Thursday, February 19, 2009

محمد حمید شاہد

پیارے محمدعمر میمن
آداب


تم ادھرمیڈیسن میں، ترکی سے لوٹنے کے بعد تھکن کی پوشش اپنے بدن سے اتار پھینکنے کے جتن کر رہے ہوگے اور میں ادھر یوسا کی ”پوشیدہ حقیقت “سے گتھم گتھا ہو رہا ہوں ۔ میں بڑی دیر یوسا کے اس خط کے متن کو پڑھے بغیر اس کے عنوان کا لطف لیتا رہا ۔ پوشیدہ حقیقت؛ میں نے بار بار زیرلب دہرایا۔ بلند آواز میں،اسے دو حصوں میں الگ الگ کرکے پڑھا ۔ پوشیدہ حقیقت دو الگ کیفیت والے الفاظ مجھے یوسا کی طرف بڑھنے نہیں دے رہے تھے ۔ میں” عین القضات ہمدانی کی فکر میں تصوف اور تشابہ کا لسانی مسئلہ“ والا مضمون کئی روز پہلے پڑھ چکا تھا اور اس کی گونج میرے اندر باقی تھی۔ ایک بار پھر اسے نکالا اور پڑھنا شروع کر دیا۔ تُشی ہیکوازتسو کے جس پہلے جملے کے نیچے میں نے پڑھتے ہوئے بطور خاص خط کھینچ دیا تھا،اُس میں بتایا جارہا تھا کہ ہمدانی تو بلاواسطہ ذاتی تجربے کی بنیاد پر کسی شے کی حقیقت کی تفہیم اور اس کے بارے میں جاننے کے درمیان حد فاصل قائم کرنے والا تھا۔ ہمدانی کو پڑھ کر میں یوسا کے ترتیب کیے ہوئے متن کے اکھاڑے میں گھس جاتا ہوں ۔ پوشیدہ حقیقت؟؟؟بھئی بے آڑکہوں گا کہ جسے یوسا” پوشیدہ حقیقت “ قراردے رہا ہے وہ مجھے کہیں سے بھی پوشیدہ نہیں لگتی ۔ ہاں میں اسے غیرمُصَرّح حقیقت مان لیتا ہوں؛ حالاں کہ میرے اندر کہیں نہ کہیں یوسا والی” حقیقت “کے سامنے بڑا سا سوالیہ نشان موجود ہے ۔ کاش تم نے اس دورانیے میں ہمدانی والا مضمون مجھے نہ بھیجا ہوتا ؛یا کم از کم میں نے ہی اُسے پڑھنے کی بہ جائے یوسا پر بات مکمل ہونے تک ایک طرف رکھ دِیا ہوتا۔ اگر ایسا ہو گیا ہوتا تو شاید میں یوںشدّت سے اِس” پوشیدہ حقیقت“ والے قضیے میں نہ اُلجھ رہاہوتا ۔ مگر ، ایسا نہیں ہوا اور جہاں یوسا مجھے یہ بتاناچاہتا ہے کہ غیرمُصَرّح واقعات ہی پوشیدہ حقیقتیں ہیں تو عین القضات ہمدانی اپنا یہ نقطہ نظر لے کر سامنے آکھڑا ہوتا ہے کہ اے پیارے، پہلے لفظ کی حقیقت کو توسمجھو ۔ مجھے ہمدانی کا مشورہ بجا لگا ہے ۔ لو، جب یوسا کی باتیں دہرائی جارہی ہیں تو اس میں کیا مضائقہ ہے کہ ہمدانی کے وہ نکات جو بہ ظاہرازتسو کی گرفت میں بھی ٹھیک ٹھیک آگئے ہیں، اور آب زر سے لکھنے کے لائق ہیں،اُن کو بھی بار دگر دیکھ لیا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ میں بُوجھ بجھکڑ بن کر اپنا بُوجھ بجھول کا کھیل بھی کھیلتا رہوں گا : — ”تمہارے باطن میں ایک کھڑکی کھل گئی ہے جس کا رُخ اَشیا کے فوق ِحسیاتی نظام کی اقلیم کی طرف ہے ۔“ (بھائی جی، یہی باطنی کھڑکی جو صوفی کے پاس ہوتی ہے، تخلیق کار کو بھی تو عطا کی گئی ہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ اشیا کی نام نہاد حقیقت تک محدود نہیں رہتا؛ حسی نظام کے ورغلانے اور بہکانے میں نہیں آتا اور اس اقلیم میں جست لگا دیتا ہے جو فی الاصل حقیقت ہوتی ہے ۔ پیارے میں یا تم یہ یقین کرےں نہ کریں کہ لکھنے والا اس حقیقت کو پاسکتا ہے کولرج تو اس کو مانتا تھا ۔ کیا یہ اسی نے نہیں کہا تھا کہ ” فطرت کے اس جوہر کوپایا جاسکتا ہے جو انسان کی روح اور فطرت کے اعلی تر مفہوم کے درمیان presupposedہے ۔“) — ”آدمی اس وقت تک کاملیت کو نہیں پہنچ سکتا جب تک عقلی قوتوں کی انتہا کو پہنچنے کی بعد ماورائے عقل منطقے میں داخل نہیں ہو جاتا ۔“ — ”خود عالم وجود کی پوری وضع (structure)کچھ اس طور پر ہے کہ عملی تجربات کے منطقے کی آخری منزل’ماورائے عقل منطقے‘ کے اولین پڑاﺅ سے براہ¿ راست طور پر جڑی ہوئی ہے۔“( اجی ، اگر تم ایک دو لمحات کے لیے گزشتہ گفتگو کی جانب جست بھرو گے تو مانو گے کہ فکشن کو فینطاسی سے نہ جوڑنے کی میری روش درست ہی تھی۔ دیکھو ہمدانی نے کس طرح ہمیں اشیا ، واقعات اور مناظر کی اصل حقیقت سے جوڑ دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں، میرے جگر ،کہ جسے ہم فکشن میں ناحق فینطاسی یا واہمہ قراردیتے ہیں وہ دراصل حسی منطقے سے پرے جست ہے۔ سچ پو چھو تو یہ جست ہی وہ تخلیقی قوت ہے جسے بہت پہلے یوسا نے غالباًطبعی میلان قرار دیا؛ میں اسے اس کی صیقل صورت کہوں گا۔دیکھو مجھے یوں لگتا ہے کہ ہم تخیل اور فینطاسی میں کہیں نہ کہیں گڑ بڑ کردیتے ہیں۔ تخلیق کار کے ہاں تخیل کا مابعد کی جانب جست لگانا حسی حقیقت کی تکمیل یا ادراک، حقیقت کی صورت گری کی للک کا حصہ ہے ؛جب کہ فینطاسی کا دائرہ کار بہت محدود ہے۔یہ محض اشیا، مناظر اور مظاہر کی یادآوری اور ترتیب نو تک جاکر رُک جاتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ اس میں سے ایک آدھ عنصر کم یازیادہ کر دیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں داستانوں میں زیادہ تر اِسی واہمہ کو بروئے کار لاکر قالین آسمان پر اُڑائے جاتے رہے ہیں ۔ دیکھو قالین زمین پر بچھنے کی چیز ہے ۔ آدمی زمین پر چلتا ہے ۔ مگر چوں کہ اس نے پرندوں کواُڑتے دیکھ رکھا تھا لہٰذ اُس نے قالین اور آدمی کے نیچے سے زمین منہا کر دی اور فضا کو لا کھڑا کیا ؛ کہہ لو اس نے دیکھی بھالی اشیا کو ایک نئی ترتیب دے لی۔اس چلن کو ہمارے آج کے کچھ افسانہ نگاروں نے بھی بہت عزیز رکھا ہوا ہے ۔ ایک مثال تو اپنے انتظار حسین کی ہے مگر میں اسے دہرانا نہیں چاہوں گا۔ ہاں ایک اور نام فوری طور پر ذہن میں آگیا ، بالکل نیا نام : اسلم سراج الدین۔ خیر یہ نام بھی اتنا نیا نہیں ہے ۔ عمر کے حساب سے اس کا ذکر ساٹھ یا ستر کی دہائی والوں کے ساتھ ہونا چاہیے مگر بے چارہ ان سے پچھڑ گیا اور اب ایک سے ایک مرعوب کرنے والی کہانی لکھتا ہے ۔ اس کے افسانوں کا مجموعہ ”سمرسامر“ آچکا ہے ۔ مجھے یاد ہے۴۹۹ ۱ءمیں فنون کے کسی شمارے میں ”سمرسامر“ نامی افسانہ، احمد ندیم قاسمی کے تعارفی نوٹ کے ساتھ چھپا تھا۔ ”سمر سامر“کے علاوہ” کتاجو آدمی تھا“ کو اسلم سراج الدین کے اہم افسانوں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ جی اس کا بھی بالعموم یہی وتیرہ ہے کہ لکھتے ہوئے دیکھے بھالے مناظر میں سے کچھ ضروری اجزاءکو منہاکرکے منظرنامہ میں ترمیم کر لے ۔ پھرکرداروں کوان غیر معمولی مناظر میں داخل کرکے واقعات کی نوعیت بھی بدل لے ۔ خود دیکھ لو” سمر سامر“ پڑھ کر: منظرنامے میں پہاڑ ہیں مگر زمین اور آسمان منہا ہوگئے ہیں ‘یوں منظر بدل کر بھید بن گیا ہے۔ اب اگر گھونسلوں کو مہک کے تنکوں سے بنایا گیا ہے تو لازم ہے کہ ان میں جو سازند خانہ آباد ہوں ان کے پاس مستقل ساز نہ ہوں اور یہ سب کچھ ہمارے تجربے یا مشاہدے کاعین مین حصہ نہیں ہے ۔ اس میں سے کچھ منہا ہوگیا ہے ےا اس میں ادل بدل کردیا گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک حد تک ہمارے تجسس کو کھینچ رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ چلن فی الاصل فینطاسی کا ہے۔ ےہاں حقےقت کی تکمےل کی طرف جست والا معاملہ نہےں ہے۔ یہیں، مجھے خالدہ حسین کا ایک افسانہ یاد آرہا ہے ۔ کم بخت یاد ہی تو نہیں آرہا؛ بس ہیولے کی طرح دھیان میں گھوم رہا ہے ۔ ارے بھئی وہی جس میں پنکھے کی گھمن گھیری پر نظر پڑتے ہی لفظوں کی دائروی صورتیں بنتی تھیں ۔ اگر میں بھول نہیں رہا تو یہ آصف فرخی کے پرچے ”دنیا زاد“میںچھپا تھا۔ لو، یادداشت بالکل ساتھ چھوڑ گئی ہے۔ اب خیال پڑتا ہے، شاےد”ادبیات“ میں چھپا ہو۔ ابھی فوری طور پر کی بورڈ سے اُٹھنا اور اس افسانے کو تلاش کرنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ اُٹھ گیا ،توخدشہ ہے ‘دھیان کی امی جمی سے بھی گیا؛ جب کہ میں اپنی بات آگے بڑھانا چاہوں گا۔ جوں ہی افسانہ مل گیا نام لکھ بھیجوں گا پڑھ کر تم خود ہی پکار اٹھو گے کہ واہ کیا تخیل نے کام دکھایا ہے ۔)— ”ہم قدرتی طور پر یہ رجحان رکھتے ہیں کہ ایک لفظ اور اس کے معنی کے درمیان ایک کے مقابل ایک والی مطابقت پائی جاتی ہے کوئی اور چیزاس سے زیادہ بعید از حقیقت نہیں ہو سکتی ۔ “— ”معنی کی کائنات بے حد نازک ،لچک دار اور رواں نوعیت کی ہے اس میں وہ ٹھوس استقامت نہیں پائی جاتی جو الفاظ کے رسمیاتی اور مادی ٹھوس پن سے مطابقت رکھتی ہو۔ “ —”]تخلیقی[آدمی کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی مخصوص لفظ کو اس تختے کی طرح استعمال کرے جس سے چھلانگ لگا کر معنی کی گہرائی میں اترا جا سکے۔“اگر میں اسی طرح اس مضمون سے چمٹا رہا تو ےوسا کی باقی باتیںاِدھر اُدھر ہو جائےں گی ۔ میں اپنے موضوع کی طرف آنا چاہتا ہوں(اگرچہ میں اس سے اب بھی کچھ زےادہ دور نہیں ہوں)۔ یوں ہے کہ کچھ دیر کے لےے کمر سیدھی کرنے کے بہانے اُٹھتا ہوں (اُٹھنا ہی پڑے گا) ۔ابھی کچھ دیر بعد خط یہیں سے آگے بڑھاﺅں گا۔


(۲, جولائی۰۰۸ ۲)


—×—


بھائی ادھر ادھر ساری کتابیں الٹ دیکھیں اور وہی پرچہ نہیں مل رہا جس میں خالدہ حسین کا افسانہ تھا۔ آصف فرخی کو مدد کے لیے فون کیا اس کا سیل نمبر ملتا ہی نہیں ہے۔ خالدہ حسین کا نمبر گھما ڈالا ۔ افسانے کی وہی نشانیاں جو اُوپر بتا آیا ہوں، ساری دے ڈالیں۔ کہنے لگی: ”ہاںایسا افسانہ تو ہے۔“ کہاں چھپا؟ ”غالباً’ دنیازاد‘ میں۔“ شمارہ ؟” معلوم نہیں۔“ افسانے کا عنوان کیا تھا؟”یاد نہیں آرہا ۔“ اس کے ساتھ ہی کان سے لگے رےسیور میں اےک لمبی ٹوں کا ن کا پردہ کھرچ رہی تھی ۔ تمہارے پاس تو”دنیازاد“ کے سارے شمارے ہوں گے ۔ضرور دیکھنا۔ لگتا ہے وہ والا شمارہ کوئی مجھ سے بھی زیادہ ضرورت مند لے گیا اور ڈکارلیا۔خیر بات ہو رہی تھی یوسا کی، اور بیچ میں ہمدانی کے حوالے سے ہم لفظ اور معنی کے تعلق اور حقیقت کو سمجھنے میں جُت گئے ۔ سچ پوچھو تو میرے ہاں اِس مضمون کی وجہ سے اپنے نقطہ نظرپر ڈٹے رہنے کے کئی جواز نکل آئے ہیں ۔ لو اس باب میں بھی تمہارا شکریہ ۔


(2008,3جولائی


—×—


حسی اور تجربی حقیقت، غیرمُصَرّح،تجریدی اور خذفی حقیقت اور اس طرح کی دوسری اصطلاحات کے ذرےعے ان امور کو ٹھیک ٹھےک جانچا جا سکتا ہے جو یوسا نے” پوشیدہ حقیقت“ کی ذیل میں اُٹھائے ہیں۔ ہیمنگ وے نے ”دی اولڈ مین اینڈ دِی سی“ میں دراصل صورت واقعہ کے اےک لازمی جزو کو حذف کرکے اس کے گرد تجسس کا ہالہ بنا لےا ہے تو ”دی سن اولسو رائزز،، میں تصریح سے اجتناب برتا گےا ہے۔ فوکنرکے”سینک چواری“ کے نامرد کردار کو رفتہ رفتہ کھولنا بھی”پوشیدہ حقیقت“ کے باب میں کیوں کر رکھا جا سکتا ہے؟ کہ اِس میں تجربی حقیقت کے اےک اہم عنصر کو متن میںغیرمُصَرّح رکھا گےا ہے۔ زمانی ادل بدل، سارے واقعات کو کھول کھول کر بیان کرنے کی بہ جائے افقی ےا عمودی بُعد کے لےے غیر ضروری تصرےحات اور مُحاکات سے اِجتناب اور تجسس کو بڑھاوا دےنے کے لےے واقعہ ، منظر ےا مظہر کے کسی جزو کو مُخَدّر کرنا ےامتن کو چست رَکھنے کے لےے حشووزوائد سے احتراز یا پھر ایجاز اور اختصار جےسے معاملات مانا کہ فکشن کی مبادےات میں سے ہےں ،مگریہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ اس عنوان سے ےہ سب کچھ الگ جاپڑتا ہے، جس کی ذیل میں انہیں رکھاگیا ہے۔ سچ سچ کہو:کیاآنکھیں پھوڑ، بھوں سے دیکھنا، اِسی کو نہیں کہتے ؟


(۴ جولائی۸۰۰ ۲)


—×—


ترجمہ کے اس حصے میں جہاں میں یوسا سے الجھتا رہا ہوں وہاں تمہاری ہمت اور لگن پر حیران ہوتا رہا ہوں تو جہاں جہاں ”خاموش گویائی“ اور ”دزدیدہ سوال“ جیسی تراکیب آئی ہیں ان سے لطف اندوز بھی ہوتا رہا ہوں۔ چند مقامات پر کچھ رخنے تمہاری توجہ چاہتے ہیں۔— ”بیانیہ اقتصاد کا قابل قدر نمونہ“: غالباً یہاں کفایت لفظی مراد ہے ، ”بیانیہ اقتصاد“ اسے نبھا نہیں پایا۔— ”وہ اس کا استنبات کرتا ہے“: ”استنبات“ غلط ٹائپ ہوا ہے، اسے ”استنباط “ ہونا چاہی¿ے۔— ”ان کو ترتیبی ردو بدل کہا جاسکتا ہے“ : کیا ”ردوبدل“ کی جگہ ”ادل بدل“ زیادہ لطف نہ دے گا؟“— ” کہانی چھلانگ لگا کر مستقبل میں پہنچ جاتی ہے،اور شگاف]رخنے[میں، خاموشی کی کھائی میں ایک دزدیدہ سوال چھوڑ جاتی ہے۔“ یہ جملہ نہ صرف طویل اور مبہم ہے جھول دار بھی ہوگیا ہے۔ میرا خیال ہے اس کو یوں رواں کیا جاسکتا ہے۔”کہانی جست بھر کر مستقبل کے رخنے میں پہنچ جاتی ہے،اوراس خاموش کھائی میں ایک دزدیدہ سوال چھوڑ جاتی ہے۔“ یوسا کے اگلے خط ”کمیونی کیٹنگ وے سلز “ پر جلد ہی بات ہوگی۔


محبت کے ساتھ،


__محمد حمید شاہد


اسلام آباد


۵جولائی۰۰۸ ۲
///

No comments:

Post a Comment