتی ۔ رات ایک کہانی لکھنے بیٹھا تو جانتے ہو میں ماریو برگس یوسا کی اس عام سی بات کے اتنا زیر اثر تھا کہ لکھنے کے دوران عجب طرح کا لطف لیتا رہا۔ تو یوں ہے کہ جو تراجم تم نے کیے اور جس تواتر سے کیے ان کی بابت سوچتا ہوں تو تمہارا احسان ماننا پڑتا ہے۔ تم نے نہ صرف اُردو اَدب کا دامن مالا مال کیا ہمیں بھی اپنے تجربے میں شامل کیا ہے۔ ماریو برگس یوسا کے نوجوان ناول نگار کے نام خطوط پڑھتے ہوئے بار بار میں نے اپنے بارے میں سوچا ہے کہ آخر میں نے کب ڈھنگ سے کوئی خط لکھا تھا ؟ کبھی نہیں ۔ ہاں کبھی نہیں ۔ مجھے خط لکھنا آیا ہی نہ تھا کہ ادھر ٹیلی فون پر بات کرنے کا زمانہ آگیا ۔ پھر ای میل کی سہولت نے تو میرے مزاج بگاڑ کر رکھ دیے ہیں ۔ اب ایک مدت کے بعد خط لکھنے کا خیال آیا تو ڈھنگ سے اس کا مضمون سوچنے کی مہلت اور اسے ایک ترتیب سے لکھ لینے کی للک بہم نہ ہو رہی تھی۔ بھئی اب اگر اس خط کی عبارت جگہ جگہ سے اُچٹی ہوئی معلوم ہو تو مجھے معاف کر دینا۔ ماریو برگس یوسا کی یہ بات کہ:” ادیب کی معاشرتی قدرومنزلت الل ٹپ ہوتی ہے“ مجھے بجا لگتی ہے اور یہ بھی کہ ادیب اپنے بھیتر میں اور بہت گہرائی میں چیزوں کو محسوس کرنے لگے،اسی کو طرزحیات بنالے تو بات بنتی ہے۔ فکشن کے حوالے سے اس کی یہ بات کہ:” یہ بغاوت کا نام ہے“کتنی حیرت انگیز مگر کتنی مناسب اور برحق ہے ۔ اگر لکھنے والا بالکل ویسی ہی زندگی پر قناعت کرلے جیسی کہ وہ دیکھتا اور برتتا ہے اور اس سے بغاوت نہ کرے تو کہانی کا اختراع ممکن نہیں رہتا۔ کم از کم میرے ہاں تو یہی ہوتا رہتا ہے ۔ ایک مسلسل اضطراب نے مجھے کہانی کی طرف راغب کیا اور یہی اضطراب مجھے لکھنے کے لیے اُکساتا ہے۔ ایک اور چیز جو اِس مقام پر مجھے کہہ دِینا ہوگی،یوں ہے کہ محض دِل بہلانا اور یوں ہی کسی منظر ، واقعے یا حادثے کو لکھ لینا ،لکھنے کے باب میں ریاض کا درجہ رکھتا ہوگا،ضرور رکھتا ہوگا مگر ایک فکشن نگار جس ڈھنگ اور اسلوب حیات کو اپنا لیتا ہے اس میں زندگی کو عمومیت اور بوسیدگی سے بچالینے کا چلن بنیادی وتیرہ ہوجانا چاہیے۔ شاید اِسی لیے لکھنے والے کا اپنے وجود کے اضطرابی آہنگ سے جڑنا لازم ہوجاتا ہے ۔ اوہ بھئی ایک بار پھر— اور اس بار میلان کنڈیرا کی تحریر— تو یوں ہے پیارے کہ بہت پہلے ”وجود کی ناقابل برداشت لطافت“ کو پڑھا تھا اور اپنے ایک مضمون میں اس کی بابت کچھ لکھا بھی تھا۔ اس پر بنی ہوئی فلم دیکھی تھی اور حال ہی میں اس پر ڈاکٹرضیاءالحسن کا مضمون ”سمبل “ہی میں پڑھا ۔ اب تمہارا ترجمہ پڑھتا ہوں تو مجھے اچھا لگتا ہے۔ جی چاہتا ہے تم اسے مکمل چھپوا دو۔ کئی لوگوں سے میں نے تمہارے اِس ترجمے کی بہت تعریف سنی ہے ۔ لوگ پڑھ رہے ہیں، تمہاری طرف متوجہ ہیں اورمجھے اس میں مزا آرہا ہے۔ تم نے شاندور مارئی سے ”دنیا زاد“ میں ملاقات کروائی تھی۔ اب آصف فرخی کراچی سے آیا تو کتاب ”انگارے“دے گیا ہے۔ بھئی تم تو کمال ہمت اور مزاج رکھتے ہو۔ میں تمہارے اِنتخاب کی داد دیتا ہوں ۔ شاندور مارئی کو جہاں پڑھنا اچھا لگا ،وہیں میں اس بات کو بھی ماننے لگا ہوںجو نیر مسعود نے کہی ہے کہ پورے ناول کے لیے تم نے الگ زبان وضع کر لی ہے۔ تم نے اپنے ایک گزشتہ ترجمہ کے ذریعہ مجھ سے افسانہ (”چٹاکا شاخ اِشتہا کا“، مطبوعہ” سمبل“)لکھوا لیا تھا اور اب میرا جی چاہتا ہے کہ ایک اِعتراف تمہیں پیش کروں اور وہ یہ ہے کہ تم یہ جو ترجمہ کرتے ہوئے اپنی زبان کا محاورہ نہیں بھولتے ‘سچ پوچھو تو ہم جیسوں کا دِل اَپنی مٹھی میں کرلیتے ہو۔ نئی نئی تراکیب کا سوجھنا اور اِن ترکیب کو متن میں یوں رکھ دینا کہ اپنی نشست پر ٹھیک ٹھیک بیٹھ جائیں،تحریر کو نیا بنا دیتا ہے۔ خوب بھئی خوب۔ایک رسید اور:یہ رسید ہے ”سالنامہ دراسات اُردو“ کی ۔ تف ہے مجھ پر کہ یہ تحفہ ملا تھا تو اِس پر ندیدوں کی طرح جھپٹ پڑا تھا اور ایک آدھ روز میں اسے یوں چاٹ کر اُٹھا جیسے سیونک لکڑی چاٹ جاتی ہے مگر تمہیں رسید تک نہ دی۔ ایک دفعہ پھر : خوب بھئی خوب۔لو، خط لمبا ہوگیا ۔ اس باب میں بہت سی بات ہونی ہیں لیکن پھر سہی کہ جس سلیقے سے بات کرنے کا ”سالنامہ دراسات اردو“ کی طرف سے تقاضا ہے وہ اب دست رس میں نہیں رہا ۔ادھر کے تمام احباب کو میری طرف سے آداب ہو۔ اسلام آباد کے لیے کارلائق ہو تو بے دھڑک کہو۔

تمہارا

محمدحمیدشاہد

اسلام آباد : ۱۱ اپریل، ۸۰۰۲

محمد عمر میمن

حمید شاہد صاحب
السلام و علیکم
میں تو مایوس ہو چکا تھالیکن،بہ ہر حال، آپ نے اپنی خوش گوار دل نوازی سے چونکا دیا۔ حضرت،اگر آپ نے خط رواروی میں لکھا تھا،تو خدا آپ کو سلامت رکھے اور اس کا زور فزوں تر کرے ۔ آپ نے خط کیا لکھا ہے،داد و تحسین کا ایک سیل رواں جاری کر دیا ہے۔ میں تو اس روانی بے دریغ میں گردن گردن نہا گیا(جی تو چاہتا ہے لکھوں: دودھوں نہا گیا )۔ بھئی مجھے نہیں معلوم تھا کہ آپ کو یہ تراجم اتنے بھا جائیں گے، ورنہ سارے کام چھوڑ کر صرف ترجمے ہی کرتا۔ مجھے کوئی خبر وبر ملتی نہیں کہ ان سے کسی کا بھلا ہو رہا ہے،ہاں ”ڈان “دیکھنے پر اندازہ ہوتا ہے کہ ایک سے ایک عبقری جتا ہوا ہے اور آئے دن شا ہ کار تولد کیے جار ہے ہیں۔ اور اب آپ رائے دینے پر آئے ہیں تو اس کے وفور کو دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ آپ محسوس صادقہ لکھ رہے ہیںیا،جیسے یہاںکہا جاتا ہے،مجھ بے چارے کی ٹانگ گھسیٹ رہے ہیں۔آپ کو یوسا کے خطوط پسند آئے ۔ مجھے اندازہ نہیں تھاکہ آپ ان سے اس درجہ متاثر ہوں گے ۔ لیکن اچھی بات ہے کہ انھیں کم از کم ایک سنجیدہ قاری تو ملا۔ بھائی، انہیں ”سمبل“ میں چھپوانے کا یہ ہے کہ پوری کتاب، جو بارہ خطوں پر مشتمل ہے، میں نے سال بھر پہلے ترجمہ کرلی تھی۔ میں نے فرشی صاحب کوپیش کش کی تھی کہ ہر شمارے میں چند خطوط شائع کردیا کریں ۔ وہ کنڈیرا کے ناول کا ایک حصہ ہرشمارے میں چھاپنے کے لیے تیار ہو گئے لیکن لکھا کہ یوسا کو تسلسل سے ہر شمارے میں طبع کرنے کی بہ جائے کبھی کبھار چھاپنا پسند کریں گے ۔ میں امریکا میں ۴۴ سال سے ہوں۔ یہاں سانس بھی انگریزی میں لینی پڑتی ہے،ورنہ حقہ پانی بند ہو جائے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اردو بھولتا جارہاتھا۔ سوچا ترجمے ہی کرو۔ اردو کی بھی بازیافت ہوجائے گی اور وقت بھی اچھا گزر جائے گا۔ سو یہ پچھلے دوسال کتابوں اور ادیبوں کے ساتھ بڑی طویل صحبت میں گزرے ہیں ۔ میں نے کوئی آٹھ دس ناول ترجمہ کرلیے ہیں،چند مضامین وغیرہ بھی۔ مصیبت یہ ہے کہ انہیں کہاں چھپواﺅں ۔ آصف کا بھلا ہو کہ انھوں نے چار کتابیں چھاپ دیں ۔ وہ سبھی چھاپنے کوتیار ہیں ۔ لیکن کیا کروں،اپنی جمالیاتی حس کا مارا ہوا ہوں۔ مجھے ان کی چھاپی ہوئی کتابیں صوری اعتبار سے پسند نہیں آئیں ۔ کچھ ”بھاگتے کی لنگوٹ والا“ مضمون نظر آیا ۔ وہ اتنے مصروف آدمی ہیں کہ اس سلسلے میں شاید کچھ کرنا چاہیں تو بھی کچھ نہیں کرسکتے۔ سو یہ تراجم کیبنیٹ میں پڑے خاک پھانک رہے ہیں۔ اب میں ایسا سورما بھی نہیں کہ چھپوانے کے لیے کوہ قاف جا پہنچوں،بس بساط بھر اپنے مقامی کے ۔ٹو کی ترائیوں میں چہل قدمی کر آتا ہوں ۔ سوچتا ہوں،ترجمہ کرنے سے میرا مقصد تو پورا ہوگیا (خوش وقتی اور زبان کی کسی قدر بازیافت )، اب یہ چھپیں نہ چھپیں کیا فرق پڑتا ہے۔ خیر،میں جو کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اگر یہ آسانی سے اور سلیقے سے چھپ جائیں تو تھوڑی بہت دوڑ دھوپ کر سکتا ہوں،ہفت اقلیم سر کرنے کا یارا اور ہمت نہیں اور نہ اپنے جسم ناتواں کو دیکھتے ہوئے اس کا بیڑا ہی اٹھایا ہے۔ اگر آپ کو کسی پبلشر کا علم ہو تو بتائیں، اس سے بھی رجوع کرکے دیکھ لیا جائے۔ لیکن میری کچھ شرطیں ہوں گی،جن میں مال وال شامل نہیں ہوگا۔ کچھ مل گیا تو ٹھیک، نہ ملا تو وہ بھی ٹھیک۔ میں نے الحمرا کی چند مطبوعات دیکھی تھیں اور وہ کم از کم صوری اعتبار سے پسند آئیں ۔ میں نے شفیق ناز صاحب کو الحمرا کی ویب سائیٹ پردےے ہوے پتے پر ای۔میل بھیجی تو اس کا جواب نہیں آیا ۔ ان کے ذاتی ای ۔میل کا پتا میرے پاس ہے نہیں۔ ایک زمانے میں، جب ابھی الحمرا کاکام شروع نہیں ہوا تھا، انھوں نے مجھے کئی بار فون کیا تھااور ای۔میل بھی بھیجے تھے ۔ میں نے جواب بھی دیے تھے۔ لیکن ڈھونڈا تو پتا ملا نہیں ۔ سو میں نے اپنی کر دیکھی، اس سے زیادہ کی استطاعت کی توفیق میرے خالق نے مجھے دی نہیں۔بھائی ،چوں کہ اشاعت وغیرہ کا ذکر چل نکلا ہے، آپ کو اگر چند معتبر اور معیاری جرائد کا علم ہو تو بتائیں، میں تراجم کے چند ٹکڑے انھیں بھیج دوں گا۔ اس طرح کچھ چیزیں لوگوں کے مطالعے میں آجائیں گی۔ اس فہرست میں آپ”بازیافت“ کو شامل نہ کیجئے گا۔ اس کے مدیر صاحب مجھ معصوم کے ساتھ بڑی اخلاق سوز ایکٹیوٹی کرچکے ہیں۔ آپ نے اپنے خط میں ” سمبل“ میں ضیا الحسن صاحب کے میلان کنڈیرا اور ”وجود “ پر کسی مضمون کا ذکر کیا ہے ۔ یہ ”سمبل“ کی کس اشاعت میں شامل ہے ؟ (نئے شمارے میں تو نہیں)۔ میں بھی تو دیکھوں کہ کیا کہا گیا ہے۔ اس پر یاد آیا ‘ میں نے ”وجود“ کا جو عنوان پہلے رکھا تھا(”وجود کی ناقابل برداشت لطافت“) اب بدل دیا ہے۔ نیا عنوان ”وجود کی لطافت ‘جو اٹھائے نہ بنے“ ہے۔ یہی عنوان ناول کی دوسری قسط پر ہے جو ابھی حال ہی میں نے فرشی صاحب کو بھیجی ہے۔[فرشی صاحب کی رائے پر پرانا عنوان ہی رہنے دیا ہے۔] میں نے کنڈیرا کے ایک اور ناول کا ترجمہ بھی کر ڈالا ہے ۔ اس کا عنوان رکھا ہے ”ہنسنے ہنسانے اور بھول جانے کی کتاب “۔ ”ادھر کے تمام احباب کو میری طرف سے آداب ہو“ آپ نے لکھا ہے ۔ بھئی یہ ادھر کون سے احباب ہیں جنھیں آداب بھجوا رہے ہیں؟ میڈیسن میں تو میرے سوا آپ کا کوئی”احباب“ نہیں ۔ اور اگر آپ کی مراد شمالی امریکا میں مقیم (عارضی یا تاابد) پاکستانیوں کی آبادی سے ہے ،تو میں اس ریوڑ سے نا آشنا ہوں ۔ کل سے آج تک ۴ پاکستانی احباب کے ای ۔میل ملے کہ ذی شان ساحل اٹھ گئے۔ کیا قافلہ جاتا ہے کیسا معصوم اور تروتازہ شاعر تھا! غالب یاد آتا ہے:
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے میرا خیال ہے یہ میرا خط بھی کچھ ضرورت سے زیادہ طویل ہو گیا ہے۔ اس کی ایک وجہ ہے۔ میں نے اسے لکھنے سے ذرا پہلے ہی دو دن لگا کر جاپانی محقق تشی ہیکوازتسو کی کتاب Creation and the Timeless Order of Things کے چوتھے باب کا ترجمہ ختم کیا ہے ، جس کا عنوان،ترجمے میں ”عین القضات ہمدانی کی فکر میں تصوف اور لسانی تشابہ کامسئلہ“ ہے۔ یہ بڑی معرکة الآرا چیز ہے ۔ روح ابھی تک اس سرشاری کے عالم میں ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ زبان بھی رواں ہوگئی ہے۔ میں نے سوچا کہ اپنی عادی چپ کے گھونگے میں لوٹنے سے پہلے ہی آپ کا قرض ادا ہو جائے، ورنہ آپ دو سطری خط پاکر مجھ پربے مروت ہونے کا الزام دھریں گے۔ سو اپنی آبرو بچانے کی خاطر یہ لن ترانی ہو رہی ہے۔ سمع خراشی کے لیے معافی چاہتا ہوں ۔


مخلص


محمد عمر میمن


میڈیسن : ۳ ۱اپریل‘۸۰۰۲

3: اعصاب کی تانت اور تنقیدی مباحث


اعصاب کی تانت اور تنقیدی مباحث