Thursday, February 19, 2009

محمد عمر میمن

اِبتدائیہ۔۲
پچھلے سال میں نے ماریو برگس یوسا(Mario Vargas Llosa)کی منحنی سی کتاب Letters to a Young Novelist کا اردو میں ترجمہ کیا تھا۔ کتاب کل بارہ خطوں پر مشتمل ہے اور ان پر جو عنوان قائم کیے گئے ہیں وہ علی الترتیب ”کیچوے کی حکایت،“ ”کیتوب لی پاس،“ قوتِ ترغیب،“ ”اسلوب،“ ”راوی اور بیانیہ مکان،“ ”زمان،“ ”حقیقت کی سطحیں،“ ”انتقالات اور کیفی زقندیں،“ ” چینی ڈبّے،“ ”پوشیدہ حقیقت،“ ”کمیونی کیٹنگ وے سلز،“ اور ”پس نوشت کے طور پر“ ہیں۔ پہلے دو خطوں میںگفتگو کا تعلق اس بے اطمینانی سے زیادہ ہے جو کسی شخص کواپنی حقیقی دنیا سے محسوس ہوتی ہے اور اسے اس بات پر اکساتی ہے کہ اس دنیا کو اپنے تخیل کے زور پر اپنی مرضی کے مطابق از سر نوتشکیل دے۔ بقیہ خطوط میںان عملیاتی رموز کا بیان ہوا ہے جویوسا کی دانست میں کسی فکشن کی کام یابی اور اثر انگیزی کے ضامن ہوتے ہیں۔اور ان عوامل کی پہچان اور ان کی پیچیدہ اور مہین کارگزاری اور تفاعل سے واقفیت کے عقب میں اس کادنیا بھر کے فکشن کا بڑا باریک اور عمیق مطالعہ کارفرما ہے۔وہ ان عوامل تک تنقیدپر درس گاہی نصاب کے استفادے سے نہیں پہنچا ہے، بل کہ تجربی مطالعے کی وسعت سے۔ آخری خط میںیوسااپنے نوجوان ناول نگار کو مشورہ دیتا ہے کہ وہ اس کی کہی ہوئی تمام باتوں کو دریا برد کرے، اور بس کمر باندھ کر لکھنے بیٹھ جائے۔ یہ اس لیے کہ ”تنقید، بہ ذاتہ،حتی کہ اس وقت بھی جب یہ غایت درجہ سخت گیر اور وجدانی ہو، امرِ تخلیق کی مکمل توجیہہ کرنے کی اہل نہیں ہوسکتی، یعنی اس کی اپنی کلّیت میں تشریح کرنے کی۔ ایک کام یاب فکشن یا نظم میں ہمیشہ ہی ایک عنصریا بُعد ایسا شامل ہوگا جسے عقلی تنقیدی تجزیہ اپنی گرفت میں لانے سے عاجزرہے گا۔ یہ اس لیے کہ تنقید تعقّل اور ذہانت کا ثمر ہوتی ہے، اور ادبی تخلیق میں دوسرے عوامل، بعض اوقات اس کے لیے فیصلہ کن اہمیت کے حامل.... وجدان، حسّیت، عمدہ قیاس آرائی، اور حتی کہ اتّفاق....دخیل ہوتے ہیںاورتنقید کے باریک ترین داموں میں بھی نہیں آتے۔ اسی لیے کوئی کسی کو تخلیق کرنا سکھا نہیںسکتا۔“ یہ خطوط پچھلے سال کے ”سمبل“(راول پنڈی) سے قسط وار شائع ہورہے ہیں۔ پہلے دو خطوں کے چھپتے ہی محمدحمید شاہد صاحب کو.... جنھیں فکشن کی عملیات اوراس کی تعمیراتی بَناوٹ اور بُناوٹ، اور فنّی حکمت عملیوں سے خاص طور پر دل چسپی ہے اور ان کی بابت کافی مضامین بھی لکھ چکے ہیں ....اپنے محبوب موضوعات کے بارے میں مزید غور وفکر کرنے اوران پر یوسا کے خطوط کے آئینے میں اردو فکشن کے سیاق و سباق میں ایک سیر حاصل علمی بحث کا موقعہ بہم ہوگیا۔ انھوں نے یوسا کے ان دو خطوں کو بڑی باریک بینی، عرق ریزی اور سنجیدگی کے ساتھ پڑھا اور پھر اپنے معروضات ، جن میں نہ صرف اظہارِ تشکر و احسان مندی شامل تھے، بل کہ بے کم و کاست تنقید کی فراوانی بھی، مجھے دو خطوں میں لکھ بھیجے۔ میںیوسا کے خطوط کی اس متین پذیرائی پر اندر اندر اتنا خوش ہوا کہ میں نے انھیں رفتہ رفتہ یوسا کے بقیہ خط بھی بھیج دیے ، (حال آں کہ یہ ابھی خاصی نظر ثانی کے طلب گار تھے،)اور انھوں نے ان میں سے ہر ایک کے بارے میں ایک الگ خط میںبڑی تفصیل کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ جلد ہی مجھ پر یہ بات واضح ہوگئی کہ اس نعمتِ غیر مترقبہ کو صرف اپنی ذات تک محدود رکھنا ایک طرح کی علمی خیانت ہوگی۔ جہاں تک یوسا کے کتابچے سے میری ذہنی تربیت کا سوال پیدا ہوتاہے، تووہ توچند سال پہلے اسے انگریزی میں پڑھتے وقت ہوہی گئی ہوگی، ترجمہ کرنے سے میرا مقصد اسے اردو قاری تک پہنچانا تھا، اور جو شاہد صاحب مجھے لکھ لکھ کر بھیج رہے تھے، وہ بھی ایک لحاظ سے اسی کتابچے کا ضمیمہ تھا، سو اسے قاری تک پہنچنے سے کیوں روکا جائے؟ الغرض، میںنے انھیں مشورہ دیا کہ وہ اپنے خطوط کہیں چھپواکیوں نہیں دیتے۔ یہ تو ٹھیک ہے کہ شاہد صاحب کو تہذیبی طور پر تصوف سے کافی دل چسپی ہے، تاہم یہ تعین کرنا مشکل ہے کہ وہ فناے ذات کے ماورا پہنچ چکے ہیں اور ذاتی تشفی (میںلکھنا تو ”تشفیِ اَنا“ چاہتا تھا) جیسی مادی چیزوں سے مستغنی ہوگئے ہیں۔ تاہم ہماری طرف والی وضع داری اور کسر نفسی ان میں شایدبہ درجہ اتم موجود ہے۔ بڑی ردو قدح کے بعدجب تیار ہوئے تو اس شرط پر کہ میں بھی اس سرگرمی میںان کا شریک بنوں۔یہ سراسر دھاندلی تو خیر تھی ہی، مگر میں اس خیال سے شامل ہوگیا کہ بہ صورت دیگر بعض اہم اور وزنی باتیں لوگوں تک پہنچنے سے رہ جائیں گی۔حضرات! ان خطوط کو مکالمے سے زیادہ ادب کے ایک سنجیدہ اور بے لوث لیکھک کا خود کلامیہ سمجھیے۔ میں اس شرارت میں جب اپنے حصے پر غور کرتا ہوں ،میرے سامنے ایک دہشت گرد کا پیکرگھوم جاتا ہے جو فتیلہ دکھا کر خود غائب ہوجائے اور پھر دور سے جہاں سوزی کا منظر دیکھے۔ بس اتنے فرق کے ساتھ کہ یہاں ”جہاں سوزی“ کا منظر نہیں تھا، بل کہ بڑی دل نواز آتش بازی کا۔اپریل مئی ۸۰۰۲ تک یو سا کے جتنے خطوں پرشاہد صاحب رائے دے چکے تھے اور میں بیچ میں ”ہاں، ہاں، ہوں، ہوں“کر کے ان کی شرط سے عہدہ برا ہوتا رہا تھا(”آنکھیں میری باقی ان کا“ )وہ ”نقاط“ کے تازہ شمارے میں شائع ہوگئے ہیں۔ باقی کے تین چار خطوں پر ہونے والی مراسلت یہاں دی جارہی ہے۔ اس تعطل کی الگ کہانی ہے۔ ہوا یوں کہ میں اوائل جون میں ترکی چلا گیا، جس سے مراسلت میں رخنہ پڑگیا۔ جب لوٹا تو کئی بیماریوں نے گھیر لیا، تاہم اس دوران میں شاہد صاحب کے خط آتے رہے، گو میں ان کا جواب نہ دے سکا، اور جب دیا بھی توناکافی اور سب کا بس ایک ہی خط میں۔ میری طبیعت کے سنبھلنے تک خود وہ عمرہ کرنے جا چکے تھے۔ شاہد صاحب نے اس مراسلت میں اکثر ادبی زبان اور بڑی دل موہ لینے والی شائستگی سے میری کم آمیزی یا، بل کہ، عدم موجودگی کی شکایت کی ہے۔ بہ ہر حال ،اس ضمن میں جو میںان سے کہنا چاہتا تھا ، کہہ چکا ہوں، اور وہ سمجھ بھی گئے ہیں۔ لیکن مجھے گمان ہوتا ہے کہ یہاں قارئین کو بھی یہی خاموشی کھٹکے گی؛ سو بہتر ہوگا کہ میں چند لفظوں میں اپنے موقف کا اظہار کردوں، اگر چہ میں نے اپنے خطوں میں کہیں کہیں، پاس ادب کی حدود میں رہتے ہوئے، اشاروں کنایوں میں اس کے اظہار کی کوشش تو کی ہے، اور اپنے آخری خط میں، گو بہت زیادہ تو نہیں، تاہم قدرے وضاحت کے ساتھ۔ لیکن اس سے پہلے میں دو تین باتیں اور کرنا چاہتا ہوں جن کا تعلق شاہد صاحب کے ان خطوں سے ہے جو یہاں دیے جارہے ہیں اور جن کا جواب بیماری کی وجہ سے میں اپنے آخری خط میں نہ دے سکا۔ شاہد صاحب کو یہ توقع تھی کہ میں ”نقاط“ والے ابتدایئے میں یوسا کے سوانح قدرے تفصیل سے لکھوں گا۔ یہ میرا منشا نہیں تھا۔ میرے حساب سے ایک مختصر سا تعارف ہی کافی تھا۔ اس کے بعد مزید تفتیش ان لوگوں کی ذمے داری تھی جو اس کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے خواہاںہوں۔ شاہد صاحب یوسا کے ”زقندوں“ والے خط کو بہت زیادہ مفید مطلب نہیں پاتے۔ ظاہر ہے اس سلسلے میں کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن یہ بھی کچھ کم نہیں کہ اس بے اطمینانی کے سبب وہ خود اس نکتے کی چھان بین میں بہت گہرائی تک اتر گئے ہیں جس سے ہم سب کا فائدہ ہواہے۔ان خطوں میں اور ان سے پچھلے والوں میں بھی انھوں نے بار بار مجھے بعض تراکیب اور مفرد الفاظ کے کھردرے پن سے متنبہ کیا ہے اور بعضوں کے واسطے مناسب متبادل پیش کیے ہیں۔ وضاحتاً عرض ہے کہ ادبی تنقید سے متعلق انگریزی اصطلاحوں کا ترجمہ کرنا خاصا مشکل کام ہے۔ ان کے اردو متبادل آسانی سے ملتے بھی نہیں اور مناسب اصطلاحوں کو وضع کرنے میں خاصا غور و فکر درکار ہوتا ہے۔ یہ تراجم ”مسودہ“ ہی تھے، ”مبیضہ“ بننے کی ابھی نوبت نہیں آئی تھی۔ میں نے اس نیت سے انھیںجستہ جستہ چھپنے دیا اور خاص طور پر شاہد صاحب سے دکھوالیا کہ اس طرح متبادل الفاظ تجویز کیے جائیں گے اور ان کے کتابی شکل میں شائع ہونے تک قدرے صحت مند نسخہ تیار ہوجائے گا۔(مجھے خوشی ہے کہ شاہد صاحب توقع پر پورے اترے۔)سو یہ ابھی تک ایکwork in progressہیں۔ پچھلے دنوں میں اسلامی فلسفے اور خاص طور پر تصوف کی مابعد الطبیعیات سے متعلق اپنی بعض پسندیدہ انگریزی نگارشات کا ترجمہ کرتا رہا ہوں۔ ان میں سے دو تین مقالے عین القضات ہمدانی (وفات: ۱۱۳۱)کی فکر کی بابت بھی تھے۔ جب مراسلت کے دوران مجھے شاہد صاحب کی تصوف سے دل چسپی کا علم ہوا، تو میں نے ان میں کا ایک ترجمہ انھیں پڑھنے کے لیے بھیجا۔ اب اسے ایک فعّال ذہن کی”کارستانی“ کہنا چاہیے کہ انھوں نے عین القضات کے بعض خیالات اور تصورات کو فکشن کی سرزمین میں ”بے مہار“ چھوڑ دیا، جو مجھے بڑی دل موہنی حرکت لگی۔ چوں کہ یوسا اور شاہد صاحب دونوں نے ”الف لیلہ و لیلہ“ یا” کہانی در کہانی“ کا حوالہ دیا ہے، چناں چہ اس کی پیروی میں ، یہ کہانی ، بل کہ ”در کہانی“بھی سنیے: مصر میں ایک سرجن صاحب ہیں۔ نام ہے محمد کامل حسین۔ یہ سر وں کی مرمت ہی نہیں کرتے، سر سے کام بھی لیتے ہیں، خاص طور پر اس کے اس حصے سے جس کا تعلق” متخیلہ“ سے ہے۔ یعنی، یہ انشائیے اور ناول وغیرہ بھی لکھتے ہیں۔ ایک بار یہ فروئڈ کی کتاب Moses and Monotheism پڑھ رہے تھے ۔ جہاں ان کا سابقہ اس مفروضے سے پڑا کہ افراد کی طرح جماعتیں اور گروہ بھی اپنی تاریخ کے اوائل میں بعض ایسے سنگین واقعات سے گزرتے ہیں جو ان کی اجتماعی شخصیت کے خط و خال متعین کردیتے ہیں اور یہ خط و خال ان کے اجتماعی حافظے میں اس طرح مرتسم ہوجاتے ہیں کہ نسلاً بعدنسلاًاس گروہ کے تمام افراد میں ان کے نقوش ظہور کرتے رہتے ہیں۔ حسین صاحب نے اس مفروضے کو آزمانے کی ٹھانی اور ہدف کے طور پر Monotheismکے معاصر معتقدین (یعنی یہودی، عیسائی، اور مسلمان)کا انتخاب کیا۔ آج کے یہودیوں، عیسائیوں، اور مسلمانوں میں بلا شرکتِ غیرے وہ کیا خصوصیت ہے جو ان کی ابتدائی تاریخ کے کسی خاص واقعے سے مشتق ہو۔شہرزاد کی طرح، آج رات میں اس ”خصوصیت“ کی کہانی تو آپ کو نہیں سنا¶ں گا جو حسین صاحب نے ان تینوں گروہوں کے معاصر پیرو¶ںمیں پائیں، صرف اتنا عرض کروں گا کہ اس مفروضے کو آزمانے کے لیے انھوں نے یہودیوں کے بارے میں ایک مضمون لکھااور عیسائیوں کے بارے میں ایک پورا ناول”قریة ظالمة“ (اس کا انگریزی ترجمہ The City of Wrong: A Friday in Jerusalem شائع ہوچکا ہے )، اور بے چارے مسلمانوں کو ایک دو جملوں میں ٹرخا دیا کہ ان لوگوں میں جو یہ فوق الانسانی (شاید کہنا تو وہ ”کیہوتانہ“ چاہتے ہوں گے) اعتماد پایا جاتا ہے تو اس کی وجہ جنگِ بدر میںتمام قرائن کے برخلاف ان کی غیر معمولی کام یابی تھی (کیوں کہ ملا ئک کی دست گیری شاملِ حال رہی تھی)۔ تو پھر کیا ہوا؟ میں کہنا کیا چاہتا ہوں؟....آپ پوچھیں گے۔صاحب،اب ظاہر ہے کہ فروئڈ کے مفروضے ، اور اس مفروضے پر کامل حسین صاحب کے مفروضے کو تجربی سطح پر آزما کر اس کی صحت پر یقین کامل کے درجے کو پہنچنا، اور دوسروں کو اس پرپہنچانا، ناممکن ہے۔ اس کے باوجود اس بات میں کلام نہیں کہ دونوں حضرات کی یہ نادر ذہنی کاوش خود اپنا انعام ہے۔ بل کہ کم از کم میں تو اس فطانت کو رشک کی نظر سے دیکھتا ہوں۔بعض اوقات مفروضوں کا درست ثابت ہونا اتنا اہم نہیں ہوتا جتنا ان کو قائم کرنے کی جرات۔ اس سے غور و فکر کے نئے پہلو اجاگر ہوتے ہیں اور نئے نئے امکانات معرض وجود میں آتے ہیں۔ اب ان ساری ضمنی یا ذیلی کہانیوں کو (شاہد صاحب انھیں ”کہانی در کہانی“ کہیںگے؛ یوسا ”پرنانی کہانی“ کی ”اولاد کہانیاں“ کہے گا) سمیٹیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ شاہد صاحب نے یوسا کی”پوشیدہ حقیقت“ اورایک عارف اور صوفی کی ”حقیقت“ (منصور حلاج کے ”اناالحق !“ والی) کے درمیان جو منا سبت تلاش کر لی ہے وہ ایک کام یاب فکشن ہے۔ ان معنی میں کہ ان کے زورِ بیان سے ایک مفروضے پر حقیقت کا گمان ہونے لگتا ہے۔وہ جو اصلاً مفروضہ ہے، سخت ناگزیر اور غلبہ آور معلوم ہونے لگتا ہے۔ تو صاحب، جسے یہ ملکہ حاصل ہو، اس پرکیسے رشک نہ آئے۔ ایک لحاظ سے ان کی بات کسی حد تک صحیح بھی ہے ۔ یعنی مناسبت ہے اور ان معنی میں کہ دونوں نظاموں کو ایک دوسرے سے بالکل الگ رکھ کر متوازی خطوط پر اپنے اپنے منطقوں میں آگے بڑھنے دیا جائے تو اپنے مقصود کے حصول کے لیے ان کے طرز عمل میں مناسبت پائی جائے گی۔ لیکن جہاں تک ان کے ہدف (”حقیقت“)کا تعلق ہے، تو خود یہ جس ”حقیقت“ کے جویا ہیں، وہ کوئی ایک چیز نہیں۔یعنی جو ”حقیقت“ دونوں نظاموں کے حساب سے ” پوشیدہ “ ہے، وہ کوئی یک ساں حقیقت نہیں۔ اور جو چیز دونوں میںمشترک ہے، وہ صرف”پوشیدگی“ ہے۔ بحث ضرورت سے زیادہ لمبی ہوجائے گی۔ سو مختصراً یوں سمجھیے کہ فکشن نگار جس حقیقت کا متلاشی ہے وہ اول آخر اس کے تخیل کی پیداوار ہے، جسے وہ اپنے اوزاروں کی حدّت اور اپنے استعمال کی مہارت سے معرض شہود میں لاکر اس طرح پیش کرتا ہے کہ وہ معروضی حقیقت نظر آنے لگتی ہے۔ پھر اس سارے عمل میں کسی لمحے بھی وہ اپنے شعورِ ذات سے غافل نہیں رہتا، بل کہ ایک لحاظ سے یہ سارے کا سارے عمل خود اسی نمائش ذات کاکیا دھرا ہوتا ہے۔ ایک عارف/صوفی جس حقیقت کا جویا ہے وہ ”حقیقت مطلق“ ہے ، یا بل کہ ”وجود“ بہ ذاتہ۔ اور یہ انفرادی وجود نہیں، بل کہ وجودِمطلق ہے جو عالم مظاہر (جو اس وجود کے مختلف تعینات یا تجلیات پرمشتمل ہے)میںجاری و ساری ہے اور صرف جزوی طور پر ہی مجسم ہوا ہے۔ (”وجود“ کو اکثر ”موجود“ سے خلط ملط کردیا جاتا ہے، حا ل آں کہ ”موجودگی“ اس کے لیے شرط نہیں۔) اس حقیقت کے حصول، یعنی اس کی اس کیفیت کی طرف رجوع جب یہ ابھی ”مظاہر“ تک نہیں پہنچی تھی، یا ان میں متجلی نہیں ہوئی تھی، صرف اسی طرح ممکن ہے کہ اس کے اور اپنے درمیان حائل ہر حجاب کو ہٹا دیا جائے، یہاں تک کہ خود ذات کی آگہی بھی باقی نہ رہے۔ (درد کا شعر ہے: ”وا کردیے ہیں شوق نے بند قباے حسن / غیر از نگاہ اب کوئی حائل نہیں رہا“۔)اس صورت میں نہ شاہد باقی رہتا ہے نہ مشہود اور نہ خود مشاہدہ۔ اس نعمت غیر مترقبہ کا انفرادی ”ذات“ کے نقطہ¿ نظر سے منفی پہلو تو یہ ہے کہ فکشن اور فکشن کی دنیا ، بل کہ خود مظاہر کی دنیا، سب ہیچ ہوجاتی ہے(اور تو اور خود ذات بھی)، اور مثبت پہلو، جو عارف کا مقصود ہے، یہ کہ سب کچھ وجود کی وحدت میں تحلیل ہوجاتا ہے یا اس کی کلیت میں سمٹ جاتا ہے۔ تو جہاں میں شاہد صاحب کے دقیق تجزیے کی افادیت کا معترف ہوں، وہاں یہ وضاحت بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ ”پوشیدہ حقیقت“ کے ضمن میں فکشن کی حقیقت اور تصوف کی حقیقت کے فرق کو ظاہر کردوں۔ اب وہ لمحہ آ پہنچا ہے جہاں اپنے ”آتش زن“ کے کردار کا اعتراف کرلیا جائے، لیکن یہ واردات نادانستہ تھی، جزوی طور پر زبان کے معاملے میں اپنی نارسائی کا نتیجہ۔ یہ سارا گھپلا خود میرا کھڑا کیا ہوا ہے، گو اس میں نہ شعور کو دخل تھا نہ نیت کا فتورتھا۔ دراصل یوسا کے انگریزی مترجم نے زیر نظر باب کا جو عنوان قائم کیا ہے وہ "The Hidden Fact"ہے۔ ”فیکٹ“ کے لیے ہمارے یہاں جو الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں وہ ”امر واقعہ،“ ”صورت حال،“ ”اصلیت،“ ”حقیقت،“وغیرہ ہیں۔اصل میں ”فیکٹ“ وہ چیز ہے جس کی صداقت کا انحصار ذہنی یا عینی شہادت پر ہو۔ اس معنی میں یہ ”حقیقت“ کی بے کنار وسعت کے مقابلے میں بڑی محدود سی چیز ہے۔ میں نے اس عنوان کا ترجمہ ”پوشیدہ حقیقت“ کیا تھا، جو ظاہر ہے حسب ضرورت موزوں نہیں۔ اس ساری گڑ بڑ کا ذمے دارسراسر میں ہوں۔ —×— ”کہانی در کہانی“ سے پہلے جس ”موقف“ کی طرف اشارہ ہوا ہے اس کی طرف لوٹتے ہوئے: میرے حساب سے کوئی بھی اچھی تخلیق ایک نامیاتی وحدت ہوتی ہے۔ اگر یہ ہمیں متاثر کرتی ہے تو اس کی تاثیر کا راز اس بات پر نہیں ہوتا کہ ہم اس کے اجزاے ترکیبی کی خوبی کو فرداً فرداً سراہ رہے ہیں۔ یہ تاثیر ہم پر مثبت معنوں میں ایک آفت کی طرح ٹوٹ پڑتی ہے۔ کسی بے محابا آندھی کی طرح جو ہر شے کو اتھل پتھل کر کے رکھ دے۔ ہمارے جملہ حواس پر ایک ساتھ قابض ہوجائے۔اس کے نرغے میں ہم اس کی تباہ کن طاقت کا وجودی طور پر تجربہ تو کرسکتے ہیں، یہ دماغ نہیں رکھتے کہ اس کے مختلف عناصر کا، جن کا باہم دگر ہونا اس بے پناہ قوت کا راز ہے،فرداً فرداً تجزیہ کرسکیں۔(یہ کام تو آندھی گزر جانے کے بعد کرنے کا ہے، جب مقصدجمالیاتی لطف اندوزی سے زیادہ عقلی تشفی ہوتا ہے، یا، میں تو یہاں تک کہوں گا، تسکینِ ذات۔) آپ نے اکثر ہیئت اور متن کی وحدت کے بارے میں پڑھا ہوگا۔ خود یوسا نے بھی اپنے کسی خط میں ایسی ہی بات کی ہے: اچھے فکشن کے عوامل کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا، گو ہم علمی بحث اور تجزیے کی خاطر ایسا کرسکتے ہیں۔ (اور وہ خود یہاں صرف یہی کررہا ہے۔) وہ تو یہ تک کہتا ہے کہ ان عوامل میں، جن کی نشان دہی کی گئی ہے، اور کسی فکشن کو کام یاب بنانے میں یہ جوناگزیر کردار انجام دیتے ہیں اس میں کلام نہیں کیا جاسکتا، ان کو تخلیق کے لمحے میں دریا برد کردینا ہی بہتر ہے۔یہ عجیب سا قولِ محال ہے: ایک چیز جو ناگزیر ہے اس قابل بھی ہے کہ اسے دریا برد کردیا جائے!بات دراصل یہ ہے کہ ادنا سے غوروخوض اورتفحص پر یہ عیاں ہوجاتا ہے کہ اچھے فکشن کے عناصر اچھا فکشن لکھنے سے پہلے نہیں بل کہ اس کے بعد آتے ہیں، یعنی اسی سے مشتق ہوتے ہیں۔ ہم ان کی شناخت ہی اچھے فکشن کے اندر کرتے ہیں، کسی ایسی شے کی طرح نہیں جو قائم بالذات ہو اورجس ظرف میں سمائی ہوئی ہو اس کے باہر اپنی اَٹل وجودی حیثیت اور مطلق شناخت رکھتی ہو۔سبز یا سرخ رنگ لیں، یا کوئی اور جو آپ کو پسند ہو، کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ یہ بہ ذاتِ خود اچھا ہے یا برا، اثر انگیز ہے یا بے اثر؟ہم یہ سارے اسماے صفات کسی بھی رنگ، حتی کہ کسی بھی چیز کے ساتھ نتھی کرسکتے ہیں ، بہ شرطے کہ یہ کسی ظرف کا مظروف ہوں (یا ، جملے کی رعایت سے، کسی اسم کی صفت ہوں)۔ ہم تو ان کا کسی ظرف کے بغیر تصور بھی نہیں کرسکتے۔ (یہ مثال جزوی طور پر ہی صحیح ہے، لیکن فی الحال اس سے کام چل جائے گا۔)سوکسی خاص لمحے میں اگر ہمیں ایک سرخ گلاب پسند آتا ہے ، تو یہ کہنا بے حد مشکل ہو تا ہے کہ ہماری پسندیدگی کا گھر گلاب ہے یا اس کا سرخ رنگ، لیکن جس بات میں کلام نہیں وہ یہ ہے ہمیں یہ سرخ گلاب پسند ہے۔ (”جزوی طور پر صحیح“ اس لیے کہ رنگ تو بہ ہر حال اشیا میں صورت پذیری سے قبل بھی عقلی سطح پر ، یا مجرداً، تصور کیے جاسکتے ہیں۔اس صورت میں ان کا وجود ذہنی ہوتا ہے ، عینی نہیں۔)جہاں تک اصناف ادب کے خصائص کا معاملہ ہے(یعنی ان عوامل کا جن پر ان کی کام یابی یا ناکامی کا دار و مدار ہوتاہے)، تو ان کی شناخت تخلیق سے پہلے نہیں اس کے بعدہوتی ہے، یا بل کہ یہ خود اسی سے اخذ کیے جاتے ہیں۔ عربی شاعری کو لیں۔ اگرچہ عربی شاعری کے آثار اسلام کی آمد کے پانچ سو سال پہلے سے ملتے ہیں، اس کے تنقیدی اصول، وہ جسے ہم علمِ عروض کہتے ہیں، دورِ اسلامی میں خلیل ابن احمد کی ایک اتفاقیہ دریافت کے بعد منضبط ہوئے ۔) تاہم کسی ادب پارے کی اثر انگیزی کے عوامل کی دریافت اور شناخت غیر اہم نہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ان کو جان لینے سے کوئی اچھا فکشن نگار نہیں بن جاتا، ان کا عرفان جب لکھنے والے کے شعور کا حصہ بن جائے تو پھر یہ بڑے دھیمے ، غیر محسوس، اور غیر شعوری طور پر خود بہ خود لکھنے والے کی قیادت کرتا ہے۔ ان اجزا کے میکانکی استعمال سے صرف creative writingکے نصابوںکا ایسمبلی لائن والا ادب ہی پیدا ہوسکتا ہے۔خود یوسا زیادہ سے زیادہ ادب پڑھنے کا مشورہ دیتا ہے، اور اتنی ہی شد و مد سے کام یاب لکھنے والوں کی نقالی سے دور رہنے کا، تاآں کہ لکھنے والے کو اپنا مخصوص اسلوب مل جائے۔یہی بات صدیوں پہلے عربی ادب میں بھی پیش آچکی ہے۔ دورِ عباسی کا مشہور عربی شاعر ابونُواس (وفات: ۸۱۴) خَلف الاحمَر سے، جو پورے بصرے میں سب سے زیادہ سخن شناس اور سخت گیر نقّاد کی حیثیت سے مشہور تھا، شعر کہنے کی اجازت لینے جاتا ہے۔ موخر الذکر یہ شرط لگاتا ہے کہ پہلے ایک ہزار قصائد حفظ کرکے دکھا¶، پھر اجازت ملے گی۔ ابو نُواس جا کر بادیةُ العرب کے اَعراب کے درمیان بودوباش اختیار کرتا ہے اور، حسبِ ہدایت، ایک ہزار عربی قصیدے ازبر کر کے لوٹتا ہے۔ خَلف الاحمَر چند کے سنانے کی فرمائش کرتا ہے، اور ابو نُواس اس کے حکم کی تعمیل۔ پھر پوچھتا ہے: ”اب مجھے شعر گوئی کی اجازت ہے؟“ خَلف الاحمَر کہتا ہے، ”بہ صد شوق، لیکن اِس سے پہلے یہ جو تم نے ایک ہزار قصیدے حفظ کیے ہیں، انھیں بھول کر دکھانا ہوگا۔“ تو اب اس صورت میں، جب یوسا ، میں ، اور جانے کتنے اور لوگ اس بات کے معترف ہیں کہ ہم بحث کی حد تک تواچھے فکشن کے عناصر کا تجزیہ کرسکتے ہیں، ان عناصرکے ذریعے کسی کو اچھا فکشن لکھنا لکھاناسکھا نہیں سکتے، (گو ان عناصر کی شناخت بے حیثیت نہیں،)میرا کسی بات پر قطعیت کے ساتھ اصرار کرنا، اصل میں ایک اضافی سے چیز کے ساتھ رسا کشی کرنا ہوگا، یا بل کہ ایک سایے کے ساتھ کشتی لڑنا۔ شاہد صاحب نے مزید گوشوں پر جو روشنی ڈالی ہے، اور پرانی باتوں پر نظر ثانی کی جو دعوت دی ہے، اس کی اہمیت سے انکار کفران نعمت ہوگا۔ (انھوں نے یوسا کی ”زقندوں“ کے ضمن میں منٹو کے افسانے ”کھول دو“ کی جیسی دور رس اور نکتہ ریز تشریح کی ہے اس پر میری طرح آپ بھی ان کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔) اس ادب سے بے گانہ دور میں ،میری طرح آپ بھی ان کی ادب سے شدید لگن اورسنجیدگی کا خیرمقدم کریں۔اور سچی بات پوچھیں تو تنقید سے مجھے بہت زیادہ لگاو بھی نہیں ہے۔میں تو صرف ایک اچھی تحریر میں دوسروں کو شریک کرنا چاہتا تھا اور شاہد صاحب نے نہ صرف شرکت کی، بل کہ بے محابا اور بے دریغ شرکت کی۔اور، ایک لحاظ سے، یہ کہہ کر میری تائید بھی کہ ”تنقیدی عمل تو بس چوک میں کھڑے اس چالاک آدمی کی طرح ہوتا ہے جو منزل پوچھنے والے کو دور اشارہ کرتے ہوئے ایک سمت کو ٹھیل دیا کرتا ہے۔“ ہمارے لکھنے اور پڑھنے والوں کو شاہد صاحب سے کچھ سیکھنا چاہیے: بے سوچے سمجھے تقلید سے دور رہیں۔ فکشن نویسوں کے سارے پہلو مثبت ہی نہیں ہوتے۔یوسا کی بیش تر باتوں سے اتفاق کے باوجود کئی باتوں سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے۔( بہ قول شاہد صاحب کے: ”یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ زبان ہر حال میں یوسا کے نام کا شیرہ چاٹتی رہے۔“)اور ان کا یہ اختلاف کوئی چلتی پھرتی چیز نہیں۔ اس کے عقب میںنہ صرف فکشن کا وسیع اور عمیق مطالعہ کام کررہا ہے، بل کہ ایک عاقل اور فعّال ذہن کا تخلیقی تجربہ اور سرمایہ بھی کارفرما ہے۔ بین السطور، یا بل کہ کہیں کہیں تو بالجہر، انھوں نے اپنے ہم عصر فکشن لکھنے والوں پر بڑی دور رس باتیں بھی کہہ دی ہیں ۔ ان کی تحریر سے ہمیں اردو کے معاصر منظر نامے کے خط و خال کے تعین میں بھی مدد ملتی ہے۔

— محمد عمر میمن

۶۲ اگست ۸۰۰۲‘

میڈیسن :

امریکا
///

No comments:

Post a Comment