Friday, February 20, 2009

محمد عمر میمن

برادرم حمید شاہد
السلام علیکم۔
آپ کے دو بے حد مفصل خط ملے۔ شکریہ۔ گزشتہ ہفتہ یہاں کلاسوں کا آخری ہفتہ تھا اور اب امتحانات کی ریل پیل ہے۔ جواب دینے میں تاخیر کا سبب یہی پیشہ ورانہ مصروفیات رہیں۔ اس سے پہلے کہ بات میرے ذہن سے نکل جائے، میں اسی برقی خط کے ساتھ ایک فائل منسلک کررہا ہوں۔ اسے پڑھ کر اس کی اشاعت کے لیے کوئی مناسب جریدہ تجویز کریں۔ اس کا موضوع ایسا ہے جس سے آپ کواور مجھے تو دل چسپی ہوسکتی ہے، ہمارے ادبی رسائل کے عام قارئین کو مشکل ہی سے ہو۔ ان میں سے بیش تر تو اسلاف کے ذہنی ورثے کو مدتیں ہوئیں دریا برد کرچکے ہیں۔ ویسے اس مضمون کا صحیح مقام تو یہی ادبی رسائل ہیں کہ وہاں اسے پڑھ کر ہمارے یہاں کے عبقریوں میں جو بے حسی پیدا ہوگئی ہے اس میں تحریک کی رمق پیدا ہو۔ یہ میں اس لیے کَہ رہا ہوں کہ ازتسو کا جو مضمون ”دنیازاد“ کے تازہ شمارے میں شامل ہے، اس کی اشاعت کے سلسلے میں بھی آصف صاحب کو پس و پیش سی تھی۔ اور منسلکہ مضمون تو لوگوں کو شاید اور بھی دقیانوسی نظر آئے۔منجملہ دیگر مضامین کے مجھے اسلامی فلسفے اور تصوف کی مابعد الطبیعیات سے بھی دل چسپی ہے۔ بڑے دنوں سے میری خواہش چند مضامین کا ترجمہ کرنے کی تھی۔ اب کہیں جاکر ان میں سے بعض کا ترجمہ کرلیاہے، اور انھیں میں کا ایک آپ کو بھیج رہا ہوں۔میری خاطر اسے پورے کا پورا پڑھ جائیے۔ایک بات اور پوچھتا چلوں: ”دنیازاد“ کے تازہ شمارے میں، جس میں ازتسو کا مضمون شامل ہے، کیا میرے کچھ اور تراجم بھی ہیں؟ پرچہ میرے پاس ہنوز نہیں پہنچا ہے اور خدا جانے کب پہنچے۔ میں نے چند اور تراجم بھی آصف صاحب کی فرمائش پربھیجے تھے۔ پتا نہیں وہ انھوں نے شامل کیے یا نہیں۔بھائی، آپ کے ساتویں خط نے مجھے جس الجھن میں ڈال دیا ہے وہ آپ کے ”مہملیت“ سے متعلق خیالات ہیں۔ بل کہ یوں کہنا چاہیے کہ آپ کی بات کی معنویت یا اس کی ضرورت میری سمجھ میں نہیں آرہے ہی۔ناول میں زندگی کی ”مہملیت“ کو ئی مجرد شے نہیں ہوتی کہ جس پر صرف نظریاتی اعتبارسے گفتگو کی جاسکے۔ ہوسکتی ہے، لیکن اس پر بحث صرف فلسفے کے نقطہ¿ نظر سے ہوسکتی ہے ۔ ناول میں زندگی کی ”مہملیت“ کوئی مجرد شے نہیں ہوتی بل کہ لکھنے والے کی ناولی تیکنیک یا تعمیری آلات کا جز۔ اسے یوں سمجھیں، کوئی واقعہ فی نفسہ مہمل ہوسکتا ہے لیکن ناول میں اس کی مہملیت سے کچھ اور اجاگر ہوتا ہے، سو آپ چاہیں تو اسے فی نفسہ مہمل لیکن بالفعل فائدہ مند یا پر معنیٰ کَہ لیں، کیوں کہ موخر الذکر صورت میں یہ ناول (کردار، موضوع، وغیرہ) کی معنویت کا جزِ لاینفک ہوتا ہے۔ اگر آپ بھی یہی کَہ رہے ہیں تو میں آپ سے متفق ہوں، اگر کچھ اور، تو بھائی، میں موٹی عقل کا آدمی ہوں، ذرا اوراختصار سے سمجھا دیں۔راوی ان معنیٰ میں ضرور آزاد ہے کہ اچھا لکھنے والا یہ ظاہر نہیں ہونے دیتا کہ اس کا راوی آزاد نہیں، وہ اس کے آزاد ہونے کا صرف التباس ہی پیدا کرتا ہے۔ ”میں جس راوی کی بات کر رہاہوں وہ تخلیق کار نہیں ہوتا مگر اُس سے جدا بھی نہیں ہوتا۔“ یہ تو ٹھیک ہے، لیکن یہاں یہ ذہن میں رہنا چاہیے کے یوسا کے مطابق ایسے ”راوی“ یا ”راوی-کردار“ کا وجود تخلیق کے باہر نہیں ہوتا ، صرف ناولی زمان و مکان یا ناول کے دورانیے ہی میں ہوتا ہے۔ تخلیق کار کا، بہ ہر حال، اپنا ذاتی وجود ہے جو تخلیق کے باہر خارجی دنیا میں اس کے طول العمر برقرار رہتا ہے جس میں وہ چاہے تو دوسرے ناولی زمان و مکان میں دوسرے راوی اور راوی-کردار تخلیق کرسکتا ہے، جو خود اس ناول کے دورانیے کے باہر زندہ نہیں رہ سکتے۔آٹھویں خط میں بھی میری مشکل یہی ہے کہ میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ آپ یوسا سے اختلاف کررہے ہیں یا اتفاق۔ جہاں تک میں یوسا کو سمجھ پایا ہوں، وہ صرف یہ کہہ رہا ہے کہ physicalوقت (زمان)، جو یہی گھڑی کا وقت ہے جو آگے کی طرف حرکت کرتا ہے، جسے ہم حقیقی وقت کہتے ہیں ، اس وقت سے مختلف ہے جو ناولوں میں استعمال ہوتا ہے یا ہوسکتا ہے؛ وہاں اس کی مختلف قسمیں اورشاخ سانے ہیں، جن میں سے ایک ”نفسیاتی“ بھی ہے۔ ”یوسا نے وقت کی حقیقی اور نفسیاتی تقسیم کی تھی اور فکشن کے وقت کو گھڑا ہوا وقت بتایا تھا تو کیا وہ غیر حقیقی نہیں ہو جاتا ؟ “ میرے خیال میں تو نہیں۔ وہ وقت کی ”ماہیت“ (quiddity)کی بات نہیں کررہا، یعنی وقت کا ”بہ حیثیت وقت یاماہیت“ حقیقت یا حقیقی ہونا۔ مابعد الطبیعیاتی (اور خاص طور ہمارے تصوف کی مابعد الطبیعیات میں) وقت کا ویسے بھی کوئی وجود نہیں۔ یہ زیادہ سے زیادہ ایک نسبت ہے جو (وجود کے اعتبار سے)اس غیر حقیقی دنیا میں اشیا کے تعین کا کام انجام دیتی ہے۔ فکشن کا وقت اتنا ہی ” حقیقی“یا ”غیر حقیقی“ ہے جتنا وجود کے اعتبار سے ”وقت“ بذاتہ۔ میرا خیال ہے کہ اگر آپ اس”غیر حقیقی“ کہنا چاہیں تو اس پر نہ یوسا کو کوئی اعتراض ہوسکتا ہے نہ مجھے، کیوں کہ یہ یوسا کی بحث کا حصہ نہیں۔ وہ تو صرف وقت کی مختلف نوعیتوں کی بات کررہا ہے۔اور اس اعتبار سے ”ناولی وقت“ ایک غیر حقیقی یا گھڑنت وقت ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ کوئی منفی چیز ہے۔ جب ناول خود پورے کا پورا ایک گھڑنت ہے تو اس میں مستعمل وقت کیسے حقیقی ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ ناول کے کرداروں کے حوالے سے ضرور حقیقی ہوتا ہے، اتنا ہی جتنے وہ کردار حقیقی ہوتے ہیں۔ آپ نے لکھا ہے: ”ایک اور پرلطف حوالہ تو میں بھولے جا رہا ہوں اور وہ ہے تصوف کا۔ اردو کہانی کا صوفی ٹائم مشین والے سائنس دان سے کہیں بہتر طریقے سے ایک وقت سے دوسرے وقت میں منتقل ہو سکتا ہے۔ اور اسے اردو فکشن میں موضوع بناکر قابل اعتنا کہانیاں لکھی گئی ہیں۔ “مجھے کرید ہورہی ہے کہ یہ کون سی کہانیاں ہیں۔ بھائی ان کے مصنفین اور کہانیوں کے نام لکھیں۔ شکریہ۔ قبل اس کے بھول جاں، ”مرکزی نقطے“ اور ”ثقلی نقاط“ تجویز کرنے کا بے حد شکریہ۔ مجھے اچھے لگے۔ کچھ غور کرکے شاید انھیں ہی استعمال کروں۔


والسلام
محمد عمر میمن
میڈیسن : ۳ ۱مئی ۲۰۰۸
///

No comments:

Post a Comment