Friday, February 20, 2009

محمد حمید شاہد

پیارے عمر میمن
:آداب ۔
تمھاراخط آنے سے پہلے میںتمہارے والا مضمون نہ صرف” نقاط“ کے لیے بھیج چکا تھا اس کے مدیر سے بات بھی کر لی تھی۔ تاہم مجھے خدشہ ہے کہ ان پیج فائل اس سے نہ کھل پائی ہوگی کہ میں اپنے تئیں ساری کوشش کر بیٹھا اور ناکام رہا تھا۔ تو یوں جانو گویا اس مضمون کا” نقاط“ تک پہنچا نہ پہنچا ایک برابر ہوا۔ رہ گئی یہ بات کہ محمد سہیل عمر اسے کتابی صورت میں چھاپنے کوتیا ر ہے تو یوں ہے کہ اس سے بہتر اور خبر کیا ہوگی۔ادھر اقبال اکادمی میں سہیل عمر اوراحمد جاوید دونوں اس موضوع کا خوب خوب دم بھرتے ہیں۔ ان کی جانب سے قابل توجہ مشورے آ سکتے ہیں۔ مجھے طالب علم سمجھ کر مضامین کے اس سلسلے کو بھیج سکو تو کیا خوب،کہ میں بھی پڑھ کر لطف لےتا رہوں گا۔ یو سا کے حوالے سے ہمارے درمیان جو بات چل رہی تھی وہ محض یوسا کی تحریر کی تحسین یا تعریف سے کچھ آگے نکلنے لگی تھی اور مجھے فکشن کے بھیدوں کو یوں سمجھنے کے جتن کرنا اچھا لگ رہا تھا جب کہ تم الجھ رہے تھے ۔ ظاہر ہے تم نے یوسا کو خوب محنت اور محبت سے ترجمہ کیا، اس کے ساتھ رہے اور ایسا کرتے ہوئے بڑی حد تک اس کے ہم نوا بھی ہو گئے ۔ میں نے یوسا کو تمہارے وسیلے سے پڑھا، اور ایسے زمانے میں پڑھا جب فکشن پر اس ڈھنگ سے بات کرنے کا چلن نہ رہا تھا۔ میرے لیے یہ بات بہت اہم تھی کہ یوسا سنجیدگی سے فکشن کے تخلیقی مباحث کو اٹھا رہا تھا۔ میرے لیے یہ بات بہت بعد کی تھی کہ میں اس سے کس حد تک متفق ہو سکتا تھا۔ اگر سچ پوچھو تو دو لکھنے والے ایک دوسرے سے سو فی صد متفق ہونے لگیں تو جانو تشویش کی بات ہے۔ لہذا اے میرے دوست یوسا کی تحریر کے مقابلے میں مجھے الجھنے دو اور یوسا کی من موہنی تحریر پر محبت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے،اکھّو‘مکھّودِیا برکھّو مت کہنے لگا کرو ۔ لو میرا بھی وعدہ رہا کہ جہان جہاں تم مجھے جھٹلاﺅ گے اس کی بابت دل میں بھریڑی نہ بناﺅں گا،ڈیک لگا کر پی جایا کروں گا۔ یوسا نے سطح حقیقت کے حوالے سے جو باتیں کیں، میں نے اُنہیں پوری توجہ سے پڑھا ہے۔ وہ زیادہ تر حسی حقیقت اور فینطاسی کی سطحوں کو بیان کرنے کی طرف متوجہ رہا ہے۔حقیقت کی ایک سطح پر بہ قول اس کے کہانی وقوع پذیر ہوتی ہے ۔ حقیقت کی یہی سطح کہانی کے راوی کے مقام اور اس کی کارکردگی کے دائرہ کارکو متعین کرتی ہے۔ یہاں یوسا کی باتیں بہت توجہ سے پڑھے جانے کے لائق ہیں۔ تم نے الجھے ہوئے اور گہرے متن کو خوب رواں کیا ہے ۔ یوسا نے لگ بھگ اسی مقام پر کہا ہے کہ حقیقت کے باب میں ہمارا سامنا ایک بے کنار لامتناہیت سے ہوتا ہے ۔ اس کی یہ بات بھی مان لینے کے لائق ہے کہ نظریاتی طور پر حقیقت کوسطحوں کی ایک غیر محدود تعداد میں تقسیم کیا جاسکتا ہے اور یوں فکشنی حقیقتوں میں لامتناہی نقطہ ہاے نظر اُبھر سکتے ہیں۔یوسا نے جوکہا،دیکھو میں نے مان لیا ۔ اب اجازت دو کہ یوسا کے اس طرزاحساس سے، جس کے زیر اثر اس نے اصرار کیا ہے کہ فکشن درحقیقت سطحوں کی صرف ایک محدود تعداد یعنی ”حقیقی“ اور ” فینطاسی“ تک ہی محدود ہے؛ اس سے اختلاف کروں۔ خیر کہنے کو تو اس نے فینطاسی کہہ کر کام چلا لیا ہے مگر اس فینطاسی میں تصوّر کی سطحوں کو داخل کرکے میری کئی طرح کی الجھنوں کو رفع کرنے کا اہتمام بھی کردیا ہے ۔ لو دہر ائے دیتا ہوں: طلسمی، معجزاتی، پرانی روایات، اسطوری، وغیرہ، وغیرہ۔اُدھر یوسا نے کہا اِدھرجھٹ سے میں نے مان لیا۔ کہو کیسا رہا؟ اب خود ہی کہو، وہ باتیںجو میرے اندر بھانبھڑ مچا رہی ہیں ان کا کیا کروں؟ یقین جانو یہ باتیں ایسی نہیں ہیں جنہیں یوسا کے حق یا مخالفت میں ڈال کر ہی سمجھا جا سکتا ہے ۔ تم نے یو سا کی یہ والی ساری عبارت ترجمہ کر ڈالی ہے۔ دل پر ہاتھ رکھ کر کہو، یہ حقیقت جو بہر حال دیکھنے میں پڑاقے کی گوٹ ہے، اپنے اندر میں بھی تو کچھ ہے، کیا اس کی اصل کو آنکنے کی کوشش کی گئی ہے؟ شاید نہیں ۔ حقیقت کو حسی طور پر پرکھنا اور گمان باندھ بیٹھنا کہ بس یہی حقیقت ہے اور باقی فینطاسی ہی فینطاسی ہے میں اسے کیسے مان لوں؟ جب کہ یوسا خود بھی مان چکا ہے کہ حقیقت بے کنار لامتناہیت ہے، اسے نظریاتی طور پر غیر محدود تعداد میں تقسیم کرکے لامتناہی نقطہ ہاے نظر اُبھارے جا سکتے ہیں۔میمن پیارے، جس کی طرف یوسا نے اشارہ کیا اور بغیر اس کی تفصیل میں جائے فینطاسی کہہ کر کام چلا لیا،فی الاصل اسے سمجھے بنا ہم فکشن کو گھڑت سمجھتے رہےں گے۔ ایسی گھڑت جس کا وجود نہیں ہوتا مگر وہ اپنے ہونے کا سوانگ بھرتی ہے۔ شاید یہی وہ نقطہ تھا جو تمہیں بہ سہولت ہضم نہیں ہو پارہا تھا۔ گویا تم اور تمہارا یوسا یقین کیے بیٹھے ہو کہ فکشن لکھنے والا جھوٹی بات بناتا اور پانی میں آگ لگاتا ہے۔ میں ذرا مختلف وضع کا آدمی ہوں حقیقت کے جس تصور کو مانتا ہوں اس کا ایک تقاضا اِسے بھی سمجھتا ہوں کہ فکشن کے تخلیقی عمل میں گھڑنت سے نہیں بل کہ زندگی کی تخلیقی نو سے معاملہ ہوتا ہے۔لکھنے والا پائینچا بھاری کر،ٹاٹ بچھا‘ٹھیّے پر بیٹھ کر کہانی کا ٹھیکرارنگ لینے سے کام نہیں چلاتا؛ اپنے بھیتر میں اتر کر حقیقت کے اس آہنگ کو گرفت میں لیتا ہے جو حسی حقیقت سے کہیں بڑی حقیقت ہوتی ۔٭٭میمن: چوں کہ اس خط کا جواب لکھنے کی نوبت نہ آئی، یہاں میں صرف اتنا ہی کہوں گا آپ ایک ایسے نکتے پر الجھ رہے ہیں جو یوسا کا موضوعِ بحث نہیں۔ یہاں ”حقیقت“ کی کیفی حیثیت یا قدر شناسی کا معاملہ نہیں۔ چلیے مان لیا، بہ قول آپ کے لکھنے والا ”اپنے بھیتر میں اتر“ لیا، اور اس نے ایک ایسی حقیقت کو بھی گرفت میں لے لیا (بھائی، یہی تو وہ کرتا ہے!)جو حسی حقیقت سے کہیں بڑی چیز ہے، تو یہ بصیرت آخر جگر جی، سچ پوچھو تو اس باب میں ہمارے ہاں بھی ہر کوئی اپنے اپنے ڈھب سے جریب پھینکتا رہا ہے۔ مجھے فیض احمد فیض کی باتیں یاد آرہی ہےں۔ میں نے انہیں اپنی کتاب” اردو افسانہ:صورت معنی“ میں لکھا بھی ہے مگر جی چاہتا یہاں ایک دفعہ بھر دہرا دوں۔” یہ گفتگو آل اِنڈیا ریڈیو،لاہور سے ۸۱ جون ۱۴۹۱ ءکو نشر ہوئی تھی اور فیض نے آغا عبدالحمید کو اس کے پریم چند کے حوالے سے ”مجلس“ میںچھپنے والے مضمون پر آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا تھا کہ تم نے تو اس تحریرمیں پریم چند کو ٹالسٹائی بنا دیا اور دستو ئیوسکی کا یوں ذکر کیا کہ وہ بھی چھوٹا معلوم ہونے لگتا ہے۔ فیض کااصرار تھا کہ پریم چند کی حقیقت نگاری بہت حد تک محدود ہے۔ اس کے(گزشتہ صفحہ سے پیوستہ) کس زمان و مکان میں وجود رکھے گی؟ یہ ایک آگہی ہے جس کا وجود سراسر ذہنی ہے۔اس اعتبار سے دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ فکشن کو ایک ”گھڑت“ کہنا اس کو یا ”حقیقت“ کو بے آبرو کرنا نہیں ہے ، بہت سےبہت تو اسے ایک اندازِ تکلّم کہا جاسکتا ہے جس میں یہ اشارہ شامل ہوتا ہے کہ ایک نا شناسا اور آسانی سے نظر نہ آنے والی عمیق حقیقت کو ، جو اصلاً ایک ذہنی اور نفسیاتی نوعیت کی چیز ہے، ناولی زمان و مکان میں تخلیق کیا جارہا ہے۔ ظاہر ہے ایسی ”تخلیق“ ہمارے عادی سیاق و سباق میں ایک وضع کردہ (میں دانستہ ”ساختہ“ نہیں لکھ رہا ہوں)شے ہی معلوم ہوگی (ایک استعارہ)۔ ایک عارف کی مثال لیں: حالت فنا میں وحدت الوجود باقی رہتی ہے، لیکن اسے آگہی بھی نہیں کہا جاسکتا کہ نہ یہاں وہ باقی بچتا ہے جسے آگہی ہورہی ہو، نہ وہ جس سے آگہی مقصود تھی اور نہ خود آگہی۔ بس ایک ”وجود“ ہے اور سب کچھ منہا ہوگیاہے۔ ما وراے عقل کی اس اقلیم یا بُعد میں جو اس پر منکشف ہوا ہے اسے ٹھوس زمان و مکان میں آپ کس طرح بیان کریں گے؟ اگر رومی یا ابن عربی ہوئے تواستعاروں کی زبان استعمال کریں گے۔ ( آپ ٹھہرے غالب کے عاشق۔ وہ شعر یاد ہے؟ ”ہرچند ہو مشاہدہ¿ حق کی گفتگو/ بنتی نہیں ہے ساغرومینا کہے بغیر“۔ یا اوحد الدین کرمانی کی ایک رباعی کا یہ بیت: ”ور در غزل[ی] نام خط وزلف برم/می دان کہ بہانہ است، مقصود توئی“) سو برادرم،سوال یہ ہے کہ جس چیز کا عرفان حالتِ مطابق حقیقت ایک جامع چیز ہوتی ہے اور اس کی وضاحت وہی شخص کر سکتا ہے جس کے ذِہن میں سماج کا مجموعی تصور موجود ہو جبکہ پریم چند کے ذہن میں یہ تصور موجود ہی نہیں تھا۔ پریم چندصرف ایک ہی طبقے کی زندگی کو نمایاں کرکے دکھانے کے قابل تھا۔ فیض کا اعتراض یہ بھی تھا کہ پریم چند زندگی کے بہت سے پہلو و¿ں کے متعلق نہ صرف خاموش رہتا تھا بل کہ اُن سے دَانستہ چشم پوشی بھی کر لیا کرتا تھا۔ یوں فیض نے صاف صاف فیصلہ سنا دیا تھا کہ منشی پریم چند اور جو کچھ بھی ہو حقیقت نگار ہر گز نہیں کہلایا جا سکتا۔ یا د رہے یہ پریم چند کی وہی حقیقت نگاری ہے جس کی نظیر سید سبط حسن کو کہیں اور نہیں ملتی تھی ۔ ”افکار تازہ“ میں تم نے اُس کی وہ تحریر یقینا دیکھی ہوگی جس میں سبط حسن نے پریم چند کی طرف سے پیش کیے گئے کسانوں کی آزادی کے تصور کو بہت سراہا اور اس کی تعبیر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اِس سے اُس کی مراد سیاسی یا اِقتصادی آزادی نہیں بل کہ تخلیقی عمل کی آزادی یعنی بشری آزادی تھی۔ سید سبط حسن کا موقف تھا کہ پریم چند کا یہ تصور روسو کی رومانیت نہیں بل کہ عین حقیقت شناسی تھی۔ اُس نے اِس کو ایک عظیم فن کار کی پروازِ تخلیق کی معراج قرار دیا تھا۔ پریم چند کے ہیگل اور مارکس کے فلسفہ بیگانگی سے واقف ہونے کی بابت سید سبط حسن کو شک تھا تاہم وہ اِس پر یقین رکھتا تھا کہ پریم چند کسانوںکے آزاد تخلیقی عمل کا موازنہ پرولتاریہ کے غیر آزاد تخلیقی عمل سے کیاکرتا تھاجس نے محنت کرنے والوں کو ہرقسم کی روحانی اور جسمانی آزادی سے محروم کر کے سرمائے کا غلام بنا دیاتھا۔ ایک ہی طبقے کی بھرپور نمائندگی پرپریم چندکو سید سبط حسن کا  (گزشتہ صفحہ سے پیوستہ) کشف میں ہوا ہے، اسے آپ چاہے امّ الحقائق کَہ لیں، اس کا خارجی وجود (اظہر من الشمس وجود) زندگی کی عام روش کے اعتبار سے ایک مشتبہ (یا مختلف)چیز ہی رہے گا۔ لیکن ”مشتبہ“ ہونا ”غیر حقیقی“ ہونے کا مترادف نہیں۔ آپ کا، ”جگر جی“] عین حقیقت شناس کہناجب کہ فیض کا اس طرز عمل کو سراسر ناقص قرار دے کراُسے حقیقت نگار ہی نہ ماننا یقینا میری طرح اَب تمہیں بھی کَھلنے لگا ہو گا۔“بتاچکا ہوں نا کہ میں نے لگ بھگ ان باتوں کو اسی ڈھنگ سے ایک مضمون میں لکھ رکھا ہے اور اس پر جو گرہ لگائی اس کو بھی نقل کیے دیتا ہوں :”صاحب!خدا لگتی کہوں تو اَفسانے میں حقیقت کا تصور شروع سے وہ نہیں رہا ہے جونئے نئے سائنسی اور مادی نظریوں کے اِنسانی نفسیات اور حواس پر شب خون مارنے کے بعد ہو گیا ہے ۔ اَفسانے کا فسوں تو مادِی حقیقتوں سے ذَرا فاصلے پر ہی اَپنا رَنگ جماتا تھا مگر عین بیسویں صدی کے آغاز میں یہ اِحساس شدید ہو گیا کہ اِنسان عقلی اور مادی سہاروں اور حوالوں کے بغیر بہتر طور پر زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ زندگی کی اِس مجہول بہتری کے تصور کی زد میں اِنسان کی روحانی زِندگی آگئی اور سچ پوچھو تو ایک اِعتبار سے مادی زندگی کے نئے تصور نے اِنسان کے تخلیقی وجود کو ہی تلپٹ کرکے رَکھ دیا تھا۔ اِنسانی تصور کی اُڑان میں سو طرح کے رَخنے پڑ چکے تھے ۔ اُردو اَفسانے کو آغاز ہی میں اسی نئے بنتے بگڑتے اِنسان سے مُعامِلہ درپیش تھا اُردو تنقید عقلی اور اِصلاحی رویوں پر زور دے رہی تھی لہٰذااَفسانہ بھی ادھر کو چل پڑا ۔ کوئی مانے یا نہ مانے مگر یہ بھی واقعہ ہے کہ سائنسی رویے کلی طور پر اِنسانی جمالیات کا حصہ نہیں ہو سکتے اور اِس کا سبب اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ سائنسی رویے اور مادی حقیقتیں سریت کو سرے سے مانتی ہی نہیں ہیں جب کہ سریت تخلیقی عمل کے محل سرا کا صدر دروازہ ہے ۔ اچھا، ایسا بھی نہیں ہے کہ میں حقیقت کے سائنسی اور مادی تصور کو اَدبی جمالیات سے کُلی طور پر ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے تخلیقی عمل سے بارہ پتھر باہر کر رہا ہوں بل کہ سچ یہ ہے کہ میں اَفسانے کو حقیقت کے اس تصور کی طرف کھینچ لانے والوں کا ایک لحاظ سے اِحسان مانتا ہوں کہ انہوں نے اِنسانی لاشعور اور شعور میں ایک نئے طرح کے مگر مثبت تعلق کا علاقہ دریافت کرنے کی راہ دِکھا دِی تھی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مافوق الفطرت واقعات اُردو اَفسانے سے بے دخل ہوتے چلے گئے۔ تاہم سید سبط حسن اور فیض دونوں،حقیقت کے جس تصور کو اَہم گردانتے رہے ہیں میری نظر میں وہ حقیقت کا بہت سطحی اور محدود تصور بنتا ہے ۔ ”ادب اور حقیقت “ میں حسن عسکری نے بھی حقیقت کے اِس تصور کورَد کیا تھا۔ اُس کا کہنا تھا کہ آرٹسٹ کے لیے حقیقت نہ تو چھپر ہیں‘ نہ محل نہ کمیونسٹ کا اعلان نامہ۔ اس کے لیے توحقیقت ایک اِحساس ہے، ایک سنسنی، ایک سرمستی، ایک ہسٹریا کا دورہ،یا وہ جسے شکسپئر نےFine Frenzyکہا تھا۔ حسن عسکری نے اِس معاملے میں صاف صاف کہہ دیا تھا کہ آرٹسٹ کے لیے شعور اور حقیقت ایک چیز ہے۔ یوں دیکھو تو حقیقت شناسی کے حوالے سے سید سبط حسن اور فیض کے ہاں حقیقت کے جو اِختلافی علاقے دریافت ہوئے ہیں وہ اور بھی معمولی نوعیت کے لگنے لگتے ہیں۔ تخلیقی سطح پر حقیقت نگاری یہ نہیں ہے کہ ایک لکھنے والے نے زندگی کے کِن کِن گوشوں پر نظر کی اور کِن کِن طبقوں کو اَہم جانا بل کہ میرے نزدیک تو حقیقت افروزی اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ لکھنے والا تخلیقی عمل کے دوران ایک بیکراں اِحساس کے زیر اَثر اُن عمیق جذبوں کو جگانے میں کام یاب ہو جائے جواُس کی دھڑکنوں کو کائنات کے سینے میں گونجتی دَھڑکنوں سے ہم آہنگ کردے ۔ اِنسانی فہم کے لیے اُس کے ہونے کا اِحساس فی الاصل وہ علاقہ بنتا ہے جو بھیدوں سے بھرا ہوا ہے۔ ہونے کے مادی تصور پر قناعت کرنے والے اَفسانہ نگار حقیقت کے اُس خارج سے جُڑ جاتے ہیں جو بہ قول حسن عسکری شعور کا علاقہ ہے۔ حقیقت کے اس جزوی علاقے کو اپنی کُل کائنات بنا لینے والوں کا المیہ یہ رہا ہے کہ وہ نشاطِ اَبدی سے بے گانہ ہو جاتے ہیں۔ جہاںجہاں اور جس جس نے حقیقت کے اِس محدود تصور کے زیرِ اثر اَفسانہ نگاری کی وہ واقعہ نگاری کی سطح پر اتر آیا اورواقعے کے اندرگہری ساخت میں جس روح کو تخلیقی عمل سے جاری ہو کر کائناتی حقیقتوں سے ہم آہنگ ہونا تھا ادھر متوجہ ہی نہ ہو سکا۔ یہ حقیقت سہی کہ اِنسان کو جسمانی سطح پر موت سے ہمکنار ہونا ہوتاہے اور یہ بھی بجا کہ انسان کو اس موت کے مکروہ پنجے سے نہیں بچایا جا سکتا مگر کیااس حقیقت کے زیر اثر یہ بھی لازم ہو گیا ہے کہ ہم اِنسان کے نصیب میں خود ہی تخلیقی، جمالیاتی اور روحانی موت بھی لکھ دیں۔ فنا کے تصور کے ساتھ بقا کے تصور کو جوڑ لینے سے مادی حقیقتوں کی نفی نہیں ہوتی تاہم اِن حقیقتوں کی محدود یت ختم ہو جاتی ہے ۔ جو جو اَفسانہ نگار حقیقت کے محدود تصور کو غُچا دے کر کائناتی حقیقتوں سے جڑ گیا اُس کے ہاں اَفسانے کا بیانیہ اکہرا نہیں رہا .... اور یہی اَفسانے کی حقیقت نگاری ہے۔ “لو پیارے اگر تم میری ان باتوں کے لیے یوسا کی باتوں کے ساتھ ساتھ تھوڑی سی گنجائش نکال پاتے ہو تو یقین کرو ہم فکشن کی حقیقت اور اس کی مختلف سطحوں کو ذرا ڈھنگ سے سمجھنے کے لائق ہو جائیں گے۔ اب چاہو تو ایک بار پھرآگوستو مونتیریسّو کے مختصر شاہ کار ”ڈائنا سور“ سے استفادہ کرسکتے ہو:”جب وہ بیدار ہوا، ڈائنا سور ہنوز وہاں موجود تھا۔“ یوسا اس میں بیانیے کے مستقر کو فینطاسی کی سطح پرلے سکتا ہے ۔ میرے لیے یہی ڈائنا سور ایسی حقیقت بن سکتا ہے جس کے ذریعے وقت کو پچھاڑ لیا گیا ہے ۔ وقت کو بھی اور اس آدمی کو بھی جونئے زمانے میں بیدار نہیں ہوتا ہنوز اسی زمانے میں جی اٹھنے پر مجبور ہے جن میں ڈائنا سور ہے ۔اب یہ فینطاسی ایک تلخ حقیقت ہو گئی ہے۔ اچھا ”دی ٹَرن اَوف دی اِسکِریو“ جیسی کہانیوں میں فینطاسی والا معاملہ تو بہ سہولت سمجھ آجاتا ہے اور ہم ان کہانیوں میںمصنف کی ان مشکلات کو بھی بہ سہولت نشان زد کر لیا کرتے ہیں جو اسے حقیقت پسندکہانی کا تاثر دینے کے لیے اٹھانا پڑتی ہیں۔ تاہم وہ کہانیاں جہاں یہ ٹانکے نظر نہیں آتے وہ فینطاسی سے کئی منزلیں آگے نکل جاتی ہیں وہاں بنت نازک اور لطیف ہو جاتی ہے،اسلوب نفیس اور احساس کی سطحوں کو متحرک کرنے والا ہوتا ہے اور بات حسی حقیقت تک محدود نہیں رہتی ۔ یہی وہ علاقہ ہے جسے تخلیق کارکا علاقہ کہا جاسکتا ہے ۔ اس میں کہانیاں گھڑنے والے کاریگروں کا داخلہ ممنوع ہوتا ہے۔ وہ جو یوسا نے کہا تھا کہ ”ایک ناول نگار ہمیں زندگی کی ایک ستھری، تازگی بخش، غیرمانوس تخیلی بصیرت عطا کرتا ہے۔“ تو یقین جانو اس نے اس علاقے کو مسکن بنا لینے والے تخلیق کار کی بات کی تھی۔ اورہاں جب یوسا جوائس کا ذکرکرتا ہے اور یولیسس کو طوفان خیز ایجاد قرار دیتا ہے تو کیا محض فینطاسی کی بات کر رہا ہوتا ہے؟ لو میں یاد دلا دوں کہ اس نے” اس میں حقیقت کو ٹھیک انسانی شعور کی حرکت پذیری کے ساتھ پیش کرنے کی بات کی تھی ۔ جب وہ مائل بہ توجہ ہو، تنقید کررہا ہو، قابلِ قدرگردان رہا ہو، عزیز رکھ رہا ہو یا رد کررہا ہو، اور جھیلے ہوئے تجربات کا جذباتی یا ذہنی اثر قبول کررہا ہو۔ حقیقت کے ایسے پلینز اور سطحوں کو جنھیں پہلے نظر انداز کردیا گیا ہو یا جن پر بہ مشکل توجہ دی گئی ہو زیادہ روایتی پلینز پر ترجیح دے کر بعض لکھنے والے انسانی وجود سے متعلق ہماری سمجھ بوجھ کی توسیع کرتے ہیں، صرف کمّی (quantitative) طور پر ہی نہیں بل کہ کیفی (qualitative) طور پر بھی۔ ورجینا وولف یا جوائس یا کافکا یا پروست جیسے ادیبوں کی بہ دولت ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہماری عقل میں اضافہ ہوا ہے ، اور ہماری اس صلاحیت میں بھی جو حقیقت کے پلینز اور سطحوںکی لامتناہی گھمیری میںسے حافظے کی عملیات، پوچی، شعور کے بہاو، جذبات اور احساسات کو پہچان لیتی ہے جنھیں ہم پہلے ناقابلِ اعتنا سمجھتے تھے اور جن کی بابت ہمارے خیالات بڑے سادہ لوح اور پیش پا افتادہ تھے ۔“ ہائے، کہ یہ باتیں محض فینطاسی فکشن لکھنے والوں پر صادق نہیں آتی ہےں۔آگے چل کر یوسا نے حقیقت کو فینطاسی،اسطوری، مذہبی، نفسیاتی، غنائی،تجزیاتی، فلسفیانہ، تاریخی،ماوراے حقیقت اور تجرباتی ناولوں، وغیرہ میں بانٹنے کی کوشش کی ہے مگر فی الاصل اس باب میں اس سے زیادہ اسے کچھ نہیں کہنا تھا۔ کیوں کہ وہ فوراً بعد اپنی توجہ مکانی، زمانی اور اپنے سطحِ حقیقت والے نقطہ¿ نظر سے تمہارے والی قوّتِ ترغیب اور میری مجوزہ قوت تاثیر کو جوڑ کر اپنی بات مکمل کر چکا تھا۔اردو ناول نگاروں کے طرز عمل کو دیکھا جائے تو حقیقت کے حسی ادراک کوتو بہ سہولت شناخت کیا جاسکتا ہے،کہیں واقعیت نگاری کے حوالے سے کہیں سیاسی سماجی حقیقت نگاری کے روپ میں۔ اور اس سے بھی پہلے رومانی رویہ کی چہل پہل بھی دیکھی جا سکتی ہے جس پر فینطاسی کی چھوٹ پڑتی تھی ۔ بعد میں نفسیات کو ایک تیکنیکی حربے کے طور پراستعمال ہوتے بھی ہم نے دیکھا۔ حتی کہ وہ زمانہ آیا کہ حقیقت نگاری کی بہ جائے علامت اور تجرید سے کام نکالا جانے لگا مگر یہ جو خالص فینطاسی کا معاملہ ہے یہ ہمارے خوابوں سے جڑ کر بھی اپنا رنگ نہ جما سکی، اس طرح کہ جس طرح یوسا نے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ نذیر احمد جیسا ٹھیٹھ حقیقت نگار سرسید کی زبان بول رہا تھا۔ سرشار کا مزاج ہی ایسا تھا کہ وہ کہانی کو داستان سے اوپر اٹھاکر اسے ناول بنا لینے کی سکت نہیں رکھتا تھا۔ مرزا رسواکی امراﺅ جان ادا کی زندگی جتنی تلخ تھی اس میں یوساکافینطاسی والافارمولا نہیں جڑا جا سکتا تھا۔ راشد الخیری کو مسلم گھرانوں اور مسلمان عورتوں کی اصلاح کی فکر دامن گیر تھی۔ ہاں یلدرم اور نیاز فتح پوری افسانوں کے ذریعے فینطاسی کا جہاں آباد کرکے رومان کی دھونی رمانے میں جتے رہے ۔پریم چند کو خارجی حقیقت نگاری کا لپکا اور چسکا تھا۔” گوشہ عافیت“، ”چوگان ہستی“، ”میدان عمل“ سے لے کر ”گﺅدان“ تک چلے آﺅ اور اپنی فینطاسی والی درفنطنی ساتھ رکھو، بتاﺅ میں اسے کہاں چسپاں کروں؟ سماجی حقیقت نگاری ہر کہیں ہے، وہی جسے فیض نے ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ ترقی پسندوں کے اولین ریلے میں سجاد ظہیر ‘ عصمت چغتائی‘ کرشن چندراور عزیز احمد کو رکھ لو سب کا انداز اپنا اپنا ہے ۔ ان کے ساتھ قاضی عبدالغفار کی لیلی اور مجنوں کو بھی رکھ لو تو شاید فضا میں کچھ فینطاسی دکھائی دے جائے۔ تاہم حقیقت اتنی سی ہے کہ ہر کہیں مظلوم طبقوں کی کہانی کہی جا رہی ہے اور بہ قول قاضی عبدالغفار موٹی کھال والوں کو سوئی چبھونے کے جتن ہورہے ہیں۔ سجاد ظہیر کی”لندن کی ایک رات“ ترقی پسندی کا فلسفہ سجھانے اور وقت کی دوسطحوں کو ایک سطح پر استعمال کرنے کے باوجود حقیقت پسندی کے قرینے کو چھوڑتا نہیں ہے۔ عزیز احمد نے ”آگ“ میں کشمیر کے بے کس لوگوں کو دکھایا ۔ حقیقت کا خارجی رخ یہاں بھی نمایاں رہتا ہے۔ احسن فاروقی کا ”شام اودھ“ ہو یا قرة العین کے ناول جن کا سلسلہ ”میرے بھی صنم خانے“ سے شروع ہوتا ہے،”آگ کا دریا “سے ہوتا ”چاندنی بیگم “تک پھیلا ہوا اس میں فینطاسی والے تصور کو کم کم جگہ دی جاسکتی ہے۔ انتظارحسین کو تم نے پڑھ رکھا ہے، عبداللہ حسین کو تم نے اپنے پرچے میں چھاپا ہے، انیس ناگی ہو یا تارڑ یا پھر آج کے لکھنے والے: میں جب ان کے ناول* دیکھتا ہوں تو اس نتیجے پر پہنچتا ہوں کہ یا تو ہمارے ہاں بیانیہ ٹھوس حقیقت کے سہارے آگے بڑھتا ہے یا پھر بہت گہری بات کہنے کے لیے اس حقیقت سے جڑ جاتا ہے جسے نہ تو فینطاسی کہا جاسکتا ہے اور نہ ہی اسے حقیقت کی ارفع صورت سے الگ کرکے دیکھا جاسکتا ہے۔**تم کہو گے فینطاسی تو غضب کا لفظ ہے اور یہ کہ مجھے یہ رنگ رنگیلا کیوں چانپیں چڑھاتا ہے۔ تو سنو کہ یہ جو فینطاسی کا لفظ ہے نا،‘دیکھیں تو یہ آدمی کو وہم سے اوپر نہیں اٹھنے دیتا، وہم بھی ایسا جسے بہ قول ممتاز مفتی رنگ پچکاری سے رنگیلا بنا لیا گیا ہے ۔ پچکاری جانتے ہونا،اوپر سے پھوار پھینکتی ہے۔ یوں یہ وہم زاد اور عقل سے اُدھر کا علاقہ ہوا۔ چاہو توتم اسے مضحکہ خیز اور وسواسی بھی کہہ سکتے ہو۔ گویا اس فینطاسی کو ماننا، اِس کو اِس کی فکری ستیاناسی کے ساتھ ماننا ہوگا۔بھئی، میں تو اس کی غارت گری کو مان لینے سے خود کو قاصر پاتا ہوں۔ تم جانتے ہی ہو کہ ہمارے اردو والوں کے ہاں حقیقت نگاری کا زمانہ رومانی لکھنے والوں سے بعد کا بنتا ہے ۔ بعضے تواسے رومان پسندوں سے انحراف اورردعمل کا شاخسانہ بھی کہتے ہیں۔ ایسا ادھر فرانس اور،جرمنی اور یورپ میں بھی ہوا تھا۔ یہ تمہارا کہنا ہو سکتا ہے۔بجا ،تاہم مجھے اپنے آس پاس کا حوالہ دینا تھا اور بتانا تھا کہ حسی حقیقت ہی سب کچھ نہیں ہوتی اور یہ جسے ہم حقیقت سمجھتے ہیں یہ ،توہم کاکارخانہ ہے،جب اسے سمجھ لیا گیا تو حواس خمسہ کی بہ جائے داخلی قوتوں سے مدد چاہی گئی۔ یوں فکشن کا وقت اور حقیقت کا تصور دونوں *] جی‘ کچھ لکھنے والوں کا اصرار ہے کہ’ ناول‘ مونث ہے بھئی مجھے تویہ مذکر لگتا ہے ۔ اور ہاں‘ اس کی جمع’ناولوں‘ نہیں ’ناول‘ ہی جچتی ہے ۔** ہائے ہائے ‘ فینطاسی کا اہم شاخسانہ ”محبت:مردہ پھولوں کی سمفنی“ تو میں بھول ہی گیا تھا ۔ چلو اچھا ہی ہوا‘ ورنہ نہ جانے قلم سے کیا سرزد ہوجاتا ۔ مظہرالاسلا م کے اس ناول پر مضمون لکھ کر میںپہلے ہی اس کی مستقل ناراضی خرید چکا ہوں: شاہد [اختراعی، سائنسی،تجربی اور مصنوعی آہنگ سے نکل کر اس عظیم آہنگ سے جڑ گئے جو انسانی باطن میںازل سے قائم ہے اور جسے ابد تک قائم رہنا ہے۔پیارے یہ ماننا ہی پڑتا ہے کہ زمان،مکان اور حقیقت کی ایک سطح تو وہ ہے جو مختلف نسلوںکے لوگوں نے، اور مختلف زمانوں میں رہنے اور مختلف زبانوں کو بولنے والوں نے اپنے اپنے حسی اداراک کے رنگ برش سے ہمارے سامنے بنادی ۔ ایک ایسا پورٹریٹ /میورل جسے میں اور تم اس لیے ماننے اور تسلیم کرنے پر فی الفور تیار ہو جاتے ہیں کہ اس پورٹریٹ/ میورل میں ہمیں اپنے حسی تجربے کا عکس نظر آتا ہے،اسی سے ہمارا روزمرہ واسطہ پڑتا ہے ۔ اچھا یوں کرتے ہیں کہ ایک لمحے کے لیے مجھے اور تمہیں، یعنی ہم سب کو جسے انسان کا نام نامی عطا ہوا ہے اس سارے منظر نامے سے الگ کر دیتے ہیں ۔ اب کہو زمان ایک مجرد بہاﺅ کے سوا کیا ہے ۔ وہ سیکنڈ، منٹ،گھنٹے،مہینے،سال،صدی کا ڈھکوسلا کہاں گیا۔ یہ جو ہم نے باہر سے اپنے اوپر وقت اور زمانے کو مڑھا ہوا ہے اور جو ہمیں اپنی حسیات کے عین مطابق لگتا ہے فی الاصل ایسا ہے نہیں ہے۔ جو فی الاصل ہے وہی فکشن کے نزدیک اصل ہے۔ اور جسے غیر تخلیقی آدمی اپنی عادت اور وظیفے کی وجہ سے اصل مان رہا ہوتاہے،وہ گھڑا ہوا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ جب لکھنے والا خارج کے وقت اور زمانے کو تلپٹ کرتا ہے اور اس کے اندر سے اس ترتیب کو ڈھونڈ نکالتا ہے جو کہانی کے اندر کسی لامتناہی معنویت کا پیش خیمہ ہوتی ہے تو کہانی میں تخلیقیت کا عنصر پیدا ہو جاتا ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ وہ وقت ہو یا زمانہ،وہ حقیقت ہو یا کردارفکشن کے باب میںدوہری معنویت کے ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں۔ایک متن کے خارجی بہاﺅ کی سطح پر،جو اپنے کرداروں اورلوکیل سے زمان کی معلوم اکائیوں کو اچھالتا اورمکان کے دیکھے بھالے نقوش اجالتا چلا جاتا ہے اور دوسرا حقیقی جو فی لاصل فکشن کی تخلیق کا باعث ہوتا ہے۔ یہ موضوع ایسا ہے کہ بہت توجہ چاہتا ہے ۔ جب کبھی موقع ملا تو بات آگے بڑھائیں گے۔ اب اجازت دو کہ خط بہت طول پکڑ گیا ہے۔


محبت کے ساتھ


محمد حمید شاہد


اسلام آباد:۰ ۲ مئی ۸۰۰۲

No comments:

Post a Comment