Thursday, February 19, 2009

محمد حمید شاہد

پیارے محمدعمر میمن

آداب

حسب وعدہ یوساکے نوجوان ناول نگار کے نام اس خط پر بات کرنے کے لیے حاضر ہو گیا ہوں جس پر Communicating Vessels“ کا عنوان جمایا گیا ہے ۔پیارے! تمہاری طرف سے لمبی چپ نے پریشان کر دیا ہے ۔ اجی میری کسی ان گھڑ بات کو دل میں تو نہیں گاڑھ لیا ۔ جو بات اچھی نہ لگے،اجازت ہے ،مجھے لوٹاسکتے ہو۔ سمجھو میں نے وہ لکھی ہی نہیں ۔ اُدھر تم نے ترکی سے لوٹ کر بولنا ہی ترک کردیا ہے ، ادھر ہمارا ڈاکٹر ریاض احمد ہے (وہی ابن انشا والا) ترکی سے واپسی پر ایک کتاب اٹھالایا ہے جس میں اس عہد کی تصویریں دکھائی گئی ہیں جب شاہی حرم میںعورتیں لائی جاتی تھیں۔کچھ تصویروں میں غلام عورتوں کی منڈی کا نقشہ کھینچا گیا تھا ۔ بھئی کیا تم بھی ادھر ایسی ہی کوئی کتاب دیکھنے میں تونہیں جت گئے ہو ؟مزے کی بات سنو: اُسی عہد کے ایک صفحے کی کہانی اورحان پامک نے بھی سنا رکھی ہے ۔ ”دنیازاد“ کے شکریے کے ساتھ تمہارا دھیان اس کہانی کی جانب چاہیے ۔ اورحان پامک کا کہنا ہے: جب فتح مند فاخرشاہ نے صلاح الدین خان کو شکست دے کر قتل کردیا تو رواج کے مطابق کتابوں کی جلدیں اکھڑوا کر انہیں ازسر نو مرتب کروایا ۔ خان کے کارنامے فاخر شاہ کاحصہ ہوگئے۔ جب کتاب کے تصویری حصے میں شاہی مصورفاخرشاہ کو داخل کر رہے تھے تو وہ خان کے حرم کی حسینہ نریمن کودل دے بیٹھا تھا ۔ وہ فاتح تو تھا مگر اس حسینہ کا دل جیتنا چاہتا تھا۔ ادھر نریمن نے عجب درخواست کردی تھی کہ لیلی مجنوں کی داستان میں، وہ جو خان کی شبیہ ہے، اسے نہ بدلا جائے ۔ ایک صفحے کا معاملہ تھا ،فاخرشاہ مان تو گیا مگر اندر ہی اندر وہ تصویراسے ڈسنے لگی ۔ حتی کہ ایک رات وہ نریمن کے وصل کثیر کے بعد اٹھا ،چوروں کی طرح کتب خانے میں گھسا، اور چوں کہ بادشاہ اتائی مصور بھی ہوا کرتے تھے ، اس لیے خود ہی خان کے چہرے پر اپنا چہرہ بنا ڈالا ۔ اگلے روز تحریف شدہ تصویر میں نریمن کے پہلو میں موجود شاہ کو پڑوسی ملک کے منہ زور حکمران عبداللہ شاہ کے طور پر شناخت کیا گیا۔ غرض اورحان پامک نے کہانی کے آخر میں عبداللہ شاہ کو فاتح دکھایا ہے جو فاخر شاہ کے قتل کے بعدنریمن کا شوہر بن گیا تھا۔ڈاکٹر ریاض احمد کی لائی ہوئی اس کتاب کو دیکھ کر، کہ جس میں گزشتہ ایک عہد کی عورت کو ننگا دکھا کر نیت کا ننگا پن بھی دکھا دیا گیا تھا،اور اورحان پامک کی اس کہانی میں،کہ جس میں کہانی پر کہانی بناتے ہوئے اتائی پن کا کچھ اس طرح مظاہرہ ہوا ہے کہ اچھلی بھلی کہانی ایک عہد پر عمداً کسی ہوئی پھبتی ہو کر پھسپھسی ہو گئی ہے ، میں سوچنے پر مجبور ہوں کہ کہانی میں جہاں جہاں ایک سے زیادہ متون دخیل ہو جائیں، الگ الگ مناظر کو جوڑا جائے یا حقیقت کی مختلف سطحوں کو برتا جائے،وہاں وہاں تخلیقی ہنر کو زیادہ چوکس رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ زور زبردستی سے فکشن بنانے کا چلن چاہے نوبیل انعام یافتہ اورحان پامک کی ایک صفحے کی کہانی میں ہو یا اردو کے مانے ہوئے بڑے کہانی کار انتظار حسین کی نئی پرانی کہانیوں والی کتاب میں‘ صاف صاف چغلی کھاجاتا ہے۔ اوہ ترکی کا ذکر کیا آیا کہ میں اُدھر ہی کو نکل گیا ۔ مجھے واپس آنا ہے ۔ لو آگیا ہوں مگر حیران ہوں کہ آخر Communicating Vessels کا اردو میں تم سے ترجمہ کیسے چوک گیا؟ بھئی بے شک اپنے تئیں یوسا نے ایک تنقیدی اِصطلاح گھڑلی ہے۔ ایسی گھڑنت میں فصاحت کے لیے کچھ فصل واقع ہو جائے تو میں اسے مباح سمجھتا ہوں ۔ خیر مجھے اِس باب میںجو بھی تراکیب سوجھتی ہیں، تمہاری طرف اُچھالتا رہوںگا ۔ چاہو تو ایسی کئی اور بناکر اُن میں سے ایک کو عنوان ٹکالوکہ ”کمیونی کیٹنگ وے سلز“ لکھ ڈالنے سے بات بنی نہیں ۔ میں جانتا ہوں: تم اپنی طبع کی وجہ سے اصل متن سے خوب پیوست رہ کر ترجمہ کرنے کے چلن کو روا رکھتے ہو ۔ ایسے کمال پرستوں کے لیے اصل متن اور ترجمہ میں وہ فاصلہ جو زبانوں کے الگ الگ مزاج کی وجہ سے ضروری ہو جاتا ہے، اس سے بھی اجتناب برتا جاتا ہے ۔ میں نے ”کمیونی کیٹنگ وے سلز“ کی ذیل میں موجود یوسا کے تنقیدی متن کو فلوبیئر کے بدنام زمانہ ناول ”مادام بواری“ کے دیہی میلے کے منظر کے اندر، ترسیل کو توسن کرتے ایمابواری کے اپنے معزز عاشق رودولف کے پرچاتے مکالمے سے لے کر کہانی کہنے کی تیکنیک پراس بحث کے خاتمے کے اعلان تک،ایک ایک جملہ بہت دھیان سے پڑھا ہے۔ اور مجھے محسوس ہوتا ہے کہ تم اس باب میں خوب خوب محنت کرتے ہو۔ اوپر مجھ سے ایک ایسا جملہ خطا ہو گیا جس میں ”توسن “ آگیا ہے۔ ایمابواری جہاں بالائی منزل میں اپنے عاشق کے گرم جوش اعترافات عشق سن کر لطف اندوز ہورہی تھی، وہیں نیچے، صاف نظر آنے والے میلے میں ایک اور طرح کا منظر تھا۔ بالکل الگ دھج کا۔ کسانوں کی جانب سے اپنی فصلوں اور مویشوں کی نمائش کا منظر ۔ اس منظر سے جڑ کر توسن کی طرف دھیان گیا ۔ تم تو جانتے ہی ہو کہ ”توسن “ فارسی میں گھوڑے کو کہتے ہیں۔ لہٰذا مجھے اس حصے کے ترجمے پر جمانے کے لیے ایک عنوان سوجھ گیا ہے ” تَرسیل کو توسن سے اِستعارہ کرتے ہیں“ ۔ تم کہو گے اَجی یہ کیا ہوا ”Communicating Vessels“ کا یہ ترجمہ کیوں کر ہو سکتا ہے ۔ لو صاف کہوں گا یہ ترجمہ نہیں اس عنوان کی ترجمانی ہے جو مصنف نے قائم کیا ہے ۔ چوں کہ فلو بیئر کے ناول کے حوالے میں ایک منظر اور دوسرے منظر کے درمیان موجود وارداتی بعد سے دونوں مناظر ایک دوسرے سے کسی اَسپ کی سرعت کے ساتھ قوت پاتے ہیں لہذا ترسیل توسن سے استعارہ ہو گئی ہے۔ خیر میں جانتا ہوں کہ میری اس تجویز نے تمہارے دل میں جگہ نہیں بنائی ہوگی۔ یوسا نے جس طرح"Communicating Vessels"کو اصطلاح بنا ڈالا ہے ,تم بھی یہاں ایک عدد اصطلاح چاہو گے؛ محض اس موضوع کا عنوان نہیں۔ جی ٹھیک ہے اس طرح کی خواہش میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔ لو ایک دلچسپ اصطلاح سوجھ گئی ہے اور یہ بھی”مادام بواری“ کے اسی دیہی میلے سے سوجھی ہے جس کا ذکر یوسا نے کیا ہے ۔ یہ اصطلاح ہے ” ترسیلی توڑے“۔ تم یقیناً جانتے ہو گے کہ ”توڑا “ ہندی میں اس لکڑی کو کہتے ہیں جسے دو بیلوں کی گردن پر ڈال کر انہیں ہل کے لیے جوت لیا جاتا ہے ۔ ہمارے ہاں اسے” پنجالی“ بھی کہتے ہیں ۔ اس اصطلاح کے دھیان میں آتے ہی ” توڑا“ کے ایک اور معنی، یعنی ”بندوق داغنے کا فتیلہ“ بھی پیش نظر رہا ہے ۔ اس میں دوبیل دو الگ الگ متن کی صورت ہیں اور ”پنجالی“ نے انہیں باہم جوڑ دیا ہے جب کہ معنیاتی ترسیل اور انسلاک کی سرعت کی طرف فتیلہ دھیان لے جاتا ہے۔ایمابواری اور رودولف کے اُتھلے عشقیہ مکالموں اور زرعی میلے کے مبالغہ آمیز اور طنزیہ طور پر پیش کیے گئے منظر میں بظاہر کوئی رشتہ نہیں ہے۔ یوسا نے اپنے موقف کے لیے بجا مثال دی ہے۔ واقعی ان واقعات کو یوں ساتھ ساتھ رکھ دینے سے دونوں طرف کی ترسیلی تومڑیاں تاثیر کے حوالے سے جذر ناطق کے سکوں سے بھر گئی ہیں ۔ اسی حصے میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر آنے والی تین تراکیب نے مجھے بہت لطف دیا ہے ۔ یہیں اس کا ذکر کرلوں تو آگے چلوں گا۔ جی یہ ہیں: ” انسانی ابلہی “ ”روحانی دوغلاپن “ اور ” تیزابی طنز“ ۔ بہ طور خاص پہلی ترکیب میں ”الف“ ”الف“ کی تکرار اور آخر میں ”ت“ اور” ط“ سے پیدا کیا گیا صوتی آہنگ بھلا لگتا ہے۔ یہیں مجھے یوسا کالچھوں کی طرح سیاسی اور رومانی چرخیوں سے اترتے مناظر کو تشبیہ دینا بھی مزا دے گیا ہے ۔ یوسا نے” ترسیلی کنایے “( لو جی، ایک اور عنوان ٹپک پڑا) کی جو تعریف متعین کی ہے اس کے مطابق دو یا زائد وارداتیں جومختلف وقتوں اور مختلف مقامات یا حقیقت کی مختلف سطحوں پر رونما ہو رہی ہوتی ہیں، اپنی قربت اور امتزاج سے ایک الگ علامتی قدر کو قائم کر دیتی ہیں۔ اس طریقہ کار کے تحت جو توسیعی اشارے یا باہمی اِتصالات بنتے ہیں انہیں ڈھنگ سے کام میں نہ لایا جائے تو تاثیر کا بیڑا غرق بھی ہوسکتا ہے۔ ہمارے ہاں ساٹھ اور ستر کی دہائی کے اکثر علامت اور تجرید کاروں کے ساتھ یہی سانحہ تو ہوا تھا۔ ایک دفعہ پھر میں تمہاری توجہ اسی عہد کے ایک اہم اور نمایاں افسانہ نگار منشایاد کی گواہی کی طرف چاہوں گا جو گزشتہ کسی خط میں دے آیا تھا۔ پیارے میمن ، اس ”بیڑا غرق“ ہونے سے یاد آیا کہ Vessels بحری بیڑے کو بھی تو کہتے ہیں۔ ایک کنارے کے لوگوں اور سامان کو پانی پر تیرتے ہوئے یہ جہاز دوسرے کنارے پر جا اتارتے ہیں۔ شاید اسی سے یوسا نے "Communicating Vessels" کی اصطلاح بنالی ہوگی ۔ چوں کہ ہمارے ہاں ”بیڑا“ بڑی کشتی اور بحری جہازوں کی قطار کو بھی کہتے ہیں لہٰذا یوں ایک اور اصطلاح بنائی جاسکتی ہے : ” ترسیلی بیڑا“۔ کہو، یہ اصطلاح کیسی رہی ؟ کورتازار کی کہانی ”دی آئے ڈُول اَوف دی سکلاریز“ والی مثال سے یوسا نے اپنی بات کو زیادہ خوبی سے سمجھایا ہے۔ مختلف زمانی ٹکڑوں کے پیوند سے جس طرح معنی کا تقلب ہوتا ہے وہ اس مثال سے بجا طور پرظاہر ہوگیا ہے ۔ vessels چوں کہ ناند یا کٹورے کو بھی کہتے ہیں لہٰذا ایک اور ترکیب ”ترسیلی کٹورے“ بھی ہو سکتی ہے جو ایک طرف کا معنیاتی پانی بھر بھر دوسری سمت ڈالتے رہتے ہیں اور تاثیر میں اضافے کا موجب ہوتے ہیں ۔ ویسے vessels نس یا شریان بھی تو ہوتی ہے ۔ کہانی ہوتی ہی انسانی بدن کی طرح ہے ایک مکمل جیتا جاگتا وجود اس کی شرائین میں لہو دوڑتا رہے تو ہی اس کا پورا وجود سلامت رہتا ہے ۔ یوں ایک اور ترکیب بنتی ہے : ”ترسیلی شرائین“۔یہیں ایک واقعہ یاد آگیا ہے جی چاہتا ہے لکھ دوں ۔ یہ واقعہ میں نے ”شعرالعجم“ میں پڑھا تھا ۔ کہتے ہیں حسان بن ثابت کے ننھے منے بیٹے کو ایک بھڑ نے کاٹ لیا ۔ وہ روتا روتا باپ کے پاس آیا ۔ باپ نے پوچھا : ”بیٹے کیا ہوا؟“ روتے ہوئے بچے کا جواب تھا: ” مجھے اس نے کاٹ لیا“ ۔ حسان نے پوچھا: ”اس کا کوئی نام بھی تو ہوگا؟“ بچہ یہ تو جانتا تھا کہ اسے بھڑ نے کاٹا تھا مگر یہ نہیں جانتا تھا کہ اس کا نام کیا ہے۔ حسان نے کہا: ”اچھا اس کی صورت بتاﺅ ؟“ بچے نے یہاں جو جواب دیا اگرچہ اسے حسان نے شاعری قرار دیا تھا مگر میں اسے فکشن کا جملہ سمجھتا ہوں ۔ لو پہلے وہ جواب سن لو پھر مجھ سے میری فہم کا جواز سن لینا۔ بچے کا جواب تھا: ”کانہ ملتف ببردی حیرة“ (گویا یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ مخطط چادروں میں لپٹا ہوا ہے)۔اگرچہ یہ جملہ موزوں نہ تھا مگر شبلی نعمانی کا کہنا ہے بچے کے جواب میں ایک تشبیہ استعمال ہوئی تھی لہٰذا اسے شاعری سمجھا گیا۔میں نے بچے کے بےان کو فکشن کا جملہ یوں کہا ہے کہ اس میں بھڑ کے کاٹ لےنے والاحادثہ مقام بدلنے سے اور تھوڑا ساوقت آگے کر دےنے سے رواےت ہوتے سمے اپنی تفہےم اور معنوےت میں کئی گنا اضافہ کر گےا ہے۔ بظاہر یہ ایک وقوعہ ہے مگر اس کے دوطرح کے بےان نے (راوی کاصاف سےدھا بےان: ”بھڑنے کاٹ لیا“۔ بچے کابےان: ”مخطط چادروں میں لپٹا ہوا تھا“) اےک جمالےاتی بعد بھی پیدا کر دیا ہے۔ جو باتےں ےوسا نے کیں انہیں مانتا ہوں تاہم میں چاہوں گا کہ تےکنےک کے اس رخ کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا۔ چندمشورے :— ”کمیونی کیٹنگ وے سلز“ والے حصے میں ”ترغیب “ کو” تاثیر“ سے بدلنے کا قدیمی مشورہ ہے ۔ — اسی حصہ کے چوتھے پیرا گراف کے پہلے جملے میں” کمیونی کیٹنگ وے سلز کے ہاتھوں “ کھٹکتا ہے ۔ ”ہاتھوں “ کو ”وسیلے سے “ سے بدلا جاسکتا ہے۔ — یہیں ایک جملہ یوں تمام ہوتا ہے: ” بالآخر ایک دوسرے کو غرقاب کر دیں گے “۔ یہاں اگر ”غرقاب “ کی جگہ ”تحلیل“ آئے تو کیسا رہے گا؟— قریب ہی ایک اور جملہ ایسا ہے جس میںکمیونی کیٹنگ وے سلز کا دستہ عام دستے کے اندر ملفوف دکھایا گیا ہے ۔ پہلے والے ”دستہ“ کی جگہ ”نظام“ اور ”عام دستے“ کی بہ جائے ”عمومی وسیلے “ کے استعمال سے جملہ چست ہو سکتا ہے۔ — ایک جگہ ایک لفظ یوں ملتا ہے ”اچمبھا“ : میرا خیال ہے یہ لفظ ”اچنبھا“ یا”اچنبا“ لکھا جانا چاہیے جو حیرت کے معنی دیتا ہے۔ — ” آژار قدیمہ“ کی جگہ بھی”آثار قدیمہ“ درست لگتا ہے ۔ لگتا ہے اب مجھے رُک جانا چاہیے کہ بات تو تمام ہو چکی۔ اب تو آخر میں” پس نوشت کے طور پر “ یوسا کا یہ کہنا باقی رہ جاتا ہے: ”کوئی تخلیق کرنا نہیں سکھا سکتا “۔ اس جننے میں اپنا انوکھا درد اپنے طور ہی سہنا پڑتا ہے۔ تنقیدی عمل تو بس چوک میں کھڑے اس چالاک آدمی کی طرح ہوتا ہے جو منزل پوچھنے والے کو دور اشارہ کرتے ہوئے ایک سمت کو ٹھیل دیا کرتا ہے۔ لو، پیارے میں اب اجازت چاہوں گا کہ مجھے سب کچھ بھول کر اپنے تخلیقی عمل کی طرف لوٹنا ہے اور ان کہانیوں کو لکھنا ہے جو ایک مدت سے میری تاہنگ میں ہیں : اپنی ترکیب اپنی اپنی انگیا کے بنگلے میں چھپائے ہوئے۔ ایسے میں مجھے تخلیقی عمل کی طرف دبے پاﺅں ہی جانا ہوگا ،ورنہ انگیا کی چڑیا اڑ گئی تو کٹوری میں سے گری تیکنیک مٹی میں رُل کر مٹی ہوجائے گی۔محبت کے ساتھ اور اس امید کے ساتھ کہ ہم پورے اخلاص اور پوری توجہ سے کہانی کی کومل کنیا کا قرب حاصل کر پائیں گے۔

__ محمد حمید شاہد

اسلام آباد

۷جولائی۰۰۸ ۲

No comments:

Post a Comment