Friday, February 20, 2009

محمد حمید شاہد

پیارے عمر میمن
:آداب
گذشتہ خط میں راوی‘کرداراور مکان کی بات ہو رہی تھی اور یوسا نے راوی کی جو تین قسمیں بتائی تھیں ان کو سامنے رکھ کر لگ بھگ ہم متفق ہو چلے تھے کہ راوی کہانی کے اندر کا کوئی کردارہوسکتا ہے اور دوسرے کرداروں کے ساتھ مل کر اپنے لیے جگہ اور جواز بناتا ہے۔ وہ راوی جوکہانی میں بہ ظاہرکہیں نہیں ہوتا مگر ہرکہیں ہوتا ہے، وہ کہانی میں خدائی آنکھ لے کر آتا ہے ،ہر رخ سے دیکھتے ہوئے مگر خدا کے لہجے میں بولتا نہیں ہے۔ تیسری قسم کے مطابق راوی اپنے تئیں قاری کو غچہ دے سکتا تھا،کبھی اندر ،کبھی باہر، کبھی یہاں کبھی وہاں۔ اسے راوی نہ کہیں چھلاوا کہہ لیں مگر اسی سے کہانی کا مکان اور رفتا ربدلتی ہے۔ میں نے لگ بھگ یوسا کی بات کی تلخیص کر دی۔ کہنا مجھے یہ تھا کہ ان ساری صورتوں میں کہانی کے اندر کرداروں کا دائرہ کار متعین اورمرتب ہوتا ہے ۔ کردار چاہے کتنے ہی خیالی کیوں نہ ہوں اپنے وجود کو ساتھ لے کر کہانی میں وارد ہوتے ہیں لہذا وہ علاقہ جہاں کرداروں کی چلت پھرت ہوتی ہے، وہ نمایاں ہوتا چلا جاتا ہے ۔ اگر تم میری بات کے ساتھ ساتھ چل رہے ہو تو جان گئے ہو گے کہ یہی راوی بڑی حد تک نہ صرف کہانی کی ساخت بنا دیتا ہے،‘مکانی تعیین بھی کردیتا ہے۔ پیارے یہ بھی کوئی نئی بات نہ ہوئی، تاہم میں تمہیں جس بات کی طرف گھیر گھار کر لانا چاہتا ہوںاس کے لیے ماحول بن چکا ہے۔دیکھو، مکان کے ساتھ زندگی کی مہملیت جڑی ہوئی ہے ۔ گویا جہاں ہم ہیں ہمارا راوی ہے اور ہمارے کردار کی چلت پھرت ہے، اس مکان سے مہملیت کو نکالا نہیں جاسکتا ہے۔ اب لکھنے والا، اپنے راوی کو کس حد تک اس کی اجازت دیتا ہے کہ مہملیت سے معاملہ کرے اور کہانی کو ”صراط مستقیم“ پر چلانے کی بہ جائے اس میں اسی مہملیت کے سہارے شاخ تازہ کی سی لچک پیدا کرلے یا یوں کہہ لو کہ نیک آدمی کو وہ تھوڑا سا گناہ جو‘ بہت زیادہ لذت دیتا ہے، اس کی گنجائش پیدا کرے۔ خیر اس معاملے میں لکھنے والے کا حددرجہ کایاں ہونا بہت ضروری ہے۔ بھئی یہاں تو کوّے کا دماغ چاہیے کہ ادھر آئے ،مطلب کی چیز اُچک،اپنے منظر نامے میں اُتر گئے۔( ویسے آپس کی بات ہے کوا بہت سیانا ہوجائے تو گو کھاتا ہے۔ میں اس سیان پنے کو ایسی معصومیت کے تابع رکھنا چاہوں گاجو معصیت کو بھی ادائے دل رُبا بنا دیا کرتی ہے) ۔ یوں (یہی مہملیت جو انسانی زندگی کا بھی ایک لازمی عنصر ہوتی ہے) کہانی کو گمراہ نہیں کرتی اسے گداز بنا دیتی ہے۔ اب تم کہو گے کہ معنویت اور مہملیت دونوں ساتھ ساتھ کیسے چل رہے ہوتے ہیں؟ لوجی ان کے بیچ تو اینٹ کتّے کا بیر ہے؟ تو یوں ہے پیارے کہ دن کی روشنی اور رات کی تاریکی دونوں سے مل کر ہماری زندگی کی کہانی معتبر ہوتی ہے ۔ حالاں کہ ایک کی آمد دوسری کی رخصت کا اعلامیہ ہے ۔ ہم اس پرقادر نہیں ہیں کہ وقت کے اس دورانیہ کو،کہ جس میں ہم ایک متحرک مکان میں رہتے ہوئے بھی اپنے حواس معطل کرکے ساکت ہو جاتے ہیں، زندگی سے کاٹ پھینکیں۔ اگر ہم یہ نہیں کرسکتے تو دوسری طرف ہم یہ بھی تو نہیں چاہتے کہ مہملیت کے پنگھوڑے میں ہمیشہ پڑے رہیں ۔ حتی کہ ہمیں یہ بھی گوارا نہ ہوگا کہ مہملیت کا عرصہ،عین مین اپنی حقیقی مقدار میں لے لیا جائے۔ پلٹ کر دیکھیں تو اس کا بہت کم حصہ ہمارے شعور سے لاشعور میں منتقل ہوتا ہے۔ بس اتنا ہی مکان پر زندہ رہ جاتا ہے۔ میں تو کہوں گا آٹے میں نمک جتنا؛ تم چاہو تو اس کی مقدار کو حسب ذائقہ (حسب توفیق)کم زیادہ کر سکتے ہو۔ زندگی کی معنویت، لغویت اور مہملیت مل کر کہانی کے کرداروں کی رفتار متعین کرتی ہیں۔ ممکن ہے، جن معاملات میںمیں اُلجھ گیا ہوں آگے چل کر یوسا نے ان پر بات کی ہو ۔ خیر یہیں مجھے التباسیت اور سرابیت کا ذکر بھی کردینا ہوگاکہ بعد میں معلوم نہیں اِس کا محل نکلتا ہے یا نہیں۔ کہنا یہ ہے جا ن من کہ ہم اپنے راوی اورکرداروں کے ساتھ illusion اورdisillusionکی آنکھ مچولی کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ التباس کا عمل کبھی توزندگی کی معنویت سے جڑجاتا ہے اور کبھی اس کی لغویت یا مہملیت سے ۔ معاملہ الٹا کر فریب نظر کے ٹوٹنے کو بھی انہی دو صورتوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ بھئی غالب بھی کیا کمال آدمی ہے، مجھے مشکل میں دیکھتے ہی میری مدد کو لپک آیا ہے:
جب تجھ بن نہیں کوئی موجودپھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
کہانی کے خدا کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے وہ اپنی کائنات میں ظاہر ہوجائے تو کائنات منہا ہو جاتی ہے، سارا ہنگامہ دھوکا نکلتا ہے، سب کچھ مہمل ہو جاتا ہے اور وہ اپنا خدائی کردار کہانی کے کرداروں کے بھیتر میں اتار کر الگ ہوجائے تو اس کا اپنا وجود التباس ہو جاتا ہے ۔ یہی التباس اس حقیقی زندگی کے حوالے سے بھی قائم ہوتا ہے جو پڑھنے والا کہانی کے اندر سے پھوٹتی ہوئی محسوس کرتا ہے۔ اب تم ہی کہو کہ جب ہم راوی، کردار اور مکان کی بات کریں گے تو پیارے، ان امور سے خود کو کیسے الگ رکھ پائیں گے ؟ اب تک کی گفتگو سے تم قیافہ لگا چکے ہوگے کہ میں جس راوی کی بات کر رہاہوں وہ تخلیق کار نہیں ہوتا مگر اُس سے جدا بھی نہیں ہوتا۔ اگر اس بنیادی نکتہ اور اس کی تمام نزاکتوں کی تفہیم کر لی جائے تو کردار وں کی تشکیل کے وقت ان کی آزادی اور خود مختاری یقینی ہو جائے گی۔ بیانیہ کے اندر کرداروں کو اس راوی کے زیر اثر کرلینا جو تخلیق کار کے سائے میں چل رہا ہو ان کی فطری نمود اور بالیدگی میں مزاحم ہو جاتا ہے۔ جس طرح ہر انسان کے اندر بڑھنے اور پھلنے پھولنے کی خواہش ہوتی ہے اور یہ خواہش ایک دائرے سے دوسرے مگر قدرے وسیع دائرے کی سمت مسلسل لپک کی صورت ظاہر ہوتی رہتی ہے ۔ راوی کے دائرہ عمل سے کرداروں کا باہر کی جانب زور کرنا بھی اسی زمرہ میں آتا ہے۔ یوں وہ کردار کہانی کے اندر ارتقائی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے تیار ہو جایاکرتے ہےں۔ اب تم کہو گے کہ لکھنے والا بہر حال انسان ہوتا ہے، سوچنے والا، سمجھنے الجھنے اور طیش میں آنے والا۔ وہ کسی سے نفرت کرتا ہے اور کسی سے محبت ۔ اسی کی وساطت سے وہ اپنے تعصبات اپنے راوی اور کرداروں کو منتقل کرنے سے کیسے باز رہ سکتا ہے ؟ یقینا نہیں،مگر وہ جو یو سا نے کہا ہے کہ اسے تشریحی راے زنی، ترجمانی، اور فیصلہ دہی سے اجتناب کرنا ہوگا تو اس پر دھیان دینا ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں، ایک عام لکھنے والے میں اور فکشن نگار میں بنیادی فرق ہی یہی ہوتا ہے۔ اوّل الذکر کا سارا زور اس پر ہوتا ہے کہ اسے جو لکھنا ہے وہ لکھتا چلا جائے جب کہ فکشن نگار کو خبر ہوجاتی ہے کہ اس لکھنے کی جھونک میں جو نہیں لکھنا تھا وہ نوک قلم پر آیا چاہتا ہے،لہذا وہ اسے روک دیتا ہے۔ اسے روک دینا ہوتا ہے کہ بہر حال اسے اپنے کرداروں کی آزادی عزیز ہوتی ہے اور اس مکان کی حرمت بھی جس میں اس کے کردار موجود ہوتے ہیں۔ کردار سازی کا قضیہ یہیں تمام نہیں ہوجاتا ،تخلیق کار کا اپنا اسلوب حیات جس تخلیقی ساخت سے قریب ہوتا ہے اسی وضع کے کردار بنے چلے جاتے ہیں۔ وہ فکشن نگار جو زندگی کو جزیات کے ساتھ دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں اور بغیر کوئی اکھاڑ پچھاڑ کیے، بیانہ لکھنے کی طرف راغب رہتے ہیں، ان کے کرداروں کا مزاج، اُن تخلیق کاروں سے مختلف ہو جاتا ہے جوراست بیانیے کوذرا سا الٹ پلٹ کر جدید حسیات کے لیے گنجائشیں نکال لیا کرتے ہیں۔ اجتماعی زندگی کی علامت بننے والے کرداروں کی دھج، وجودیت کے مظہر کرداروں سے جدا ہوتی ہے ؛بالکل اسی طرح‘ جس طرح زندگی کہ باطنی جہات سے جڑ نے والا تخلیق کار،مظاہر فطرت کو چوپٹ آنکھ سے دیکھنے والے تخلیق کار کی طرح کردار سازی نہیں کرتا اور نہ ہی کرسکتا ہے۔ یہ بات بھی ایک بار پھر دہرا دینے کے لائق ہے کہ کرداروں کا منصب محض حقیقی زندگی(اگر کوئی ہے ؟)(ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے:غالب) کی نمائندگی نہیں ہوتا بل کہ انہیں تو ایسی حقیقت کا مظہر ہوجانا ہوتا ہے جو تجربے میں آنے والی زندگی سے کہیں وسیع اوربسااوقات لامحدود ہوجاتی ہے۔ اجی میں بھی کن اُلجھنوں کا اسیر ہواکہ مجھے تو یوسا کے زمان والے خط کے حوالے سے بات کرنا تھی۔ بھئی اگلے خط میں اپنے آپ کو اسی تک محددد رکھنے کی کوشش کروں گا۔ امید کہ تم بہت مزے میں ہوگے ۔

محبت کے ساتھ

محمد حمید شاہد

اسلام آباد: ۶ مئی ‘۸۰۰۲

No comments:

Post a Comment