Showing posts with label میڈیسن. Show all posts
Showing posts with label میڈیسن. Show all posts

Saturday, February 21, 2009

محمد عمر میمن

حمید شاہد صاحب
السلام و علیکم
میں تو مایوس ہو چکا تھالیکن،بہ ہر حال، آپ نے اپنی خوش گوار دل نوازی سے چونکا دیا۔ حضرت،اگر آپ نے خط رواروی میں لکھا تھا،تو خدا آپ کو سلامت رکھے اور اس کا زور فزوں تر کرے ۔ آپ نے خط کیا لکھا ہے،داد و تحسین کا ایک سیل رواں جاری کر دیا ہے۔ میں تو اس روانی بے دریغ میں گردن گردن نہا گیا(جی تو چاہتا ہے لکھوں: دودھوں نہا گیا )۔ بھئی مجھے نہیں معلوم تھا کہ آپ کو یہ تراجم اتنے بھا جائیں گے، ورنہ سارے کام چھوڑ کر صرف ترجمے ہی کرتا۔ مجھے کوئی خبر وبر ملتی نہیں کہ ان سے کسی کا بھلا ہو رہا ہے،ہاں ”ڈان “دیکھنے پر اندازہ ہوتا ہے کہ ایک سے ایک عبقری جتا ہوا ہے اور آئے دن شا ہ کار تولد کیے جار ہے ہیں۔ اور اب آپ رائے دینے پر آئے ہیں تو اس کے وفور کو دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ آپ محسوس صادقہ لکھ رہے ہیںیا،جیسے یہاںکہا جاتا ہے،مجھ بے چارے کی ٹانگ گھسیٹ رہے ہیں۔آپ کو یوسا کے خطوط پسند آئے ۔ مجھے اندازہ نہیں تھاکہ آپ ان سے اس درجہ متاثر ہوں گے ۔ لیکن اچھی بات ہے کہ انھیں کم از کم ایک سنجیدہ قاری تو ملا۔ بھائی، انہیں ”سمبل“ میں چھپوانے کا یہ ہے کہ پوری کتاب، جو بارہ خطوں پر مشتمل ہے، میں نے سال بھر پہلے ترجمہ کرلی تھی۔ میں نے فرشی صاحب کوپیش کش کی تھی کہ ہر شمارے میں چند خطوط شائع کردیا کریں ۔ وہ کنڈیرا کے ناول کا ایک حصہ ہرشمارے میں چھاپنے کے لیے تیار ہو گئے لیکن لکھا کہ یوسا کو تسلسل سے ہر شمارے میں طبع کرنے کی بہ جائے کبھی کبھار چھاپنا پسند کریں گے ۔ میں امریکا میں ۴۴ سال سے ہوں۔ یہاں سانس بھی انگریزی میں لینی پڑتی ہے،ورنہ حقہ پانی بند ہو جائے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اردو بھولتا جارہاتھا۔ سوچا ترجمے ہی کرو۔ اردو کی بھی بازیافت ہوجائے گی اور وقت بھی اچھا گزر جائے گا۔ سو یہ پچھلے دوسال کتابوں اور ادیبوں کے ساتھ بڑی طویل صحبت میں گزرے ہیں ۔ میں نے کوئی آٹھ دس ناول ترجمہ کرلیے ہیں،چند مضامین وغیرہ بھی۔ مصیبت یہ ہے کہ انہیں کہاں چھپواﺅں ۔ آصف کا بھلا ہو کہ انھوں نے چار کتابیں چھاپ دیں ۔ وہ سبھی چھاپنے کوتیار ہیں ۔ لیکن کیا کروں،اپنی جمالیاتی حس کا مارا ہوا ہوں۔ مجھے ان کی چھاپی ہوئی کتابیں صوری اعتبار سے پسند نہیں آئیں ۔ کچھ ”بھاگتے کی لنگوٹ والا“ مضمون نظر آیا ۔ وہ اتنے مصروف آدمی ہیں کہ اس سلسلے میں شاید کچھ کرنا چاہیں تو بھی کچھ نہیں کرسکتے۔ سو یہ تراجم کیبنیٹ میں پڑے خاک پھانک رہے ہیں۔ اب میں ایسا سورما بھی نہیں کہ چھپوانے کے لیے کوہ قاف جا پہنچوں،بس بساط بھر اپنے مقامی کے ۔ٹو کی ترائیوں میں چہل قدمی کر آتا ہوں ۔ سوچتا ہوں،ترجمہ کرنے سے میرا مقصد تو پورا ہوگیا (خوش وقتی اور زبان کی کسی قدر بازیافت )، اب یہ چھپیں نہ چھپیں کیا فرق پڑتا ہے۔ خیر،میں جو کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اگر یہ آسانی سے اور سلیقے سے چھپ جائیں تو تھوڑی بہت دوڑ دھوپ کر سکتا ہوں،ہفت اقلیم سر کرنے کا یارا اور ہمت نہیں اور نہ اپنے جسم ناتواں کو دیکھتے ہوئے اس کا بیڑا ہی اٹھایا ہے۔ اگر آپ کو کسی پبلشر کا علم ہو تو بتائیں، اس سے بھی رجوع کرکے دیکھ لیا جائے۔ لیکن میری کچھ شرطیں ہوں گی،جن میں مال وال شامل نہیں ہوگا۔ کچھ مل گیا تو ٹھیک، نہ ملا تو وہ بھی ٹھیک۔ میں نے الحمرا کی چند مطبوعات دیکھی تھیں اور وہ کم از کم صوری اعتبار سے پسند آئیں ۔ میں نے شفیق ناز صاحب کو الحمرا کی ویب سائیٹ پردےے ہوے پتے پر ای۔میل بھیجی تو اس کا جواب نہیں آیا ۔ ان کے ذاتی ای ۔میل کا پتا میرے پاس ہے نہیں۔ ایک زمانے میں، جب ابھی الحمرا کاکام شروع نہیں ہوا تھا، انھوں نے مجھے کئی بار فون کیا تھااور ای۔میل بھی بھیجے تھے ۔ میں نے جواب بھی دیے تھے۔ لیکن ڈھونڈا تو پتا ملا نہیں ۔ سو میں نے اپنی کر دیکھی، اس سے زیادہ کی استطاعت کی توفیق میرے خالق نے مجھے دی نہیں۔بھائی ،چوں کہ اشاعت وغیرہ کا ذکر چل نکلا ہے، آپ کو اگر چند معتبر اور معیاری جرائد کا علم ہو تو بتائیں، میں تراجم کے چند ٹکڑے انھیں بھیج دوں گا۔ اس طرح کچھ چیزیں لوگوں کے مطالعے میں آجائیں گی۔ اس فہرست میں آپ”بازیافت“ کو شامل نہ کیجئے گا۔ اس کے مدیر صاحب مجھ معصوم کے ساتھ بڑی اخلاق سوز ایکٹیوٹی کرچکے ہیں۔ آپ نے اپنے خط میں ” سمبل“ میں ضیا الحسن صاحب کے میلان کنڈیرا اور ”وجود “ پر کسی مضمون کا ذکر کیا ہے ۔ یہ ”سمبل“ کی کس اشاعت میں شامل ہے ؟ (نئے شمارے میں تو نہیں)۔ میں بھی تو دیکھوں کہ کیا کہا گیا ہے۔ اس پر یاد آیا ‘ میں نے ”وجود“ کا جو عنوان پہلے رکھا تھا(”وجود کی ناقابل برداشت لطافت“) اب بدل دیا ہے۔ نیا عنوان ”وجود کی لطافت ‘جو اٹھائے نہ بنے“ ہے۔ یہی عنوان ناول کی دوسری قسط پر ہے جو ابھی حال ہی میں نے فرشی صاحب کو بھیجی ہے۔[فرشی صاحب کی رائے پر پرانا عنوان ہی رہنے دیا ہے۔] میں نے کنڈیرا کے ایک اور ناول کا ترجمہ بھی کر ڈالا ہے ۔ اس کا عنوان رکھا ہے ”ہنسنے ہنسانے اور بھول جانے کی کتاب “۔ ”ادھر کے تمام احباب کو میری طرف سے آداب ہو“ آپ نے لکھا ہے ۔ بھئی یہ ادھر کون سے احباب ہیں جنھیں آداب بھجوا رہے ہیں؟ میڈیسن میں تو میرے سوا آپ کا کوئی”احباب“ نہیں ۔ اور اگر آپ کی مراد شمالی امریکا میں مقیم (عارضی یا تاابد) پاکستانیوں کی آبادی سے ہے ،تو میں اس ریوڑ سے نا آشنا ہوں ۔ کل سے آج تک ۴ پاکستانی احباب کے ای ۔میل ملے کہ ذی شان ساحل اٹھ گئے۔ کیا قافلہ جاتا ہے کیسا معصوم اور تروتازہ شاعر تھا! غالب یاد آتا ہے:
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے میرا خیال ہے یہ میرا خط بھی کچھ ضرورت سے زیادہ طویل ہو گیا ہے۔ اس کی ایک وجہ ہے۔ میں نے اسے لکھنے سے ذرا پہلے ہی دو دن لگا کر جاپانی محقق تشی ہیکوازتسو کی کتاب Creation and the Timeless Order of Things کے چوتھے باب کا ترجمہ ختم کیا ہے ، جس کا عنوان،ترجمے میں ”عین القضات ہمدانی کی فکر میں تصوف اور لسانی تشابہ کامسئلہ“ ہے۔ یہ بڑی معرکة الآرا چیز ہے ۔ روح ابھی تک اس سرشاری کے عالم میں ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ زبان بھی رواں ہوگئی ہے۔ میں نے سوچا کہ اپنی عادی چپ کے گھونگے میں لوٹنے سے پہلے ہی آپ کا قرض ادا ہو جائے، ورنہ آپ دو سطری خط پاکر مجھ پربے مروت ہونے کا الزام دھریں گے۔ سو اپنی آبرو بچانے کی خاطر یہ لن ترانی ہو رہی ہے۔ سمع خراشی کے لیے معافی چاہتا ہوں ۔


مخلص


محمد عمر میمن


میڈیسن : ۳ ۱اپریل‘۸۰۰۲

محمد عمر میمن

برادرم حمید شاہد

السلام علیکم۔

بے حد مفصل خط ملا۔ شکریہ۔ میری تو سمجھ میں نہیں آتا کہ جواب میں لکھوں تو کیا لکھوں۔ ہنوز آپ کے باریک بین مطالعے اور جس عقیدت اورسنجیدگی سے آپ ادب کے سامنے دو زانو ہوکر بیٹھتے ہیں اسی پر حیرت کررہا ہوں۔ کاش ہمارے بیش تر پڑھنے اور لکھنے والوں کو آپ کا چلن آجائے! مجھ پر تو آپ کے وسیع مطالعے کا اچھا خاصا رعب جم گیا ہے۔ آپ کے مقابلے میں بہت کم پڑھا لکھا آدمی ہوں۔ اور یہ میں مشرقی کسرِ نفسی کے کسی دورے کی گرفت میں آکر نہیں لکھ رہا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ میرا مطالعہ کافی محدود ہے۔ پھر تنقید ونقید مجھے فطری طور پر بھاتی بھی نہیں۔ خیر، اب ایسا بھی نہیں کہ تنقید سے بالکل ہی استغنا برتتا ہوں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ تنقید بھی اسی قسم کی پسند آتی ہے جس میں تخلیقی تجربے کا نچوڑ ہو۔ یوسا کے خطوط مجھے اسی لیے پسند آئے تھے۔ رولاں بارتھ قسم کی مخلوق مجھ سے ہضم نہیں ہوتی۔ سو آپ نے اگر مجھ سے اپنے اٹھائے ہوئے نکات کے سلسلے میں کسی وافی و شافی بحث کی توقع کی تھی تو آپ کو مایوسی ہوگی۔ مجھے اس کا افسوس ہے، لیکن میں وہی ہوں جو ہوں۔ اپنے آپ کو بدلنا چاہوں تو بھی نہیں بدل سکتا۔ اگر کوشش کی تو منہ کی کھانی پڑے گی۔ اس عمر میں آپ مجھے رسوا ہوتا ہوا دیکھ کر خوش تو نہیں ہوسکیں گے۔ مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ آپ کو بھی یوسا کی باتیں پسند آئیں۔ اس سے بہت ہمت بندھی۔ آپ نے کردار کی روح میں اتر جانے والی بات خوب کہی ہے۔ بالکل، ایسا ہی ہونا چاہیے۔بھائی میں خود بھی ووکیشن کے لیے ”شغل“ کے استعمال سے مطمئن نہیں ہوں۔ سلیم الرحمٰن گواہ ہیں، میں نے ان سے بھی اس سلسلے میں مدد لی تھی۔ چکر یہ ہے کہ اول تو میری اردو بے حد ناقص ہوچلی ہے، اور پھر بعض اوقات اردو میں مناسب مترادفات ملتے بھی نہیں۔ بھئی آپ مجھ سے تکلف وغیرہ نہ کیا کریں۔ اگر آپ کو کوئی بہتر لفظ معلوم ہو تو بتائیں۔ یوسا والی کتاب میں یہی ایک لفظ نہیں ہے جس نے مشکل پیدا کی، کئی اور بھی ہیں۔ میں آپ کو اس خط کے ساتھ یوسا کے اگلے تین خطوط بھیج رہا ہوں۔ آپ پڑھیے اور اگر کہیں بہترلفظ مل جائیں تو فوراً مطلع کیجیے۔ احسان ہوگا۔ ایک بات اور: ان پر ایک اور نظرِ ثانی واجب ہے۔ جہاں جہاں دوسری زبانوں سے اسم معرفہ یا عنوانوں کے نام استعمال ہوئے ہیں، وہ اردو میں اپنے ہجوں کے لحاظ سے مستند نہیں۔ میں اس سلسلے میں ایک صاحب سے مدد لینے والا ہوں، اور پھر انھیں درست کروں گا۔ لیکن جہاں تک متن کے ترجمے کا تعلق ہے، میرے خیال میں آپ اس پر کم و بیش بھروسا کرسکتے ہیں۔اب ایک مزے کی بات سنیے: جس دن آپ کا خط ملا اسی دن فرشی صاحب کاخط بھی آیا۔ لکھا کہ پہلے بعض وجوہ کی بنا پر انھیں یوسا کے خط ”سمبل“میں قسط وار چھاپنے میں تامل تھا ، لیکن لوگوں نے پہلے دو خطوں کو کافی پسند کیا ہے اور اب وہ تین خط اگلے شمارے میں اور چھاپنا چاہتے ہیں۔ واﷲ، اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ یہی خط میں آپ کو بھیج رہا ہوں۔ آپ سب سے پہلے پڑھ لیں گے۔ دیکھا آپ نے، دوستی کام آگئی۔ آپ کو یوسا کی اس بات سے اختلاف ہے کہ ”فکشن ایک ایسی چیز ہے جو سچی نہیں تاہم سچی ہونے کا سوانگ بھرتی ہے۔“ میرے خیال میں تو یہ اختلاف کی بات نہیں۔ جہاں تک میں اسے سمجھ سکا ہوں، وہ صرف یہ کہنا چاہتا ہے کہ فکشن تخیل کا کارخانہ ہے۔ اس لحاظ سے اسے حقیقت نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن اس کا کمال یہ ہے کہ یہ اپنی قوتِ ترغیب کے زور پر حقیقت نظر آنے لگتا ہے (یا ایک متبادل حقیقت وضع کرتا ہے جو کسی لحاظ سے بھی حقیقی حقیقت سے قدرو قیمت میں کہتر نہیں ہوتی)۔ اصل میں یہ بحث زیادہ تفصیل سے ”قوتِ ترغیب“ والے خط میں ہوئی ہے، اور وہ میں آپ کو بھیج رہا ہوں۔ آپ کا قول بھی اپنی جگہ پر درست ہے: ”فکشن وہ عظیم سچائی ہے جو زندگی کے عمومی سچ پر حاوی ہوجاتی ہے۔“ میں بس ایک لفظ کا اضافہ کروں گا: “کام یاب“ (کام یاب فکشن الخ)۔ اگر یہ اضافہ کرلیا جائے تو پھر قوتِ ترغیب والی بات سمجھ میں آنے لگتی ہے۔آصف فرخی صاحب لکھتے ہیں کہ تازہ “دنیا زاد“ نکل آیا ہے۔ اس میں میراکیا ہوا ایک جاپانی محقق کا ترجمہ شامل ہے۔ ذرا پڑھیے گا۔ مجھے تصوف کی مابعدالطبیعیات سے عشق ہے۔ ہوسکتا ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ عمر بڑھتی جارہی ہے۔ امید ہے کہ آپ بہ خیروعافیت ہوں گے۔

والسلام

محمد عمر میمن

میڈیسن : ۴۲ اپریل ۸۰۰۲

Friday, February 20, 2009

محمد عمر میمن

برادرم حمیدشاہد
السلام علیکم۔
بے حد مفصل خط ملے۔ شکریہ۔ میں پھر پرانا جملہ دھراوں گا، ”میری تو سمجھ میں نہیں آتا کہ جواب میں لکھوں تو کیا لکھوں۔ ہنوز آپ کے باریک بین مطالعے اور جس عقیدت اورسنجیدگی سے آپ ادب کے سامنے دو زانو ہوکر بیٹھتے ہیں اسی پر حیرت کررہا ہوں۔کاش ہمارے بیش تر پڑھنے اور لکھنے والوں کو آپ کا چلن آجائے! “چوں کہ آپ نے جو کچھ ان خطوط میں لکھا ہے مجھے اس سے کوئی قابلِ ذکر اختلاف نہیں، ان کا جواب دینے کے لیے کچھ بن نہیں پڑ رہا۔ سو آپ مجھے دوسری باتیں کرنے کی اجازت دیں۔لیکن اس سے پہلے صرف ایک بات کے بارے میں اپنا خیال ظاہر کرنا چاہوں گا: میرے خیال میں یوسا کا شاید یہ مقصد نہیں ہے کہ مفرد لفظ کہانی ہوتا ہے (گو ہوسکتا ہے، اگریہ لکھنے والے کی یاد سے مس ہوجائے، بہ شرطے کہ لکھنے والے کو بات کرنے کا سلیقہ آتا ہو) بل کہ یہ کہ کہانی اس کے بغیر کہی نہیں جاسکتی اور دورانِ روایت یہ کوئی بے جان شے نہیں رہتابل کہ اپنی خود مختار معنویت اور انسلاکات کی ایک پوری اقلیم سنبھالے ہوئے آتا ہے۔ ویسے آپ کی بات ٹھیک ہے کہ فکشن میں ہمیں جملے کو اکائی ماننا چاہیے، مفرد لفظ کو نہیں۔بھائی، میں کسی قدر سکتے کے عالم میں ہوں۔ ”دنیا زاد“ کی چند گزشتہ اور تازہ اشاعت میں میرے کئی تراجم چھپے۔ کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ میں برا کیا مانتا (کہ تراجم سے میرا مقصدبڑی حد تک پورا ہوگیا تھا، یہی کہ اردو جسے بھولے جارہا تھا اس کی بازیافت) حیرت ضرور ہوئی۔ لیکن صاحب شمال کی طرف یہ عالم ہے کہ”سمبل“ میں صرف دو خط پڑھ کر آپ میں کھلبلی مچ گئی۔ اور اب فرشی صاحب کا خط آیا ہے کہ آپ کے تراجم پر اتنے توصیفی خط آئے ہیں کہ آپ پڑھ کر باغ باغ ہوجائیں گے۔ عجیب بات ہے، کراچی اور اس کے انواح میں، جس کے بارے میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ اردو والوں کا مسکن ہے،وہاں تو میرے تراجم کا کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ تو، برادر، ایسے میں آپ کا ملنا، اور ان تمام نادیدہ اور ناشناس قارئینِ ”سمبل“کا ملنا میرے لیے کسی نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں۔ مجھ پر ایسی توجہ تو پہلے کبھی نہیں دی گئی۔ آپ کی دوستی کے حوالے سے ذوق یاد آتے ہیں:
اے دوست کسی ہم دمِ دیرینہ کا ملنابہتر ہے ملاقاتِ مسیحا و خضر سے
آپ جس توجہ سے یوسا کے خطوط کے ترجمے پڑھ رہے ہیں ان کا شکریہ کس طرح ادا کروں۔ میری محنت سپھل ہوئی۔ سچ اتنا اطمینان ہوا کہ کیا عرض کروں۔ پھر مجھے آپ کے اس دیدہ ریز مطالعے سے ایک بلاواسطہ فائدہ بھی پہنچ رہا ہے۔ آپ ان الفاظ کا بھی ذکر کردیتے ہیں جو آپ کے اندازے کے مطابق درست ترجمہ نہیں ہوئے ہیں۔ خیر یہ کام تو دوسرے بھی کرنے میں کچھ کم ماہر نہیں۔ لیکن وہ متبادل الفاظ تجویز نہیں کرتے۔ آپ کرتے ہیں۔ جس سے مزید غوروفکر کی راہیں کھل جاتی ہیں۔ آپ کی” قوتِ ترغیب “اور ”پیشے“ سے بے اطمینانی کے باعث میں بڑی سنجیدگی سے سوچ رہا ہوں کہ پہلے کو ”قوتِ تاثیر“ اور دوسرے کو ”اذن“ سے بدل دوں۔ ترجمہ کرتے وقت میں بھی ان سے مطمئن نہیں تھا۔ آپ کے خطوط ملنے کے بعد تو بے اطمینانی اور بڑھ گئی ہے۔ یہ بتائیے vocation/calling کے لیے”اذن“ مناسب رہے گا؟اب آپ سے ایک در خواست ہے۔ آپ یہ کام اب ذرا زیادہ سختی، بل کہ میں تو کہوں گا زیادہ بے رحمی سے کیجیے۔ جہاں جہاں بہتر لفظ سوجھے بلا تکلف بتائیں۔ آپ جب بقیہ خطوط پڑھیں گے تو وہاں بھی آپ کو میری بے بسی کا اندازہ ہوگا۔ لیکن آپ کی مدد شاملِ حال رہی اور پوری کتاب چھپنے کی کبھی نوبت آئی تو اس کے رخ و رخسار کا انگھڑ پن قدرے بہتر ہوجائے گا۔ کیا حرج ہے۔میں اگلے دو تین خط بھی جلد ہی بھیجوں گا۔ لیکن ایک بات کا خیال رکھیں۔ ان پر ابھی مزید کام کرنا باقی ہے۔میں جب آپ کے تازہ خط پڑھ رہا تھا تو اچانک مجھے ایک خیال آیا۔ آپ نے یوسا کے ہر خط کے حوالے سے مجھے ایک خط لکھا ہے۔ ان خطوں کی اپنی حیثیت ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ان پر نظر ثانی کرکے انھیں سلسلے وار یا کتابی شکل میں چھپوادیا جائے۔ ان کا لہجہ بے حد شگفتہ اور علم رسا ہے ۔ اگر لوگوں نے یوسا کے خط پڑھ بھی لیے تو آپ کے خط پڑھ کر بات شایدزیادہ آسانی سے ذہن نشین ہوجائے۔تکرار کی اپنی افادیت ہے۔ پھر آپ کے خطوط میں یہ بات اہم ہے کہ یہ ہمارے اردوکے حاضرہ منظر نامے کی حدود میں رہتے ہوئے کی گئی ہے، جیسے حلقے والا واقعہ جہاں آپ نے اس سوال کے جواب میں کم کم بولنے کو ترجیح دی کہ ایک باشعور لکھنے والے کے لیے اس بات کا جواب دینا کتنا مشکل ہے کہ اس پر کس کس کے اثرات ہیں، جب کہ لکھنے کا عمل شعوری طور پر ایک اچھے لکھنے والے کو ان اثرات سے کنی کٹانے کی شہ دیتا ہے، اور کہ جواب نہ دینا خود سری یا اپنی ذات پر فخرِ بے جا کی نشانی نہیں۔بھائی، میری درخواست ہے کہ کم از کم آپ اپنا خط نمبر ۴، جویوسا کے اسلوب والے خط کے بارے میں ہے، فرشی صاحب کو بھیج دیکھیں۔ نہ چھاپیں تو نہ چھاپیں۔ کیا فرق پڑتا ہے۔ ”دنیا زاد “ کو آزما لیا جائے گا۔ ان خطوط کی شانِ نزول کے بارے میں ایک ابتدائی تعارفی پیراگراف لکھ دینے سے بات قارئین کے لیے واضح ہوجائے گی۔ یعنی انھیں آپ کے خطوط کے سیاق و سباق کا علم ہوجائے گا۔مجھے توقع نہیں تھی کہ یوسا کہ خطوط سے ہمارے لکھنے والے کچھ اثر لیں گے۔ لیکن آپ کے اتنے زبردست اور مثبت ردعمل کو دیکھ کر خیال آیا کہ اب اس معاملے کو جھاگ کی طرح بیٹھ نہیں جانا چاہیے بل کہ اسے کچھ عرصے تک ادبی منظر پر معلق رہنا چاہیے اور لکھنے اور پڑھنے والوں کی یاد میں منڈلانا۔ پھر چاہے لکھنے والے ان خطوط کی دانش کا بالجہر اعتراف کریں نہ کریں، اس سے دامن بھی نہیں بچا سکیں گے، کیوں کہ یہ دانش قاری کے قبضے میں آچکی ہوگی اور وہ ان سے یہ توقع کرے گی کہ اگر لکھنا ہی ہے تو ان معیاروں کو سامنے رکھ کر لکھو ورنہ ہمارا وقت نہ ضائع کرو۔ اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں۔ میرا اور آپ کا مقصد پورا ہوگا۔ شاید اسی بہانے غیر محسوس دباو سے مجبور ہوکر ہمارے لوگ اچھا فکشن لکھنے لگیں۔ سوچیے گا۔بس جناب، اب گاڑی میں پیٹرول ختم ہوگیا ہے، اور بیٹری بھی کم زور پڑنے لگی ہے۔ باقی باتیں آپ کا اگلا خط آنے پر، یعنی وہ باتیں جو آپ کا خط آنے سے اٹھیں گی اور مجھے تحریک دلائیں گی۔ امید ہے کہ آپ بہ خیروعافیت ہوں گے۔


والسلام


محمد عمر میمن


میڈیسن: ۵ مئی ۸۰۰۲

محمد عمر میمن

برادرم حمید شاہد
السلام علیکم۔
آپ کے دو بے حد مفصل خط ملے۔ شکریہ۔ گزشتہ ہفتہ یہاں کلاسوں کا آخری ہفتہ تھا اور اب امتحانات کی ریل پیل ہے۔ جواب دینے میں تاخیر کا سبب یہی پیشہ ورانہ مصروفیات رہیں۔ اس سے پہلے کہ بات میرے ذہن سے نکل جائے، میں اسی برقی خط کے ساتھ ایک فائل منسلک کررہا ہوں۔ اسے پڑھ کر اس کی اشاعت کے لیے کوئی مناسب جریدہ تجویز کریں۔ اس کا موضوع ایسا ہے جس سے آپ کواور مجھے تو دل چسپی ہوسکتی ہے، ہمارے ادبی رسائل کے عام قارئین کو مشکل ہی سے ہو۔ ان میں سے بیش تر تو اسلاف کے ذہنی ورثے کو مدتیں ہوئیں دریا برد کرچکے ہیں۔ ویسے اس مضمون کا صحیح مقام تو یہی ادبی رسائل ہیں کہ وہاں اسے پڑھ کر ہمارے یہاں کے عبقریوں میں جو بے حسی پیدا ہوگئی ہے اس میں تحریک کی رمق پیدا ہو۔ یہ میں اس لیے کَہ رہا ہوں کہ ازتسو کا جو مضمون ”دنیازاد“ کے تازہ شمارے میں شامل ہے، اس کی اشاعت کے سلسلے میں بھی آصف صاحب کو پس و پیش سی تھی۔ اور منسلکہ مضمون تو لوگوں کو شاید اور بھی دقیانوسی نظر آئے۔منجملہ دیگر مضامین کے مجھے اسلامی فلسفے اور تصوف کی مابعد الطبیعیات سے بھی دل چسپی ہے۔ بڑے دنوں سے میری خواہش چند مضامین کا ترجمہ کرنے کی تھی۔ اب کہیں جاکر ان میں سے بعض کا ترجمہ کرلیاہے، اور انھیں میں کا ایک آپ کو بھیج رہا ہوں۔میری خاطر اسے پورے کا پورا پڑھ جائیے۔ایک بات اور پوچھتا چلوں: ”دنیازاد“ کے تازہ شمارے میں، جس میں ازتسو کا مضمون شامل ہے، کیا میرے کچھ اور تراجم بھی ہیں؟ پرچہ میرے پاس ہنوز نہیں پہنچا ہے اور خدا جانے کب پہنچے۔ میں نے چند اور تراجم بھی آصف صاحب کی فرمائش پربھیجے تھے۔ پتا نہیں وہ انھوں نے شامل کیے یا نہیں۔بھائی، آپ کے ساتویں خط نے مجھے جس الجھن میں ڈال دیا ہے وہ آپ کے ”مہملیت“ سے متعلق خیالات ہیں۔ بل کہ یوں کہنا چاہیے کہ آپ کی بات کی معنویت یا اس کی ضرورت میری سمجھ میں نہیں آرہے ہی۔ناول میں زندگی کی ”مہملیت“ کو ئی مجرد شے نہیں ہوتی کہ جس پر صرف نظریاتی اعتبارسے گفتگو کی جاسکے۔ ہوسکتی ہے، لیکن اس پر بحث صرف فلسفے کے نقطہ¿ نظر سے ہوسکتی ہے ۔ ناول میں زندگی کی ”مہملیت“ کوئی مجرد شے نہیں ہوتی بل کہ لکھنے والے کی ناولی تیکنیک یا تعمیری آلات کا جز۔ اسے یوں سمجھیں، کوئی واقعہ فی نفسہ مہمل ہوسکتا ہے لیکن ناول میں اس کی مہملیت سے کچھ اور اجاگر ہوتا ہے، سو آپ چاہیں تو اسے فی نفسہ مہمل لیکن بالفعل فائدہ مند یا پر معنیٰ کَہ لیں، کیوں کہ موخر الذکر صورت میں یہ ناول (کردار، موضوع، وغیرہ) کی معنویت کا جزِ لاینفک ہوتا ہے۔ اگر آپ بھی یہی کَہ رہے ہیں تو میں آپ سے متفق ہوں، اگر کچھ اور، تو بھائی، میں موٹی عقل کا آدمی ہوں، ذرا اوراختصار سے سمجھا دیں۔راوی ان معنیٰ میں ضرور آزاد ہے کہ اچھا لکھنے والا یہ ظاہر نہیں ہونے دیتا کہ اس کا راوی آزاد نہیں، وہ اس کے آزاد ہونے کا صرف التباس ہی پیدا کرتا ہے۔ ”میں جس راوی کی بات کر رہاہوں وہ تخلیق کار نہیں ہوتا مگر اُس سے جدا بھی نہیں ہوتا۔“ یہ تو ٹھیک ہے، لیکن یہاں یہ ذہن میں رہنا چاہیے کے یوسا کے مطابق ایسے ”راوی“ یا ”راوی-کردار“ کا وجود تخلیق کے باہر نہیں ہوتا ، صرف ناولی زمان و مکان یا ناول کے دورانیے ہی میں ہوتا ہے۔ تخلیق کار کا، بہ ہر حال، اپنا ذاتی وجود ہے جو تخلیق کے باہر خارجی دنیا میں اس کے طول العمر برقرار رہتا ہے جس میں وہ چاہے تو دوسرے ناولی زمان و مکان میں دوسرے راوی اور راوی-کردار تخلیق کرسکتا ہے، جو خود اس ناول کے دورانیے کے باہر زندہ نہیں رہ سکتے۔آٹھویں خط میں بھی میری مشکل یہی ہے کہ میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ آپ یوسا سے اختلاف کررہے ہیں یا اتفاق۔ جہاں تک میں یوسا کو سمجھ پایا ہوں، وہ صرف یہ کہہ رہا ہے کہ physicalوقت (زمان)، جو یہی گھڑی کا وقت ہے جو آگے کی طرف حرکت کرتا ہے، جسے ہم حقیقی وقت کہتے ہیں ، اس وقت سے مختلف ہے جو ناولوں میں استعمال ہوتا ہے یا ہوسکتا ہے؛ وہاں اس کی مختلف قسمیں اورشاخ سانے ہیں، جن میں سے ایک ”نفسیاتی“ بھی ہے۔ ”یوسا نے وقت کی حقیقی اور نفسیاتی تقسیم کی تھی اور فکشن کے وقت کو گھڑا ہوا وقت بتایا تھا تو کیا وہ غیر حقیقی نہیں ہو جاتا ؟ “ میرے خیال میں تو نہیں۔ وہ وقت کی ”ماہیت“ (quiddity)کی بات نہیں کررہا، یعنی وقت کا ”بہ حیثیت وقت یاماہیت“ حقیقت یا حقیقی ہونا۔ مابعد الطبیعیاتی (اور خاص طور ہمارے تصوف کی مابعد الطبیعیات میں) وقت کا ویسے بھی کوئی وجود نہیں۔ یہ زیادہ سے زیادہ ایک نسبت ہے جو (وجود کے اعتبار سے)اس غیر حقیقی دنیا میں اشیا کے تعین کا کام انجام دیتی ہے۔ فکشن کا وقت اتنا ہی ” حقیقی“یا ”غیر حقیقی“ ہے جتنا وجود کے اعتبار سے ”وقت“ بذاتہ۔ میرا خیال ہے کہ اگر آپ اس”غیر حقیقی“ کہنا چاہیں تو اس پر نہ یوسا کو کوئی اعتراض ہوسکتا ہے نہ مجھے، کیوں کہ یہ یوسا کی بحث کا حصہ نہیں۔ وہ تو صرف وقت کی مختلف نوعیتوں کی بات کررہا ہے۔اور اس اعتبار سے ”ناولی وقت“ ایک غیر حقیقی یا گھڑنت وقت ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ کوئی منفی چیز ہے۔ جب ناول خود پورے کا پورا ایک گھڑنت ہے تو اس میں مستعمل وقت کیسے حقیقی ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ ناول کے کرداروں کے حوالے سے ضرور حقیقی ہوتا ہے، اتنا ہی جتنے وہ کردار حقیقی ہوتے ہیں۔ آپ نے لکھا ہے: ”ایک اور پرلطف حوالہ تو میں بھولے جا رہا ہوں اور وہ ہے تصوف کا۔ اردو کہانی کا صوفی ٹائم مشین والے سائنس دان سے کہیں بہتر طریقے سے ایک وقت سے دوسرے وقت میں منتقل ہو سکتا ہے۔ اور اسے اردو فکشن میں موضوع بناکر قابل اعتنا کہانیاں لکھی گئی ہیں۔ “مجھے کرید ہورہی ہے کہ یہ کون سی کہانیاں ہیں۔ بھائی ان کے مصنفین اور کہانیوں کے نام لکھیں۔ شکریہ۔ قبل اس کے بھول جاں، ”مرکزی نقطے“ اور ”ثقلی نقاط“ تجویز کرنے کا بے حد شکریہ۔ مجھے اچھے لگے۔ کچھ غور کرکے شاید انھیں ہی استعمال کروں۔


والسلام
محمد عمر میمن
میڈیسن : ۳ ۱مئی ۲۰۰۸
///

محمد عمر میمن

برادرم حمید شاہد

السلام علیکم

خط ملا۔جواب میں بس دو تین جملے ہی ہوں گے۔خدا کرے آپ نے میرا مضمون ”نقاط“ کو ہنوز نہ بھیجا ہوگا۔ اگر بھیجا ہو تو اسے رکوادیں۔ اس کی دو وجہیں ہیں:
= اس پر ابھی نظر ثالث و رابع کرنا باقی ہے۔ بعض الفاظ کی بابت میرا ذہن صاف نہیں ہے اور میں ہنوز ان کے مناسب مترادفات ڈھونڈ رہا ہوں۔ یہ ابھی اشاعت کے قابل نہیں۔بھائی، یہ میں نے آپ کو صرف راے دینے کے لیے بھیجا تھا۔
= دوسری بات یہ ہے کہ میں نے ایک خط محمد سہیل عمر صاحب کو بھی لکھا تھا جس میں ان تراجم کے سلسلے میں ان سے مشورہ لیا تھا۔ انھوں نے انھیں چھاپنے کی پیشکش کردی، جو میں نے قبول کرلی ہے۔ وہ ازتسو کی پوری کتاب چھاپنے پر بھی راضی ہیں۔
میں نہیں چاہتا کہ کوئی پیچیدگی پیدا ہو، اور یہ بات اخلاقی اعتبار سے بھی مناسب نہیں۔میں پہلے”نقاط“ کا ایک شمارہ دیکھنا چاہتا ہوں۔ بعد میں انھیں کوئی اور مضمون بھیج دوں گا۔ بس اب میرا قلم انھیں موضوعات کی طرف چل پڑا ہے۔
والسلام،
___محمد عمر میمن
میڈیسن: ۶ ۱مئی ۸۰۰۲

محمد عمر میمن

برادرم حمید شاہد
السلام علیکم
پتا نہیں آپ کو میرا ۶۲ مئی کا خط ملا یا نہیں ۔ اس میں میں نے ہماری مراسلت کی تاریخ وار فائل پر آپ کے حسب الحکم ایک وضاحتی نوٹ لکھ دیا تھااور متن میں بھی کہیں کہیں کچھ بڑھا دیا تھا۔ خدا کرے یہ فائل آپ تک پہنچ گئی ہو۔اس ای میل کے ساتھ دو pdfفائلیں بھیج رہا ہوں ۔ ایک میں یوسا کے اگلے دوخط ہیں ۔ ازراہ کرم یوسا والی فائل کو پڑھتے وقت مناسب مترادفات کی بابت ضرور غور کیجئے گا۔ کم بخت ایک لفظ crux نے بہت تنگ کر رکھا ہے ۔ شاید آپ کے ذہن میں کوئی مناسب لفظ ہو ۔دوسری ازتسو کے اسی مضمون کی تصحیح شدہ نقل ہے جو آپ سے کھل نہیں سکی تھی ۔ چوں کہ یہ دونوں امیج یا تصویری فائلیں ہیں ‘ان میں اِن پیج کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا۔ بس ایک پابندی یہ ہے کہ آپ ان میں کچھ گھٹا بڑھا نہیں سکیں گے۔پتا نہیں میں نے پہلے عرض کیا تھا یا نہیں ‘ میں ۲۱ جون کو تین ہفتوں کے لیے ترکی جا رہا ہوں ۔ چناں چہ اس درمیان میں آپ سے برقی خط و کتابت نہیں ہوسکے گی۔ میں کوشش کروں گا کہ وقت مل جائے تو یوسا کے باقی خطوط کی بھی نئی فائلیں بنا کر جانے سے پہلے آپ کو بھیج دوں ۔(پرانی والی تو آپ سے کھلتی نہیں !)اس سے زیادہ لکھنے کے لیے فقیر کے جھولے میں کچھ اور نہیں ۔ اس پر کسی کا شعر یاد آگیا ‘جو بچپن میں پسند ہوا کرتا تھا:چیل کے گھونسلے میں ماس کہاںدال دلیہ ہمارے پاس کہاں


والسلام


محمد عمر میمن


۷۲ مئی ۸۰۰۲‘


میڈیسن:امریکا

Thursday, February 19, 2009

محمد عمر میمن

اِبتدائیہ۔۲
پچھلے سال میں نے ماریو برگس یوسا(Mario Vargas Llosa)کی منحنی سی کتاب Letters to a Young Novelist کا اردو میں ترجمہ کیا تھا۔ کتاب کل بارہ خطوں پر مشتمل ہے اور ان پر جو عنوان قائم کیے گئے ہیں وہ علی الترتیب ”کیچوے کی حکایت،“ ”کیتوب لی پاس،“ قوتِ ترغیب،“ ”اسلوب،“ ”راوی اور بیانیہ مکان،“ ”زمان،“ ”حقیقت کی سطحیں،“ ”انتقالات اور کیفی زقندیں،“ ” چینی ڈبّے،“ ”پوشیدہ حقیقت،“ ”کمیونی کیٹنگ وے سلز،“ اور ”پس نوشت کے طور پر“ ہیں۔ پہلے دو خطوں میںگفتگو کا تعلق اس بے اطمینانی سے زیادہ ہے جو کسی شخص کواپنی حقیقی دنیا سے محسوس ہوتی ہے اور اسے اس بات پر اکساتی ہے کہ اس دنیا کو اپنے تخیل کے زور پر اپنی مرضی کے مطابق از سر نوتشکیل دے۔ بقیہ خطوط میںان عملیاتی رموز کا بیان ہوا ہے جویوسا کی دانست میں کسی فکشن کی کام یابی اور اثر انگیزی کے ضامن ہوتے ہیں۔اور ان عوامل کی پہچان اور ان کی پیچیدہ اور مہین کارگزاری اور تفاعل سے واقفیت کے عقب میں اس کادنیا بھر کے فکشن کا بڑا باریک اور عمیق مطالعہ کارفرما ہے۔وہ ان عوامل تک تنقیدپر درس گاہی نصاب کے استفادے سے نہیں پہنچا ہے، بل کہ تجربی مطالعے کی وسعت سے۔ آخری خط میںیوسااپنے نوجوان ناول نگار کو مشورہ دیتا ہے کہ وہ اس کی کہی ہوئی تمام باتوں کو دریا برد کرے، اور بس کمر باندھ کر لکھنے بیٹھ جائے۔ یہ اس لیے کہ ”تنقید، بہ ذاتہ،حتی کہ اس وقت بھی جب یہ غایت درجہ سخت گیر اور وجدانی ہو، امرِ تخلیق کی مکمل توجیہہ کرنے کی اہل نہیں ہوسکتی، یعنی اس کی اپنی کلّیت میں تشریح کرنے کی۔ ایک کام یاب فکشن یا نظم میں ہمیشہ ہی ایک عنصریا بُعد ایسا شامل ہوگا جسے عقلی تنقیدی تجزیہ اپنی گرفت میں لانے سے عاجزرہے گا۔ یہ اس لیے کہ تنقید تعقّل اور ذہانت کا ثمر ہوتی ہے، اور ادبی تخلیق میں دوسرے عوامل، بعض اوقات اس کے لیے فیصلہ کن اہمیت کے حامل.... وجدان، حسّیت، عمدہ قیاس آرائی، اور حتی کہ اتّفاق....دخیل ہوتے ہیںاورتنقید کے باریک ترین داموں میں بھی نہیں آتے۔ اسی لیے کوئی کسی کو تخلیق کرنا سکھا نہیںسکتا۔“ یہ خطوط پچھلے سال کے ”سمبل“(راول پنڈی) سے قسط وار شائع ہورہے ہیں۔ پہلے دو خطوں کے چھپتے ہی محمدحمید شاہد صاحب کو.... جنھیں فکشن کی عملیات اوراس کی تعمیراتی بَناوٹ اور بُناوٹ، اور فنّی حکمت عملیوں سے خاص طور پر دل چسپی ہے اور ان کی بابت کافی مضامین بھی لکھ چکے ہیں ....اپنے محبوب موضوعات کے بارے میں مزید غور وفکر کرنے اوران پر یوسا کے خطوط کے آئینے میں اردو فکشن کے سیاق و سباق میں ایک سیر حاصل علمی بحث کا موقعہ بہم ہوگیا۔ انھوں نے یوسا کے ان دو خطوں کو بڑی باریک بینی، عرق ریزی اور سنجیدگی کے ساتھ پڑھا اور پھر اپنے معروضات ، جن میں نہ صرف اظہارِ تشکر و احسان مندی شامل تھے، بل کہ بے کم و کاست تنقید کی فراوانی بھی، مجھے دو خطوں میں لکھ بھیجے۔ میںیوسا کے خطوط کی اس متین پذیرائی پر اندر اندر اتنا خوش ہوا کہ میں نے انھیں رفتہ رفتہ یوسا کے بقیہ خط بھی بھیج دیے ، (حال آں کہ یہ ابھی خاصی نظر ثانی کے طلب گار تھے،)اور انھوں نے ان میں سے ہر ایک کے بارے میں ایک الگ خط میںبڑی تفصیل کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ جلد ہی مجھ پر یہ بات واضح ہوگئی کہ اس نعمتِ غیر مترقبہ کو صرف اپنی ذات تک محدود رکھنا ایک طرح کی علمی خیانت ہوگی۔ جہاں تک یوسا کے کتابچے سے میری ذہنی تربیت کا سوال پیدا ہوتاہے، تووہ توچند سال پہلے اسے انگریزی میں پڑھتے وقت ہوہی گئی ہوگی، ترجمہ کرنے سے میرا مقصد اسے اردو قاری تک پہنچانا تھا، اور جو شاہد صاحب مجھے لکھ لکھ کر بھیج رہے تھے، وہ بھی ایک لحاظ سے اسی کتابچے کا ضمیمہ تھا، سو اسے قاری تک پہنچنے سے کیوں روکا جائے؟ الغرض، میںنے انھیں مشورہ دیا کہ وہ اپنے خطوط کہیں چھپواکیوں نہیں دیتے۔ یہ تو ٹھیک ہے کہ شاہد صاحب کو تہذیبی طور پر تصوف سے کافی دل چسپی ہے، تاہم یہ تعین کرنا مشکل ہے کہ وہ فناے ذات کے ماورا پہنچ چکے ہیں اور ذاتی تشفی (میںلکھنا تو ”تشفیِ اَنا“ چاہتا تھا) جیسی مادی چیزوں سے مستغنی ہوگئے ہیں۔ تاہم ہماری طرف والی وضع داری اور کسر نفسی ان میں شایدبہ درجہ اتم موجود ہے۔ بڑی ردو قدح کے بعدجب تیار ہوئے تو اس شرط پر کہ میں بھی اس سرگرمی میںان کا شریک بنوں۔یہ سراسر دھاندلی تو خیر تھی ہی، مگر میں اس خیال سے شامل ہوگیا کہ بہ صورت دیگر بعض اہم اور وزنی باتیں لوگوں تک پہنچنے سے رہ جائیں گی۔حضرات! ان خطوط کو مکالمے سے زیادہ ادب کے ایک سنجیدہ اور بے لوث لیکھک کا خود کلامیہ سمجھیے۔ میں اس شرارت میں جب اپنے حصے پر غور کرتا ہوں ،میرے سامنے ایک دہشت گرد کا پیکرگھوم جاتا ہے جو فتیلہ دکھا کر خود غائب ہوجائے اور پھر دور سے جہاں سوزی کا منظر دیکھے۔ بس اتنے فرق کے ساتھ کہ یہاں ”جہاں سوزی“ کا منظر نہیں تھا، بل کہ بڑی دل نواز آتش بازی کا۔اپریل مئی ۸۰۰۲ تک یو سا کے جتنے خطوں پرشاہد صاحب رائے دے چکے تھے اور میں بیچ میں ”ہاں، ہاں، ہوں، ہوں“کر کے ان کی شرط سے عہدہ برا ہوتا رہا تھا(”آنکھیں میری باقی ان کا“ )وہ ”نقاط“ کے تازہ شمارے میں شائع ہوگئے ہیں۔ باقی کے تین چار خطوں پر ہونے والی مراسلت یہاں دی جارہی ہے۔ اس تعطل کی الگ کہانی ہے۔ ہوا یوں کہ میں اوائل جون میں ترکی چلا گیا، جس سے مراسلت میں رخنہ پڑگیا۔ جب لوٹا تو کئی بیماریوں نے گھیر لیا، تاہم اس دوران میں شاہد صاحب کے خط آتے رہے، گو میں ان کا جواب نہ دے سکا، اور جب دیا بھی توناکافی اور سب کا بس ایک ہی خط میں۔ میری طبیعت کے سنبھلنے تک خود وہ عمرہ کرنے جا چکے تھے۔ شاہد صاحب نے اس مراسلت میں اکثر ادبی زبان اور بڑی دل موہ لینے والی شائستگی سے میری کم آمیزی یا، بل کہ، عدم موجودگی کی شکایت کی ہے۔ بہ ہر حال ،اس ضمن میں جو میںان سے کہنا چاہتا تھا ، کہہ چکا ہوں، اور وہ سمجھ بھی گئے ہیں۔ لیکن مجھے گمان ہوتا ہے کہ یہاں قارئین کو بھی یہی خاموشی کھٹکے گی؛ سو بہتر ہوگا کہ میں چند لفظوں میں اپنے موقف کا اظہار کردوں، اگر چہ میں نے اپنے خطوں میں کہیں کہیں، پاس ادب کی حدود میں رہتے ہوئے، اشاروں کنایوں میں اس کے اظہار کی کوشش تو کی ہے، اور اپنے آخری خط میں، گو بہت زیادہ تو نہیں، تاہم قدرے وضاحت کے ساتھ۔ لیکن اس سے پہلے میں دو تین باتیں اور کرنا چاہتا ہوں جن کا تعلق شاہد صاحب کے ان خطوں سے ہے جو یہاں دیے جارہے ہیں اور جن کا جواب بیماری کی وجہ سے میں اپنے آخری خط میں نہ دے سکا۔ شاہد صاحب کو یہ توقع تھی کہ میں ”نقاط“ والے ابتدایئے میں یوسا کے سوانح قدرے تفصیل سے لکھوں گا۔ یہ میرا منشا نہیں تھا۔ میرے حساب سے ایک مختصر سا تعارف ہی کافی تھا۔ اس کے بعد مزید تفتیش ان لوگوں کی ذمے داری تھی جو اس کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے خواہاںہوں۔ شاہد صاحب یوسا کے ”زقندوں“ والے خط کو بہت زیادہ مفید مطلب نہیں پاتے۔ ظاہر ہے اس سلسلے میں کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن یہ بھی کچھ کم نہیں کہ اس بے اطمینانی کے سبب وہ خود اس نکتے کی چھان بین میں بہت گہرائی تک اتر گئے ہیں جس سے ہم سب کا فائدہ ہواہے۔ان خطوں میں اور ان سے پچھلے والوں میں بھی انھوں نے بار بار مجھے بعض تراکیب اور مفرد الفاظ کے کھردرے پن سے متنبہ کیا ہے اور بعضوں کے واسطے مناسب متبادل پیش کیے ہیں۔ وضاحتاً عرض ہے کہ ادبی تنقید سے متعلق انگریزی اصطلاحوں کا ترجمہ کرنا خاصا مشکل کام ہے۔ ان کے اردو متبادل آسانی سے ملتے بھی نہیں اور مناسب اصطلاحوں کو وضع کرنے میں خاصا غور و فکر درکار ہوتا ہے۔ یہ تراجم ”مسودہ“ ہی تھے، ”مبیضہ“ بننے کی ابھی نوبت نہیں آئی تھی۔ میں نے اس نیت سے انھیںجستہ جستہ چھپنے دیا اور خاص طور پر شاہد صاحب سے دکھوالیا کہ اس طرح متبادل الفاظ تجویز کیے جائیں گے اور ان کے کتابی شکل میں شائع ہونے تک قدرے صحت مند نسخہ تیار ہوجائے گا۔(مجھے خوشی ہے کہ شاہد صاحب توقع پر پورے اترے۔)سو یہ ابھی تک ایکwork in progressہیں۔ پچھلے دنوں میں اسلامی فلسفے اور خاص طور پر تصوف کی مابعد الطبیعیات سے متعلق اپنی بعض پسندیدہ انگریزی نگارشات کا ترجمہ کرتا رہا ہوں۔ ان میں سے دو تین مقالے عین القضات ہمدانی (وفات: ۱۱۳۱)کی فکر کی بابت بھی تھے۔ جب مراسلت کے دوران مجھے شاہد صاحب کی تصوف سے دل چسپی کا علم ہوا، تو میں نے ان میں کا ایک ترجمہ انھیں پڑھنے کے لیے بھیجا۔ اب اسے ایک فعّال ذہن کی”کارستانی“ کہنا چاہیے کہ انھوں نے عین القضات کے بعض خیالات اور تصورات کو فکشن کی سرزمین میں ”بے مہار“ چھوڑ دیا، جو مجھے بڑی دل موہنی حرکت لگی۔ چوں کہ یوسا اور شاہد صاحب دونوں نے ”الف لیلہ و لیلہ“ یا” کہانی در کہانی“ کا حوالہ دیا ہے، چناں چہ اس کی پیروی میں ، یہ کہانی ، بل کہ ”در کہانی“بھی سنیے: مصر میں ایک سرجن صاحب ہیں۔ نام ہے محمد کامل حسین۔ یہ سر وں کی مرمت ہی نہیں کرتے، سر سے کام بھی لیتے ہیں، خاص طور پر اس کے اس حصے سے جس کا تعلق” متخیلہ“ سے ہے۔ یعنی، یہ انشائیے اور ناول وغیرہ بھی لکھتے ہیں۔ ایک بار یہ فروئڈ کی کتاب Moses and Monotheism پڑھ رہے تھے ۔ جہاں ان کا سابقہ اس مفروضے سے پڑا کہ افراد کی طرح جماعتیں اور گروہ بھی اپنی تاریخ کے اوائل میں بعض ایسے سنگین واقعات سے گزرتے ہیں جو ان کی اجتماعی شخصیت کے خط و خال متعین کردیتے ہیں اور یہ خط و خال ان کے اجتماعی حافظے میں اس طرح مرتسم ہوجاتے ہیں کہ نسلاً بعدنسلاًاس گروہ کے تمام افراد میں ان کے نقوش ظہور کرتے رہتے ہیں۔ حسین صاحب نے اس مفروضے کو آزمانے کی ٹھانی اور ہدف کے طور پر Monotheismکے معاصر معتقدین (یعنی یہودی، عیسائی، اور مسلمان)کا انتخاب کیا۔ آج کے یہودیوں، عیسائیوں، اور مسلمانوں میں بلا شرکتِ غیرے وہ کیا خصوصیت ہے جو ان کی ابتدائی تاریخ کے کسی خاص واقعے سے مشتق ہو۔شہرزاد کی طرح، آج رات میں اس ”خصوصیت“ کی کہانی تو آپ کو نہیں سنا¶ں گا جو حسین صاحب نے ان تینوں گروہوں کے معاصر پیرو¶ںمیں پائیں، صرف اتنا عرض کروں گا کہ اس مفروضے کو آزمانے کے لیے انھوں نے یہودیوں کے بارے میں ایک مضمون لکھااور عیسائیوں کے بارے میں ایک پورا ناول”قریة ظالمة“ (اس کا انگریزی ترجمہ The City of Wrong: A Friday in Jerusalem شائع ہوچکا ہے )، اور بے چارے مسلمانوں کو ایک دو جملوں میں ٹرخا دیا کہ ان لوگوں میں جو یہ فوق الانسانی (شاید کہنا تو وہ ”کیہوتانہ“ چاہتے ہوں گے) اعتماد پایا جاتا ہے تو اس کی وجہ جنگِ بدر میںتمام قرائن کے برخلاف ان کی غیر معمولی کام یابی تھی (کیوں کہ ملا ئک کی دست گیری شاملِ حال رہی تھی)۔ تو پھر کیا ہوا؟ میں کہنا کیا چاہتا ہوں؟....آپ پوچھیں گے۔صاحب،اب ظاہر ہے کہ فروئڈ کے مفروضے ، اور اس مفروضے پر کامل حسین صاحب کے مفروضے کو تجربی سطح پر آزما کر اس کی صحت پر یقین کامل کے درجے کو پہنچنا، اور دوسروں کو اس پرپہنچانا، ناممکن ہے۔ اس کے باوجود اس بات میں کلام نہیں کہ دونوں حضرات کی یہ نادر ذہنی کاوش خود اپنا انعام ہے۔ بل کہ کم از کم میں تو اس فطانت کو رشک کی نظر سے دیکھتا ہوں۔بعض اوقات مفروضوں کا درست ثابت ہونا اتنا اہم نہیں ہوتا جتنا ان کو قائم کرنے کی جرات۔ اس سے غور و فکر کے نئے پہلو اجاگر ہوتے ہیں اور نئے نئے امکانات معرض وجود میں آتے ہیں۔ اب ان ساری ضمنی یا ذیلی کہانیوں کو (شاہد صاحب انھیں ”کہانی در کہانی“ کہیںگے؛ یوسا ”پرنانی کہانی“ کی ”اولاد کہانیاں“ کہے گا) سمیٹیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ شاہد صاحب نے یوسا کی”پوشیدہ حقیقت“ اورایک عارف اور صوفی کی ”حقیقت“ (منصور حلاج کے ”اناالحق !“ والی) کے درمیان جو منا سبت تلاش کر لی ہے وہ ایک کام یاب فکشن ہے۔ ان معنی میں کہ ان کے زورِ بیان سے ایک مفروضے پر حقیقت کا گمان ہونے لگتا ہے۔وہ جو اصلاً مفروضہ ہے، سخت ناگزیر اور غلبہ آور معلوم ہونے لگتا ہے۔ تو صاحب، جسے یہ ملکہ حاصل ہو، اس پرکیسے رشک نہ آئے۔ ایک لحاظ سے ان کی بات کسی حد تک صحیح بھی ہے ۔ یعنی مناسبت ہے اور ان معنی میں کہ دونوں نظاموں کو ایک دوسرے سے بالکل الگ رکھ کر متوازی خطوط پر اپنے اپنے منطقوں میں آگے بڑھنے دیا جائے تو اپنے مقصود کے حصول کے لیے ان کے طرز عمل میں مناسبت پائی جائے گی۔ لیکن جہاں تک ان کے ہدف (”حقیقت“)کا تعلق ہے، تو خود یہ جس ”حقیقت“ کے جویا ہیں، وہ کوئی ایک چیز نہیں۔یعنی جو ”حقیقت“ دونوں نظاموں کے حساب سے ” پوشیدہ “ ہے، وہ کوئی یک ساں حقیقت نہیں۔ اور جو چیز دونوں میںمشترک ہے، وہ صرف”پوشیدگی“ ہے۔ بحث ضرورت سے زیادہ لمبی ہوجائے گی۔ سو مختصراً یوں سمجھیے کہ فکشن نگار جس حقیقت کا متلاشی ہے وہ اول آخر اس کے تخیل کی پیداوار ہے، جسے وہ اپنے اوزاروں کی حدّت اور اپنے استعمال کی مہارت سے معرض شہود میں لاکر اس طرح پیش کرتا ہے کہ وہ معروضی حقیقت نظر آنے لگتی ہے۔ پھر اس سارے عمل میں کسی لمحے بھی وہ اپنے شعورِ ذات سے غافل نہیں رہتا، بل کہ ایک لحاظ سے یہ سارے کا سارے عمل خود اسی نمائش ذات کاکیا دھرا ہوتا ہے۔ ایک عارف/صوفی جس حقیقت کا جویا ہے وہ ”حقیقت مطلق“ ہے ، یا بل کہ ”وجود“ بہ ذاتہ۔ اور یہ انفرادی وجود نہیں، بل کہ وجودِمطلق ہے جو عالم مظاہر (جو اس وجود کے مختلف تعینات یا تجلیات پرمشتمل ہے)میںجاری و ساری ہے اور صرف جزوی طور پر ہی مجسم ہوا ہے۔ (”وجود“ کو اکثر ”موجود“ سے خلط ملط کردیا جاتا ہے، حا ل آں کہ ”موجودگی“ اس کے لیے شرط نہیں۔) اس حقیقت کے حصول، یعنی اس کی اس کیفیت کی طرف رجوع جب یہ ابھی ”مظاہر“ تک نہیں پہنچی تھی، یا ان میں متجلی نہیں ہوئی تھی، صرف اسی طرح ممکن ہے کہ اس کے اور اپنے درمیان حائل ہر حجاب کو ہٹا دیا جائے، یہاں تک کہ خود ذات کی آگہی بھی باقی نہ رہے۔ (درد کا شعر ہے: ”وا کردیے ہیں شوق نے بند قباے حسن / غیر از نگاہ اب کوئی حائل نہیں رہا“۔)اس صورت میں نہ شاہد باقی رہتا ہے نہ مشہود اور نہ خود مشاہدہ۔ اس نعمت غیر مترقبہ کا انفرادی ”ذات“ کے نقطہ¿ نظر سے منفی پہلو تو یہ ہے کہ فکشن اور فکشن کی دنیا ، بل کہ خود مظاہر کی دنیا، سب ہیچ ہوجاتی ہے(اور تو اور خود ذات بھی)، اور مثبت پہلو، جو عارف کا مقصود ہے، یہ کہ سب کچھ وجود کی وحدت میں تحلیل ہوجاتا ہے یا اس کی کلیت میں سمٹ جاتا ہے۔ تو جہاں میں شاہد صاحب کے دقیق تجزیے کی افادیت کا معترف ہوں، وہاں یہ وضاحت بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ ”پوشیدہ حقیقت“ کے ضمن میں فکشن کی حقیقت اور تصوف کی حقیقت کے فرق کو ظاہر کردوں۔ اب وہ لمحہ آ پہنچا ہے جہاں اپنے ”آتش زن“ کے کردار کا اعتراف کرلیا جائے، لیکن یہ واردات نادانستہ تھی، جزوی طور پر زبان کے معاملے میں اپنی نارسائی کا نتیجہ۔ یہ سارا گھپلا خود میرا کھڑا کیا ہوا ہے، گو اس میں نہ شعور کو دخل تھا نہ نیت کا فتورتھا۔ دراصل یوسا کے انگریزی مترجم نے زیر نظر باب کا جو عنوان قائم کیا ہے وہ "The Hidden Fact"ہے۔ ”فیکٹ“ کے لیے ہمارے یہاں جو الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں وہ ”امر واقعہ،“ ”صورت حال،“ ”اصلیت،“ ”حقیقت،“وغیرہ ہیں۔اصل میں ”فیکٹ“ وہ چیز ہے جس کی صداقت کا انحصار ذہنی یا عینی شہادت پر ہو۔ اس معنی میں یہ ”حقیقت“ کی بے کنار وسعت کے مقابلے میں بڑی محدود سی چیز ہے۔ میں نے اس عنوان کا ترجمہ ”پوشیدہ حقیقت“ کیا تھا، جو ظاہر ہے حسب ضرورت موزوں نہیں۔ اس ساری گڑ بڑ کا ذمے دارسراسر میں ہوں۔ —×— ”کہانی در کہانی“ سے پہلے جس ”موقف“ کی طرف اشارہ ہوا ہے اس کی طرف لوٹتے ہوئے: میرے حساب سے کوئی بھی اچھی تخلیق ایک نامیاتی وحدت ہوتی ہے۔ اگر یہ ہمیں متاثر کرتی ہے تو اس کی تاثیر کا راز اس بات پر نہیں ہوتا کہ ہم اس کے اجزاے ترکیبی کی خوبی کو فرداً فرداً سراہ رہے ہیں۔ یہ تاثیر ہم پر مثبت معنوں میں ایک آفت کی طرح ٹوٹ پڑتی ہے۔ کسی بے محابا آندھی کی طرح جو ہر شے کو اتھل پتھل کر کے رکھ دے۔ ہمارے جملہ حواس پر ایک ساتھ قابض ہوجائے۔اس کے نرغے میں ہم اس کی تباہ کن طاقت کا وجودی طور پر تجربہ تو کرسکتے ہیں، یہ دماغ نہیں رکھتے کہ اس کے مختلف عناصر کا، جن کا باہم دگر ہونا اس بے پناہ قوت کا راز ہے،فرداً فرداً تجزیہ کرسکیں۔(یہ کام تو آندھی گزر جانے کے بعد کرنے کا ہے، جب مقصدجمالیاتی لطف اندوزی سے زیادہ عقلی تشفی ہوتا ہے، یا، میں تو یہاں تک کہوں گا، تسکینِ ذات۔) آپ نے اکثر ہیئت اور متن کی وحدت کے بارے میں پڑھا ہوگا۔ خود یوسا نے بھی اپنے کسی خط میں ایسی ہی بات کی ہے: اچھے فکشن کے عوامل کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا، گو ہم علمی بحث اور تجزیے کی خاطر ایسا کرسکتے ہیں۔ (اور وہ خود یہاں صرف یہی کررہا ہے۔) وہ تو یہ تک کہتا ہے کہ ان عوامل میں، جن کی نشان دہی کی گئی ہے، اور کسی فکشن کو کام یاب بنانے میں یہ جوناگزیر کردار انجام دیتے ہیں اس میں کلام نہیں کیا جاسکتا، ان کو تخلیق کے لمحے میں دریا برد کردینا ہی بہتر ہے۔یہ عجیب سا قولِ محال ہے: ایک چیز جو ناگزیر ہے اس قابل بھی ہے کہ اسے دریا برد کردیا جائے!بات دراصل یہ ہے کہ ادنا سے غوروخوض اورتفحص پر یہ عیاں ہوجاتا ہے کہ اچھے فکشن کے عناصر اچھا فکشن لکھنے سے پہلے نہیں بل کہ اس کے بعد آتے ہیں، یعنی اسی سے مشتق ہوتے ہیں۔ ہم ان کی شناخت ہی اچھے فکشن کے اندر کرتے ہیں، کسی ایسی شے کی طرح نہیں جو قائم بالذات ہو اورجس ظرف میں سمائی ہوئی ہو اس کے باہر اپنی اَٹل وجودی حیثیت اور مطلق شناخت رکھتی ہو۔سبز یا سرخ رنگ لیں، یا کوئی اور جو آپ کو پسند ہو، کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ یہ بہ ذاتِ خود اچھا ہے یا برا، اثر انگیز ہے یا بے اثر؟ہم یہ سارے اسماے صفات کسی بھی رنگ، حتی کہ کسی بھی چیز کے ساتھ نتھی کرسکتے ہیں ، بہ شرطے کہ یہ کسی ظرف کا مظروف ہوں (یا ، جملے کی رعایت سے، کسی اسم کی صفت ہوں)۔ ہم تو ان کا کسی ظرف کے بغیر تصور بھی نہیں کرسکتے۔ (یہ مثال جزوی طور پر ہی صحیح ہے، لیکن فی الحال اس سے کام چل جائے گا۔)سوکسی خاص لمحے میں اگر ہمیں ایک سرخ گلاب پسند آتا ہے ، تو یہ کہنا بے حد مشکل ہو تا ہے کہ ہماری پسندیدگی کا گھر گلاب ہے یا اس کا سرخ رنگ، لیکن جس بات میں کلام نہیں وہ یہ ہے ہمیں یہ سرخ گلاب پسند ہے۔ (”جزوی طور پر صحیح“ اس لیے کہ رنگ تو بہ ہر حال اشیا میں صورت پذیری سے قبل بھی عقلی سطح پر ، یا مجرداً، تصور کیے جاسکتے ہیں۔اس صورت میں ان کا وجود ذہنی ہوتا ہے ، عینی نہیں۔)جہاں تک اصناف ادب کے خصائص کا معاملہ ہے(یعنی ان عوامل کا جن پر ان کی کام یابی یا ناکامی کا دار و مدار ہوتاہے)، تو ان کی شناخت تخلیق سے پہلے نہیں اس کے بعدہوتی ہے، یا بل کہ یہ خود اسی سے اخذ کیے جاتے ہیں۔ عربی شاعری کو لیں۔ اگرچہ عربی شاعری کے آثار اسلام کی آمد کے پانچ سو سال پہلے سے ملتے ہیں، اس کے تنقیدی اصول، وہ جسے ہم علمِ عروض کہتے ہیں، دورِ اسلامی میں خلیل ابن احمد کی ایک اتفاقیہ دریافت کے بعد منضبط ہوئے ۔) تاہم کسی ادب پارے کی اثر انگیزی کے عوامل کی دریافت اور شناخت غیر اہم نہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ان کو جان لینے سے کوئی اچھا فکشن نگار نہیں بن جاتا، ان کا عرفان جب لکھنے والے کے شعور کا حصہ بن جائے تو پھر یہ بڑے دھیمے ، غیر محسوس، اور غیر شعوری طور پر خود بہ خود لکھنے والے کی قیادت کرتا ہے۔ ان اجزا کے میکانکی استعمال سے صرف creative writingکے نصابوںکا ایسمبلی لائن والا ادب ہی پیدا ہوسکتا ہے۔خود یوسا زیادہ سے زیادہ ادب پڑھنے کا مشورہ دیتا ہے، اور اتنی ہی شد و مد سے کام یاب لکھنے والوں کی نقالی سے دور رہنے کا، تاآں کہ لکھنے والے کو اپنا مخصوص اسلوب مل جائے۔یہی بات صدیوں پہلے عربی ادب میں بھی پیش آچکی ہے۔ دورِ عباسی کا مشہور عربی شاعر ابونُواس (وفات: ۸۱۴) خَلف الاحمَر سے، جو پورے بصرے میں سب سے زیادہ سخن شناس اور سخت گیر نقّاد کی حیثیت سے مشہور تھا، شعر کہنے کی اجازت لینے جاتا ہے۔ موخر الذکر یہ شرط لگاتا ہے کہ پہلے ایک ہزار قصائد حفظ کرکے دکھا¶، پھر اجازت ملے گی۔ ابو نُواس جا کر بادیةُ العرب کے اَعراب کے درمیان بودوباش اختیار کرتا ہے اور، حسبِ ہدایت، ایک ہزار عربی قصیدے ازبر کر کے لوٹتا ہے۔ خَلف الاحمَر چند کے سنانے کی فرمائش کرتا ہے، اور ابو نُواس اس کے حکم کی تعمیل۔ پھر پوچھتا ہے: ”اب مجھے شعر گوئی کی اجازت ہے؟“ خَلف الاحمَر کہتا ہے، ”بہ صد شوق، لیکن اِس سے پہلے یہ جو تم نے ایک ہزار قصیدے حفظ کیے ہیں، انھیں بھول کر دکھانا ہوگا۔“ تو اب اس صورت میں، جب یوسا ، میں ، اور جانے کتنے اور لوگ اس بات کے معترف ہیں کہ ہم بحث کی حد تک تواچھے فکشن کے عناصر کا تجزیہ کرسکتے ہیں، ان عناصرکے ذریعے کسی کو اچھا فکشن لکھنا لکھاناسکھا نہیں سکتے، (گو ان عناصر کی شناخت بے حیثیت نہیں،)میرا کسی بات پر قطعیت کے ساتھ اصرار کرنا، اصل میں ایک اضافی سے چیز کے ساتھ رسا کشی کرنا ہوگا، یا بل کہ ایک سایے کے ساتھ کشتی لڑنا۔ شاہد صاحب نے مزید گوشوں پر جو روشنی ڈالی ہے، اور پرانی باتوں پر نظر ثانی کی جو دعوت دی ہے، اس کی اہمیت سے انکار کفران نعمت ہوگا۔ (انھوں نے یوسا کی ”زقندوں“ کے ضمن میں منٹو کے افسانے ”کھول دو“ کی جیسی دور رس اور نکتہ ریز تشریح کی ہے اس پر میری طرح آپ بھی ان کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔) اس ادب سے بے گانہ دور میں ،میری طرح آپ بھی ان کی ادب سے شدید لگن اورسنجیدگی کا خیرمقدم کریں۔اور سچی بات پوچھیں تو تنقید سے مجھے بہت زیادہ لگاو بھی نہیں ہے۔میں تو صرف ایک اچھی تحریر میں دوسروں کو شریک کرنا چاہتا تھا اور شاہد صاحب نے نہ صرف شرکت کی، بل کہ بے محابا اور بے دریغ شرکت کی۔اور، ایک لحاظ سے، یہ کہہ کر میری تائید بھی کہ ”تنقیدی عمل تو بس چوک میں کھڑے اس چالاک آدمی کی طرح ہوتا ہے جو منزل پوچھنے والے کو دور اشارہ کرتے ہوئے ایک سمت کو ٹھیل دیا کرتا ہے۔“ ہمارے لکھنے اور پڑھنے والوں کو شاہد صاحب سے کچھ سیکھنا چاہیے: بے سوچے سمجھے تقلید سے دور رہیں۔ فکشن نویسوں کے سارے پہلو مثبت ہی نہیں ہوتے۔یوسا کی بیش تر باتوں سے اتفاق کے باوجود کئی باتوں سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے۔( بہ قول شاہد صاحب کے: ”یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ زبان ہر حال میں یوسا کے نام کا شیرہ چاٹتی رہے۔“)اور ان کا یہ اختلاف کوئی چلتی پھرتی چیز نہیں۔ اس کے عقب میںنہ صرف فکشن کا وسیع اور عمیق مطالعہ کام کررہا ہے، بل کہ ایک عاقل اور فعّال ذہن کا تخلیقی تجربہ اور سرمایہ بھی کارفرما ہے۔ بین السطور، یا بل کہ کہیں کہیں تو بالجہر، انھوں نے اپنے ہم عصر فکشن لکھنے والوں پر بڑی دور رس باتیں بھی کہہ دی ہیں ۔ ان کی تحریر سے ہمیں اردو کے معاصر منظر نامے کے خط و خال کے تعین میں بھی مدد ملتی ہے۔

— محمد عمر میمن

۶۲ اگست ۸۰۰۲‘

میڈیسن :

امریکا
///

محمد عمر میمن

برادرم حمید شاہد
السلام علیکم


۔خاصی طویل خاموشی کے بعد آپ سے مخاطب ہورہا ہوں۔ اس درمیان میں آپ کے خط آتے رہے لیکن انھیں بر وقت پڑھنا بھی ممکن نہ ہوسکا۔ آپ کی مسلسل کرم فرمائی سے اپنی ندامت کا احساس فزوں ہوتا رہا۔ یوں تو میری طبیعت اکثر نرم گرم رہتی ہے کیوں کہ بہت سی بیماریاں زبردستی مہمان بن گئی ہیں لیکن اس بار صورت کچھ مختلف رہی۔ ترکی میں تو وقت کسی نہ کسی طرح ٹھیک گزر گیا اور واپسی پر دو دن تک بھی طبیعت ٹھیک رہی لیکن اس کے بعدسے حالت بہت خراب ہوگئی۔ خیر جراثیم کش دوا کا دو ہفتے کا کورس تجویز ہوا جو ہنوز جاری ہے۔ آپ کو تو پتا ہی ہوگا کہ جراثیم کش دوائیں ایک طرف صحت بہ حال کرتی ہیں تو دوسری طرف آدمی کا پلیتھن نکال دیتی ہیں۔ نقاہت کا یہ عالم ہے کہ پلنگ سے اٹھنے کو دل نہیں چاہتا اور ہر وقت دماغ میں ایک غبار کی سی کیفیت رہتی ہے جس کی وجہ سے کسی چیز پر ارتکاز کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔پیر کے دن پھر ڈاکٹر کے سامنے پیشی ہوگی۔ دیکھیے کیا فرماتے ہیں۔ افاقہ ہے تو سہی لیکن طاقت ہنوز روٹھی ہوئی دلہن کی طرح میکے بیٹھی ہوئی ہے۔اب پتا نہیں آپ کہاں تک اس رام کہانی کو سننے کے لیے بے تاب تھے۔ اگر بہت زیادہ بور ہوگئے ہوں تو یہ سوچ کر درگزر سے کام لیں کہ آپ کے دوست کی وہی حالت ہوگئی ہے جس کا بڑا دل فگار نقشا غالب صاحب پہلے ہی کھینچ گئے ہیں: ” اب عناصر میں اعتدال کہاں“ والا شعر یاد کرلیجیے۔اور بھائی، آپ کبھی یہ خاطر میں نہ لائیں کہ میں آپ کی کسی بات کا برا منا کر اٹواٹی کھٹواٹی لے کر پڑ جاوں گا۔ اوّل تو اس عمر میں یہ بچکانہ حرکتیں زیب نہیں دیتیں(مجھے آپ سے اپنی بات صاف سیدھے طور پر کہہ دینے میں کیا مانع ہے، بس شائستگی شرط ہے)، پھر یہ کہ قرنوں کے بعد آپ ہاتھ آئے ہیں (میرا مطلب ہے دل لگتا ہوا ایک شخص)، میں آپ کو کیسے کھو دوں؟!آپ نے حسبِ معمول یوسا کے آخری خطوط سے متعلق بڑے تفصیلی خط لکھے تھے جو ترکی سے لوٹنے کے بعد میں نے پڑھ تو لیے تھے لیکن جواب لکھنے سے پہلے ہی چت ہوگیا تھا۔اب ان کے مشمولات ذہن سے محو ہوگئے ہیں، بس اڑتا اڑتا سا اپنا تاثر یاد رہ گیا ہے، لیکن اس میں بھی کسی تفصیل کی تلاش عبث ہوگی۔ میں نیچے اس تاثر کو مختصراً لکھتا ہوں، لیکن اس سے پہلے ایک شکریہ واجب ہے۔یوسا کے خطوط کے تراجم سے آپ کو جو بھی فائدہ ہوا ہو وہ اپنی جگہ، لیکن ان تراجم کے آپ کی نظر سے گزرجانے سے مجھے یقیناً بہت فائدہ ہوا ہے۔آپ نے بعض الفاظ کے جو مترادفات تجویز کیے ہیں وہ میرے لیے ایک نعمت سے کم نہیں۔ بل کہ میں تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جب میں کتاب پر ایک بار اور نظرِثانی (یہ ایک طرح کا تضادِ لفظی ہے)کر چکوں گا تو ضروری ہے کہ آپ بھی ایک بار اسے شروع سے آخر تک دیکھ لیں اور مزید نوک پلک سنوار دیں۔ آپ کو زحمت تو ہوگی لیکن اس سے ہم سب کا بھلا ہوجائے گا۔ کیا حرج ہے کہ نگارش مکمل ترین صورت میں قاری تک پہنچے۔اچھا تو وہ تاثر کیا تھا؟یہ شاید میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ آپ کے اندازِ تحریر سے مجھے پتا نہیں چلتا کہ آپ یوسا کی موافقت کررہے ہیں، مخالفت کررہے ہیں، اس کی بات کو آگے بڑھا رہے ہیں، اس پر تنقید کررہے ہیں، اس کی کوتاہیوں کی طرف توجہ دلا رہے ہیں، اور اگر یہ سب کررہے ہیں تو مجھے سے جواب میںکس چیز کے متوقع ہیں۔ بعض بعض مقامات پر مجھے آپ کی گفتگو اتنی مدلل اور اہم معلوم ہوئی کہ جی چاہا آپ سے درخواست کروں کہ آپ یوسا کے سارے خطوط ایک بار پھر پڑھ کر ایک مقدمہ قائم کریںاور مضمون کی شکل میں یوسا کے خیالات سے بحث کریں اور اپنے مطالعے کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے بتائیں کہ یوسا کی کون سی بات تشنہ رہ گئی ہے اور اسے کس طرح آگے بڑھایا جاسکتا جس سے یہ یہ اہم نکتے ہمارے سامنے آئیں گے، اور یہ نکتے ایک لکھاری کے لیے کیوں اہم ہیں۔ اس سے نہ صرف یہ کہ لوگوں کو خود بھی لکھنے کی تحریک ہوگی بل کہ کس طرح لکھنا چاہیے، اس کا سلیقہ بھی آجائے گا (انشاءاﷲ!)۔دوسری بات کا تعلق مجھ سے زیادہ ہے، بل کہ میری وضاحت سے: میں نے یوسا کے ان خطوط کا ترجمہ کس نیت سے کیا تھا؟ سامنے کی بات اس سے زیادہ نہیں کہ مجھے یہ پسند آئے تھے۔ بس۔ (ہمارے یہاں فکشن پراس طرح بہت کم لکھا گیا ہے۔ اچانک وارث علوی کا خیال آتا ہے، جو میرے دوست ہیں اور مجھے ان کی ذہانت پر پورا اعتماد ہے۔ مشکل یہ ہے کہ جب وہ تنقید کرتے ہیں تو گو وہ کافی غلبہ آور لگتی ہے لیکن بعد میں پتا چلتا ہے کہ یہ ساری باتیں کسی کلیے کی پابند نہیں، کہ ان سے چند قابل عمل اصول وضع نہیں کیے جاسکتے۔) سو مجموعی طور پر یوسا کے خطوط کی علم خیز شگفتگی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن کیا میں یوسا پر فکشن کے خاتم النبی کے طور پر آمناو صدقنا کہہ چکا ہوں۔ ہرگز نہیں۔ سو میرا مقصد کبھی یہ نہیں تھا کہ اگر اس کی فکر میں کوئی جھول ہے تو اس پر بحث شروع کردوں۔ اصل میں یوسا کے ان خطوط کے محتویات پر تنقید میرا منشا کبھی نہیں رہا تھا۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں نکلتا کہ یوساکا فکشنی تفکر کسی قسم کی تنقید سے بالا ہے۔ بس یہ تنقید یہاں میرا مقصد نہیں۔ سو مجھے نہ یوسا کی حمایت کرنی ہے نہ مذمت۔ میں تو بس اتنا ہی چاہتا ہوں کہ ایک چیز جو مجھے پسند آئی ہے اس میں دوسروں کو بھی شریک کرلوں۔اور لوگ، حسب توفیق، جو بھی فائدہ اٹھا سکیں، اٹھا لیں۔سو میرے بھائی، آپ خوب دل کھول کر یوسا کے خیالات پر تنقید کریں، اس کی اچھائیوں اور کم زوریوں کو لوگوں کی توجہ میں لائیں۔ اس سے ان کا بھلا ہوگا اور مجھے خوشی ہوگی کہ ایک اچھا کام ہورہا ہے۔بس اگر میں اس سلسلے میںکچھ کہنا چاہوں گا تو وہ یہ ہے: ہر تحریر اپنی وضع (structure)میں اثر انگیزیا پر تاثیر ہوتی ہے۔ اور وضع سے میری مرادلکھاری کا من مانا انتخاب نہیں ہے بل کہ وہ منطقی جبرہے جو ایک سلیم و بالغ لکھنے والے سے ایک خاص وضع کا انتخاب کرواتا ہے اورکسی دوسری وضع کا نہیں۔ یعنی ایک طرح کی منطقی ناگزیریت۔ یہ فن ہمارے یہاں آج کسی میں بہ درجہ اتم پایا جاتا ہے تو وہ شمس الرحمٰن فاروقی ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا، ان کی تحریر کے پیچھے ایک بے پناہ منطقی انسجام ہوتا ہے اور ان کی تحریر کا ایک حرف بھی اس کی گرفت —یا بل کہ بافت—سے باہر نہیں نکلتا۔ ارے بھائی، میں آپ کو وعظ نہیں دے رہا، بل کہ میں تو اس چیز کو اور پھلتے پھولتے دیکھنے کا خواہش مند ہوں جو آپ میں فراواں پائی جاتی ہے اور خود مجھ میں مفقود ہے۔


والسلام


آپ کا،


__محمد عمر میمن


میڈیسن:۲۴ جولائی۰۰۸ ۲