Friday, February 20, 2009

محمد عمر میمن

برادرم حمیدشاہد
السلام علیکم۔
بے حد مفصل خط ملے۔ شکریہ۔ میں پھر پرانا جملہ دھراوں گا، ”میری تو سمجھ میں نہیں آتا کہ جواب میں لکھوں تو کیا لکھوں۔ ہنوز آپ کے باریک بین مطالعے اور جس عقیدت اورسنجیدگی سے آپ ادب کے سامنے دو زانو ہوکر بیٹھتے ہیں اسی پر حیرت کررہا ہوں۔کاش ہمارے بیش تر پڑھنے اور لکھنے والوں کو آپ کا چلن آجائے! “چوں کہ آپ نے جو کچھ ان خطوط میں لکھا ہے مجھے اس سے کوئی قابلِ ذکر اختلاف نہیں، ان کا جواب دینے کے لیے کچھ بن نہیں پڑ رہا۔ سو آپ مجھے دوسری باتیں کرنے کی اجازت دیں۔لیکن اس سے پہلے صرف ایک بات کے بارے میں اپنا خیال ظاہر کرنا چاہوں گا: میرے خیال میں یوسا کا شاید یہ مقصد نہیں ہے کہ مفرد لفظ کہانی ہوتا ہے (گو ہوسکتا ہے، اگریہ لکھنے والے کی یاد سے مس ہوجائے، بہ شرطے کہ لکھنے والے کو بات کرنے کا سلیقہ آتا ہو) بل کہ یہ کہ کہانی اس کے بغیر کہی نہیں جاسکتی اور دورانِ روایت یہ کوئی بے جان شے نہیں رہتابل کہ اپنی خود مختار معنویت اور انسلاکات کی ایک پوری اقلیم سنبھالے ہوئے آتا ہے۔ ویسے آپ کی بات ٹھیک ہے کہ فکشن میں ہمیں جملے کو اکائی ماننا چاہیے، مفرد لفظ کو نہیں۔بھائی، میں کسی قدر سکتے کے عالم میں ہوں۔ ”دنیا زاد“ کی چند گزشتہ اور تازہ اشاعت میں میرے کئی تراجم چھپے۔ کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ میں برا کیا مانتا (کہ تراجم سے میرا مقصدبڑی حد تک پورا ہوگیا تھا، یہی کہ اردو جسے بھولے جارہا تھا اس کی بازیافت) حیرت ضرور ہوئی۔ لیکن صاحب شمال کی طرف یہ عالم ہے کہ”سمبل“ میں صرف دو خط پڑھ کر آپ میں کھلبلی مچ گئی۔ اور اب فرشی صاحب کا خط آیا ہے کہ آپ کے تراجم پر اتنے توصیفی خط آئے ہیں کہ آپ پڑھ کر باغ باغ ہوجائیں گے۔ عجیب بات ہے، کراچی اور اس کے انواح میں، جس کے بارے میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ اردو والوں کا مسکن ہے،وہاں تو میرے تراجم کا کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ تو، برادر، ایسے میں آپ کا ملنا، اور ان تمام نادیدہ اور ناشناس قارئینِ ”سمبل“کا ملنا میرے لیے کسی نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں۔ مجھ پر ایسی توجہ تو پہلے کبھی نہیں دی گئی۔ آپ کی دوستی کے حوالے سے ذوق یاد آتے ہیں:
اے دوست کسی ہم دمِ دیرینہ کا ملنابہتر ہے ملاقاتِ مسیحا و خضر سے
آپ جس توجہ سے یوسا کے خطوط کے ترجمے پڑھ رہے ہیں ان کا شکریہ کس طرح ادا کروں۔ میری محنت سپھل ہوئی۔ سچ اتنا اطمینان ہوا کہ کیا عرض کروں۔ پھر مجھے آپ کے اس دیدہ ریز مطالعے سے ایک بلاواسطہ فائدہ بھی پہنچ رہا ہے۔ آپ ان الفاظ کا بھی ذکر کردیتے ہیں جو آپ کے اندازے کے مطابق درست ترجمہ نہیں ہوئے ہیں۔ خیر یہ کام تو دوسرے بھی کرنے میں کچھ کم ماہر نہیں۔ لیکن وہ متبادل الفاظ تجویز نہیں کرتے۔ آپ کرتے ہیں۔ جس سے مزید غوروفکر کی راہیں کھل جاتی ہیں۔ آپ کی” قوتِ ترغیب “اور ”پیشے“ سے بے اطمینانی کے باعث میں بڑی سنجیدگی سے سوچ رہا ہوں کہ پہلے کو ”قوتِ تاثیر“ اور دوسرے کو ”اذن“ سے بدل دوں۔ ترجمہ کرتے وقت میں بھی ان سے مطمئن نہیں تھا۔ آپ کے خطوط ملنے کے بعد تو بے اطمینانی اور بڑھ گئی ہے۔ یہ بتائیے vocation/calling کے لیے”اذن“ مناسب رہے گا؟اب آپ سے ایک در خواست ہے۔ آپ یہ کام اب ذرا زیادہ سختی، بل کہ میں تو کہوں گا زیادہ بے رحمی سے کیجیے۔ جہاں جہاں بہتر لفظ سوجھے بلا تکلف بتائیں۔ آپ جب بقیہ خطوط پڑھیں گے تو وہاں بھی آپ کو میری بے بسی کا اندازہ ہوگا۔ لیکن آپ کی مدد شاملِ حال رہی اور پوری کتاب چھپنے کی کبھی نوبت آئی تو اس کے رخ و رخسار کا انگھڑ پن قدرے بہتر ہوجائے گا۔ کیا حرج ہے۔میں اگلے دو تین خط بھی جلد ہی بھیجوں گا۔ لیکن ایک بات کا خیال رکھیں۔ ان پر ابھی مزید کام کرنا باقی ہے۔میں جب آپ کے تازہ خط پڑھ رہا تھا تو اچانک مجھے ایک خیال آیا۔ آپ نے یوسا کے ہر خط کے حوالے سے مجھے ایک خط لکھا ہے۔ ان خطوں کی اپنی حیثیت ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ان پر نظر ثانی کرکے انھیں سلسلے وار یا کتابی شکل میں چھپوادیا جائے۔ ان کا لہجہ بے حد شگفتہ اور علم رسا ہے ۔ اگر لوگوں نے یوسا کے خط پڑھ بھی لیے تو آپ کے خط پڑھ کر بات شایدزیادہ آسانی سے ذہن نشین ہوجائے۔تکرار کی اپنی افادیت ہے۔ پھر آپ کے خطوط میں یہ بات اہم ہے کہ یہ ہمارے اردوکے حاضرہ منظر نامے کی حدود میں رہتے ہوئے کی گئی ہے، جیسے حلقے والا واقعہ جہاں آپ نے اس سوال کے جواب میں کم کم بولنے کو ترجیح دی کہ ایک باشعور لکھنے والے کے لیے اس بات کا جواب دینا کتنا مشکل ہے کہ اس پر کس کس کے اثرات ہیں، جب کہ لکھنے کا عمل شعوری طور پر ایک اچھے لکھنے والے کو ان اثرات سے کنی کٹانے کی شہ دیتا ہے، اور کہ جواب نہ دینا خود سری یا اپنی ذات پر فخرِ بے جا کی نشانی نہیں۔بھائی، میری درخواست ہے کہ کم از کم آپ اپنا خط نمبر ۴، جویوسا کے اسلوب والے خط کے بارے میں ہے، فرشی صاحب کو بھیج دیکھیں۔ نہ چھاپیں تو نہ چھاپیں۔ کیا فرق پڑتا ہے۔ ”دنیا زاد “ کو آزما لیا جائے گا۔ ان خطوط کی شانِ نزول کے بارے میں ایک ابتدائی تعارفی پیراگراف لکھ دینے سے بات قارئین کے لیے واضح ہوجائے گی۔ یعنی انھیں آپ کے خطوط کے سیاق و سباق کا علم ہوجائے گا۔مجھے توقع نہیں تھی کہ یوسا کہ خطوط سے ہمارے لکھنے والے کچھ اثر لیں گے۔ لیکن آپ کے اتنے زبردست اور مثبت ردعمل کو دیکھ کر خیال آیا کہ اب اس معاملے کو جھاگ کی طرح بیٹھ نہیں جانا چاہیے بل کہ اسے کچھ عرصے تک ادبی منظر پر معلق رہنا چاہیے اور لکھنے اور پڑھنے والوں کی یاد میں منڈلانا۔ پھر چاہے لکھنے والے ان خطوط کی دانش کا بالجہر اعتراف کریں نہ کریں، اس سے دامن بھی نہیں بچا سکیں گے، کیوں کہ یہ دانش قاری کے قبضے میں آچکی ہوگی اور وہ ان سے یہ توقع کرے گی کہ اگر لکھنا ہی ہے تو ان معیاروں کو سامنے رکھ کر لکھو ورنہ ہمارا وقت نہ ضائع کرو۔ اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں۔ میرا اور آپ کا مقصد پورا ہوگا۔ شاید اسی بہانے غیر محسوس دباو سے مجبور ہوکر ہمارے لوگ اچھا فکشن لکھنے لگیں۔ سوچیے گا۔بس جناب، اب گاڑی میں پیٹرول ختم ہوگیا ہے، اور بیٹری بھی کم زور پڑنے لگی ہے۔ باقی باتیں آپ کا اگلا خط آنے پر، یعنی وہ باتیں جو آپ کا خط آنے سے اٹھیں گی اور مجھے تحریک دلائیں گی۔ امید ہے کہ آپ بہ خیروعافیت ہوں گے۔


والسلام


محمد عمر میمن


میڈیسن: ۵ مئی ۸۰۰۲

No comments:

Post a Comment