Saturday, February 21, 2009

محمد عمر میمن

برادرم حمید شاہد

السلام علیکم۔

بے حد مفصل خط ملا۔ شکریہ۔ میری تو سمجھ میں نہیں آتا کہ جواب میں لکھوں تو کیا لکھوں۔ ہنوز آپ کے باریک بین مطالعے اور جس عقیدت اورسنجیدگی سے آپ ادب کے سامنے دو زانو ہوکر بیٹھتے ہیں اسی پر حیرت کررہا ہوں۔ کاش ہمارے بیش تر پڑھنے اور لکھنے والوں کو آپ کا چلن آجائے! مجھ پر تو آپ کے وسیع مطالعے کا اچھا خاصا رعب جم گیا ہے۔ آپ کے مقابلے میں بہت کم پڑھا لکھا آدمی ہوں۔ اور یہ میں مشرقی کسرِ نفسی کے کسی دورے کی گرفت میں آکر نہیں لکھ رہا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ میرا مطالعہ کافی محدود ہے۔ پھر تنقید ونقید مجھے فطری طور پر بھاتی بھی نہیں۔ خیر، اب ایسا بھی نہیں کہ تنقید سے بالکل ہی استغنا برتتا ہوں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ تنقید بھی اسی قسم کی پسند آتی ہے جس میں تخلیقی تجربے کا نچوڑ ہو۔ یوسا کے خطوط مجھے اسی لیے پسند آئے تھے۔ رولاں بارتھ قسم کی مخلوق مجھ سے ہضم نہیں ہوتی۔ سو آپ نے اگر مجھ سے اپنے اٹھائے ہوئے نکات کے سلسلے میں کسی وافی و شافی بحث کی توقع کی تھی تو آپ کو مایوسی ہوگی۔ مجھے اس کا افسوس ہے، لیکن میں وہی ہوں جو ہوں۔ اپنے آپ کو بدلنا چاہوں تو بھی نہیں بدل سکتا۔ اگر کوشش کی تو منہ کی کھانی پڑے گی۔ اس عمر میں آپ مجھے رسوا ہوتا ہوا دیکھ کر خوش تو نہیں ہوسکیں گے۔ مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ آپ کو بھی یوسا کی باتیں پسند آئیں۔ اس سے بہت ہمت بندھی۔ آپ نے کردار کی روح میں اتر جانے والی بات خوب کہی ہے۔ بالکل، ایسا ہی ہونا چاہیے۔بھائی میں خود بھی ووکیشن کے لیے ”شغل“ کے استعمال سے مطمئن نہیں ہوں۔ سلیم الرحمٰن گواہ ہیں، میں نے ان سے بھی اس سلسلے میں مدد لی تھی۔ چکر یہ ہے کہ اول تو میری اردو بے حد ناقص ہوچلی ہے، اور پھر بعض اوقات اردو میں مناسب مترادفات ملتے بھی نہیں۔ بھئی آپ مجھ سے تکلف وغیرہ نہ کیا کریں۔ اگر آپ کو کوئی بہتر لفظ معلوم ہو تو بتائیں۔ یوسا والی کتاب میں یہی ایک لفظ نہیں ہے جس نے مشکل پیدا کی، کئی اور بھی ہیں۔ میں آپ کو اس خط کے ساتھ یوسا کے اگلے تین خطوط بھیج رہا ہوں۔ آپ پڑھیے اور اگر کہیں بہترلفظ مل جائیں تو فوراً مطلع کیجیے۔ احسان ہوگا۔ ایک بات اور: ان پر ایک اور نظرِ ثانی واجب ہے۔ جہاں جہاں دوسری زبانوں سے اسم معرفہ یا عنوانوں کے نام استعمال ہوئے ہیں، وہ اردو میں اپنے ہجوں کے لحاظ سے مستند نہیں۔ میں اس سلسلے میں ایک صاحب سے مدد لینے والا ہوں، اور پھر انھیں درست کروں گا۔ لیکن جہاں تک متن کے ترجمے کا تعلق ہے، میرے خیال میں آپ اس پر کم و بیش بھروسا کرسکتے ہیں۔اب ایک مزے کی بات سنیے: جس دن آپ کا خط ملا اسی دن فرشی صاحب کاخط بھی آیا۔ لکھا کہ پہلے بعض وجوہ کی بنا پر انھیں یوسا کے خط ”سمبل“میں قسط وار چھاپنے میں تامل تھا ، لیکن لوگوں نے پہلے دو خطوں کو کافی پسند کیا ہے اور اب وہ تین خط اگلے شمارے میں اور چھاپنا چاہتے ہیں۔ واﷲ، اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ یہی خط میں آپ کو بھیج رہا ہوں۔ آپ سب سے پہلے پڑھ لیں گے۔ دیکھا آپ نے، دوستی کام آگئی۔ آپ کو یوسا کی اس بات سے اختلاف ہے کہ ”فکشن ایک ایسی چیز ہے جو سچی نہیں تاہم سچی ہونے کا سوانگ بھرتی ہے۔“ میرے خیال میں تو یہ اختلاف کی بات نہیں۔ جہاں تک میں اسے سمجھ سکا ہوں، وہ صرف یہ کہنا چاہتا ہے کہ فکشن تخیل کا کارخانہ ہے۔ اس لحاظ سے اسے حقیقت نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن اس کا کمال یہ ہے کہ یہ اپنی قوتِ ترغیب کے زور پر حقیقت نظر آنے لگتا ہے (یا ایک متبادل حقیقت وضع کرتا ہے جو کسی لحاظ سے بھی حقیقی حقیقت سے قدرو قیمت میں کہتر نہیں ہوتی)۔ اصل میں یہ بحث زیادہ تفصیل سے ”قوتِ ترغیب“ والے خط میں ہوئی ہے، اور وہ میں آپ کو بھیج رہا ہوں۔ آپ کا قول بھی اپنی جگہ پر درست ہے: ”فکشن وہ عظیم سچائی ہے جو زندگی کے عمومی سچ پر حاوی ہوجاتی ہے۔“ میں بس ایک لفظ کا اضافہ کروں گا: “کام یاب“ (کام یاب فکشن الخ)۔ اگر یہ اضافہ کرلیا جائے تو پھر قوتِ ترغیب والی بات سمجھ میں آنے لگتی ہے۔آصف فرخی صاحب لکھتے ہیں کہ تازہ “دنیا زاد“ نکل آیا ہے۔ اس میں میراکیا ہوا ایک جاپانی محقق کا ترجمہ شامل ہے۔ ذرا پڑھیے گا۔ مجھے تصوف کی مابعدالطبیعیات سے عشق ہے۔ ہوسکتا ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ عمر بڑھتی جارہی ہے۔ امید ہے کہ آپ بہ خیروعافیت ہوں گے۔

والسلام

محمد عمر میمن

میڈیسن : ۴۲ اپریل ۸۰۰۲

No comments:

Post a Comment